Ticker

6/recent/ticker-posts

تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میانوالی قریشیاں کرایے پر دستیاب

Tehsil Headquarter Hospital Mianwali Qureshiyan available for rent

اپنی لوکیشن کے لحاظ سے ٹی ایچ کیو ہسپتال میانوالی قریشیاں تحصیل رحیم یارخان نہایت ہی اہم جگہ پر واقع ہے بزدار دور حکومت میں یہاں سے تعلق رکھنے والے دو وزراء بھائیوں نے گُمشدہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو تلاش کرکے اس جگہ پر بنوایا تھا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم ہاشم جواں بخت کے اہم اور اچھے منصوبوں میں سے ایک ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپنے پہلے دن سے لیکر آج تک یہ ہسپتال مسائل در مسائل کا شکار چلا آ رہا ہے بلڈنگ کا ایک پورشن ڈیڑھ برس پہلے مکمل ہوا ہے اور ایک پورشن ابھی تک مکمل ہونا باقی ہے آپ یہ سُن کر حیران ہوں گے کہ یہ مکمل بلڈنگ ابھی تک محکمہ بلڈنگ کی جانب سے محکمہ صحت کو باقاعدہ طور پر ہینڈ اوور ہی نہیں کی گئی یقینا یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ جب بلڈنگ ہینڈ اوور ہی نہیں ہوئی تھی تو پھر اقتدار کے آخری ایام میں اس وقت کے صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے ہسپتال کا افتتاح کیسے کر ڈالا تھا اگر ہم حکومتی اور انتظامی کارناموں پر نظر دوڑائیں تو اس طرح کی بے نظر قسم کی کئی مثالیں ہر شعبے میں دیکھنے کو ملیں گی آر وائی کے شوگر ملز کے بارے میں بھی یہی کہتے ہیں کہ مکمل منظوری سے قبل اس چالو کر لیا گیا تھا خیر شبعہ صحت میں اس قسم کے فلاحی کام کو عوامی مفاد کے پیش نظر رعایت دی جا سکتی ہے

کالم نگار و سنئیر صحافی جام ایم ڈی گانگا

عوامی، سماجی اور سیاسی شخصیات کو ہسپتال مذکورہ کے مسائل کو بلاتفریق حل کرنے اور کروانے پر دیانتداری سے کوشش کرنی چاہئیے یہ ایسا منصوبہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت اور افادیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ہسپتال میں ضرورت کے مطابق جراحی کے آلات و سامان دستیاب نہیں ہے حادثاتی مریضوں کے لیے ادویات کا کوٹہ خاصا کم ہے حالانکہ کے ایل پی روڈ کنارے آباد ہونے کی وجہ سے یہاں مریضوں کی تعداد خاصی زیادہ ہوتی ہے ڈاکٹرز، سٹاف خاص طور پر نرسز کی کمی کی وجہ سے ہسپتال میں خدمات کا دائرہ محدود ہے خاص طور پر یہاں مریضوں کو داخل کرنے کی بجائے ٹرخالوجی پالیسی کے تحت اس  مریض کو شیخ زید ہسپتال لے جاؤ کہہ کے ریفر کر دیا جاتا ہے ہسپتال میں دو دو میڈیکل آفیسر اور ہوم آفیسرز ہیں کنسلٹنٹ کی منظور شدہ 9 سیٹوں میں سے صرف چار موجود ہیں باقی 5خالی ہیں نرسز کی 14 سیٹوں میں میں صرف 4 موجودہ ہیں باقی10 سیٹیں خالی ہیں الغرض ہر جگہ منظور شدہ سیٹوں کے مقابلے میں تعینات شدہ ڈاکٹرز و سٹاف کم ہے ہسپتال کے دیگر سب سے اہم مسائل میں سینیٹری ورکرز کا مسئلہ اہم ہے میں یہاں پر یہ بھی بتایا چلوں کہ ایک برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ہسپتال کے لیے آیا ہوا بجلی کا ٹرانسفارمر نمائش کے طور پر نیچے پڑا ہے اسے انسٹال کرکے ہسپتال کے لیے بجلی کے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکا ڈی سی اور ایکسئین بلڈنگ کرنے پے آئیں تو ادھوری یعنی بغیر ہینڈ اوور بلڈنگ میں ہسپتال کا افتتاح کروا دیں اگر کام نہ کرنا چاہیں تو ٹرانسفارمر نیچے پڑا بے شک خراب ہوتا رہے ہسپتال والے مسائل کا شکار رہیں انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی

یہ بھی پڑھیں : بغیرانویسٹمنٹ کے کاروبار کریں 

اب سونے پے سہاگہ ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان خرم پرویز اور سی او ہیلتھ چودھری غضنفر شفیق کے تازہ ترین احکامات کا جائزہ لیں دونوں صاحبان نے آنکھیں بند کرکے محکمہ صحت کی ٹراما سنٹر والی بلڈنگ کا حصہ بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام کے سب آفس کے لیے دے دی ہے عارضی یا مستقل کیا انہیں یہ بلڈنگ کسی دوسرے محکمے، پروگرام، پراجیکٹ کے لیے دینے کے اختیارات موجود ہیں یا نہیں اختیارات کے موجود ہونے کی صورت میں بھی محکمہ صحت بنیادی اہمیت کا حامل ہے نہ کہ بے نظیر انکم سپورٹس پروگرام گورنمنٹ خواجہ فرید رحیم یارخان نے بھی ضلعی انتظامیہ کے کہنے پر اپنا لیاقت ہاسٹل اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کو رحیم یار خان سب کیمپس کے لیے عارضی طور پر ٹھیکہ پر دیا تھا پھر دیکھنے والوں نے دیکھا کہ خواجہ فرید کالج کو اپنا ہاسٹل اور جگہ واگزار کرانے کے کیے کئی سال باقاعدہ عدالتی جنگ لڑنی پڑی لیکن طلبہ سے بطور ہاسٹل چھینا گیا ہاسٹل انہیں بطور ہاسٹل آج تک واپس نہیں مل سکا غریب و متوسط کلاس کے طلبہ ہاسٹلز نہ ہونے کی وجہ سے در بدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں بھاری کرایے ادا کر رہے ہیں عدم تحفظ کا احساس (قریبی) میں مفت مل رہا ہے عظیم باپ مخدوم شہاب الدین کے عظیم فرزند عوامی ہیرو مخدوم طاہر رشید الدین مرکزی رہنماء پی پی پی پی پی این اے 171 نے عوامی مطالبہ پر ٹی ایچ کیو ٹراما سنٹر میانوالی قریشیاں میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سروے سب آف منظور کروا کر عوامی وعدہ وفا کر دیاہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ واپڈا سب ڈویژن میانوالی قریشیاں کا ایس ڈی او آفس بھی کئی سال واپڈا گریڈ اسٹیشن میانوالی قریشیاں کے اندر رہائشی کوارٹرز میں کام کرتا رہا ہے واپڈا کی حرامزدگیوں کے خلاف جب کوئی احتجاج کرتا تو انہیں فورا یہ دھمکی لگائی جاتی تھی کہ یہ حساس جگہ ہے آپ نے زیادہ شور کیا تو پرچہ درج کروا دیں گے. بہرحال وقت کے ساتھ ساتھ مسائل بڑھنے لگے عوام میں سے یہ سوال اٹھا کہ آپ کو ایک عوامی دفتر حساس ترین جگہ کے اندر بنانے کی آخر کس نے اجازت دی ہے آپ کو لوگوں کے مسائل سننا ہوں گے یا پھر عوامی دفتر کو گریڈ کے اندر سے باہر نکالنا ہوگا آخر کار جیت عوام کی ہوئی 

یہ بھی پڑھیں : خواب میں چیل دیکھنے کی تعبیر

قومی بھکاریوں اور مریضوں کو یکجا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے بے نظر انکم سپورٹ پروگرام میں شور شرابہ سننے اور لمبی لمبی لائینں دیکھنے کو ملتی ہیں جبکہ مریضوں کو سکون اور آرام درکار ہوتا ہے میں عظیم باپ کے عظیم بیٹے سے ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان خرم پرویز اورایکسئین چودھری غضنفر شفیق سے اپنے اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی گزارش کرتا ہوں کہ ہسپتال کو ہسپتال رہنے دیں اسے قومی بھکاری میلہ گاہ میں نہ بدلیں ٹی ایچ کیو ہسپتال میانوالی قریشیاں کرایہ پر دیا گیا ہے ٹھیکہ پر دیا گیا یے یا مفت دیا گیا ہے یہ ہسپتال قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 171 اور صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی 261 میں واقع ہے ہر دو عوامی نمائندگان و ممبران اسمبلی رئیس ممتاز مصطفیٰ ایڈوؤکیٹ، جام امان اللہ کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اپنے متعلقہ فورمز میں اس حوالے سے ضرور پوچھیں جواب لے کر اپنے عوام کو جواب دیں صوبہ پنجاب میں یہ پہلا ٹی ایچ کیو ہسپتال ہوگا جس کے اندر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا سب آفس بھی ہوگا اسے کسی اعزاز کا نام دیا جائے یا انتظامی بدنظمی کہا جائے مخدوم ہاشم جواں بخت اور مخدوم خسرو بختیار کی طرح آج کسی مائی کے لال کو گُمشدہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تلاش کرکے اسے بھی کسی مناسب جگہ پر بنوانا چاہئیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کواڑٹر ہسپتال کہاں گیا آسمان اٹھا کےلے گیا یا زمین نگل گئی؟

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent