Ticker

6/recent/ticker-posts

مرے کو مارے شاہ مدار واہ عدالتی فیصلہ؟

 Murder kills Shah Madar Wow court decision?


تحریر جام ایم ڈی گانگا
مرے کو مارے شاہ مدار واہ واہ ہماری عدالتیں اور اُن کے فیصلے رُل گئے بے چارے کسان وطن عزیز پاکستان کے کسان جو پہلے ہی مختلف قسم کے مافیاز کی لوٹ مار اور معاشی ڈاکہ زنی کا شکار ہیں کبھی کھاد مافیا، کبھی فوڈ مافیا، کبھی واٹر انہار مافیا، کبھی واپڈا مافیا، کبھی آڑھتی مافیا، کبھی شوگر مافیاز الغرض وطن عزیز کا کسان تقریبا ہر سال پورا سال کسی نہ کسی مافیا کا شکار بنے رہتے ہیں کبھی وہ پرائیویٹ لُٹیروں کے ہاتھوں لُتے ہیں انتظامیہ اور حکمران صرف تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے ہیں جیسے ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی بے لگام بلیک مارکیٹنگ کے دوران ہوتا رہا ہے سرکاری ریٹ پر کھاد کے حصول کے لیے کسانوں کی بھکاریوں کی طرح لمبی لمبی لائنیں زرعی ملک کے حکمرانوں اور انتظامیہ کے منہ پر طمانچے تھے اور ہیں رولر طبقہ زیادہ سے زیادہ زبانی کلامی وارننگ دیتے اور بڑھکیں مارتے رہتے ہیں لٹیرے اپنا کام جاری رکھتے ہیں کیونکہ یہ ساری لوٹ مار اور کمیشن خوری ملی بھگت سے ہی ہوتی ہیں گذشتہ دنوں پی ٹی آئی کے سابق سنیئر صوبائی وزیر پنجاب عبدالعلیم خان نے اندرون خانہ کی جانے والی اعلی سطحی کرپشن کا جو بھانڈا بیچ چوراہے پھوڑا ہے اس سے پنجاب بھر میں ضلعی انتظامیہ کی بڑھاکو کارکردگی کی اصل وجہ بھی سامنے آچکی ہے ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر پانچ پانچ تین تین کروڑ روپے فرح شہزادی المعروف فرح گجر صاحبہ کو دے کر لگتے رہے ہیں اتنی بھاری رقم دے کر عہدے حاصل کرنے والوں نے عوام کو کیا انصاف اور ریلیف دینا ہے آپ خود اندازہ لگا لیں ضلع رحیم یارخان میں اسسٹنٹ کمشنرز گنے کے کنڈوں پر کریک ڈاؤن کیوں کیا کرتے تھے گنے کی نقل وحرکت پر قانونا کوئی پابندی نہ ہونے کے باوجود سندھ سرائیکستان  کوٹ سبزل بارڈر سیل کیوں ہوتا تھا ظلم تو یہ ہے کہ میرے وطن میں اکثر قانون بھی طاقت ور طبقات کی مرضی سے اُن کے حق میں بنتے ہیں ایک طاقتور اور کمزور فریق کے مابین عدالتی فیصلوں کا جو حال ہے اس پر بھی انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھنے کو جی کرتا ہے تازہ ترین پارلیمانی و سیاسی حالات دیکھ کر تو ایسے لگتا ہے کہ ملک کے عوام کو تحفظ فراہم کرنے والے آئین و قانون کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے یہاں خود آئین بھی انصاف مانگ رہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ  دنیا میں ہماری جوڈیشری کا 130واں نمبر ہے

ہم اس وقت کسانوں کا بات کر رہے ہیں خاص طور پر کمزور فریق گنے کے کاشت کار اور طاقتور فریق شوگر ملز ہمارا آج کا اہم موضوع ہیں 2012ء سے گنے کی ریکوری و مٹھاس سے متعلق کیس کا سپریم کورٹ سے حتمی فیصلہ نہیں ہو سکے گنے کی سرکاری کم ازکم سپورٹ پرائس کا تعین جس ریکوری بیس پر طے ہوتا ہے اُس سے اضافی ریکوری کی صورت میں کسانوں کو ایک طے شدہ فارمولے کے تحت پریمئیم ریٹ ملنا ہوتا ہے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو شوگر ملز نے سپریم کورٹ میں اپیل کرکے اتنے طویل عرصہ سے لٹکا کر کسانوں کو پریمئیم ریٹ کے جائز حق سے محروم کر رکھا ہے کسانوں کو لگنے والی اس ڈکیتی کی یہ رقم بھی اربوں روپے میں بنتی ہے میں اس پرانے شوگر ریکوری اور پریمیئیم ریٹ کیس کی تفصیل میں جانے کی بجائے آپ سب کو ایک تازہ ترین زخم یعنی فیصلے سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جسے ایک ایماندار اور کسان دوست کین کمشنر پنجاب میاں محمد زمان وٹو نے مظلوم کسانوں کے ساتھ ان الفاظ میں شیئر کیا ہے آپ پہلے اسے پڑھ لیں "جیساکہ آپ کے علم میں ہے تاندلیانوالہ شوگر مل کی رٹ پر لاہور ہائی کورٹ نے کرشنگ سیزن کے آغاز سے قبل حکم امتناعی جاری کیا تھا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر شوگر ملز کے خلاف کوئی ایف آئی آر وغیرہ نہیں ہوگی" اس رٹ کا کل فیصلہ آگیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ کسانوں کے واجبات کی عدم ادائیگی پر براہ راست مل کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوگی بلکہ اس سے پہلے ریکوری کا عمل مکمل کیا جائے گا کسانوں کی اطلاع کے لئے ریکوری کے عمل کا طریقہ کار دیا جا رہا ہے ریکوری کے لیے کاشتکار کو کین کمشنر کو درخواست دینا ہوگی جس پر مل کو  طلب کیا جائے گا اور شہادت اور جرح ہوگی کسان کے حق میں فیصلہ کی صورت میں شوگر مل سیکرٹری خوراک کے پاس اپیل کر  سکے گی۔ وہاں سے کسان کے حق میں فیصلہ کی صورت میں مل ہائی کورٹ رٹ کر سکے گی اور اس رٹ کے فیصلہ کے خلاف مل سپریم کورٹ میں اپیل کا حق رکھتی ہے اس چیز کا غالب امکان ہے کہ اس  عمل  میں مہینے اور بعض صورتوں میں سال لگ سکتے ہیں کیونکہ عدالتوں میں مقدمات کا کافی لوڈہے عدالت عالیہ کے اس حکم کے تحت کسانوں کے واجبات کی ادائیگی کا عمل بہت سی مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے ایف آئی آر کے اختیار کی موجودگی میں بھی بعض شوگر ملز  کسانوں کے واجبات کی ادائیگی میں بہت تاخیر کرتی تھیں۔ اس حکم کو اس طرح کی شوگر ملز کسانوں کے واجبات کی ادائیگی میں تاخیر کے لیے استعمال  کر سکتی ہیں کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے ہم آج ہی اس حکم کے خلاف اپیل دائر کر رہے ہیں۔ لیکن چونکہ اصل ایگریویڈ یا متاثرہ فریق کسان ہیں لہذا آپ کو اس فیصلہ کی اطلاع دی جا رہی ہے اگر کسان چاہیں تو اس فیصلہ کے خلاف  انٹرا کورٹ اپیل کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : پنجاب پولیس کے ایک گمنام سپاہی کا نوحہ

محترم قارئین کرام، عدالت کا یہ فیصلہ مظلوم و کمزور کاشتکاروں کے ساتھ سراسر ناانصافی و زیادتی ہے گویا شوگر ملز مافیا کو کسانوں کے پیسے دبانے اور پھر کسانوں کو ہی ذلیل و خوار کرنے کا اجازت نامہ اور لائسنس جاری کیا ہے ذرا سوچے ایک عام کسان کے لیے اپنی سال بھر کی محنت سے برادشت کی گئی گنے کی فصل کی رقم کی وصولی کے لیے اتنا طویل ترین پراسس اس کے بنیادی حق پر شوگر ملز کو ڈاکہ زنی کرنے کا محفوظ راستہ فراہم کرنے کے مترادف ہے کسانوں کو کین کمشنر میاں زمان وٹو کا ممنون و مشکور ہونا چاہئیے کہ انہوں نے بروقت کسانوں کو ان کے معاشی بلینڈر سے آگاہ کر دیا ہے کسان تنظیموں کے سربراہان اور بڑے بڑے گنے کے کاشتکاروں کو چاہئیے کہ وہ اس غیر منصفانہ اور طرفدارانہ فیصلے کے خلاف فوری طور پر اپیل کرکے اس کیس میں فریق بنیں لیڈر شپ اور ٹی وی چینلز پر آنے کے شوقین کسان لیڈرز آگے بڑھیں یا اپنی اپنی نام نہاد قسم کی لیڈر شپ کو خدا حافظ کہہ کر گھر بیٹھیں یہ ہٹیاں اور کھوکھے بند کریں. اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ گنے کے کاشت کار خود جاگیں ورنہ بعد میں ذلت و خواری ہمیشہ ان کا مقدر بن جائے گی گنے کے بڑے بڑے زمیندار آگے بڑھیں بذریعہ اپیل کیس میں فریق بنیں یا پھر گنے کو کاشت کرنا چھوڑ دیں کسان کا گنا بغیر پیسے کے شوگر ملز کو مل جاتا ہے کرشنگ ہو کر چینی بن جاتی ہے اچھی شہرت کی حامل شوگر ملز سے کسان کو ایک مہینے سے دو مہینے بعد تک گنے کے پیسے ملتے ہیں بددیانت شوگر ملز پیسے دبا لیتی ہیں اور لمبا عرصہ ادائیگی نہ کرکے نہ صرف کسانوں کو ذلیل و خوار کرتی ہیں بلکہ جگہ جگہ اُن کا استحصال بھی کرتی ہیں افسوس صد افسوس کہ عدالت نے کمزور فریق کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے الٹا انہیں ذلیل و خوار کرنے والا فیصلہ صادر فرما دیا ہے ماما سلطان لاڑ کا کہنا ہے کہ میں خود ایک کسان ہوں گنے کا دس ایکڑ کا مستاجر کاشت کار ہوں طوفانی مہنگائی، مہنگے ڈیزل، مہنگی زرعی بجلی، نہروں کی مسلسل بندش، ڈی اے پی اور یوریا کھاد کی بلیک مارکیٹنگ کے بعد گنا برداشت کرکے مجھے جو رقم بچت ہوئی ہے اس سے میں ہائی کورٹ جا کر وکیل کی فیس اور دیگر اخراجات اٹھانے کے قابل نہیں ہوں میں نے ابھی تو گنے کی کچھ رقم بھی شوگر ملز سے لینی ہے میں تو شادی بیاہ، دُکھ سُکھ، بیماری علاج، گھر اور اگلی فصل کے اخراجات سے پریشان ہوں. ان حالات میں کیا کروں "عدالت تاں اساکوں خونخوار ظلمی شینھ دے منہ وچ ڈے ڈتے"

یہ بھی پڑھیں : خواب میں پالکی دیکھنے کی تعبیر

کسان بھائیو! ماما سلطان لاڑ کی بات زمینی حقائق کے عین مطابق ہے سیاستدان حکمرانی کی کرسی. کے حصول کی لڑائی میں مشغول ہیں اکثر اعلی سرکاری آفیسران بڑی بھاری رقمیں خرچ کرکے آئے اور لگے ہوئے ہیں. کسان لیڈر شپ ہزاروں لوگوں کے مجمع کے بغیر سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ہمیں حالات سے مایوس اور ظُلمات سے گبھرانا نہیں چاہئیے اپنی مدد آپ کے تحت ضلع اور تحصیل سطح پر باہر نکل کر احتجاجی پروگرام کرنے چاہئیں ڈپٹی کمشنرز اور اسسٹنٹ کمشنرز کے دفاتر کے سامنے یا پریس کلبوں کے سامنے کسان ماتم محفل سجائیں جائیں کسان بچاؤ، زراعت بچاؤ کے ساتھ ساتھ عدلیہ بچاؤ آئین بچاؤ کے سلوگن اور نعروں کی صدائیں بلند کرنی چاہئیں آخر زنجیریں تو ہلانا پڑیں گی

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent