Kidnapping and recovery of one and a half year old girl, well done responsible citizen
تحریر،جام ایم ڈی گانگا
ملک اور معاشرے سے جرائم کے خاتمے کے لیے اور سماجی مسائل کے حل کے لیے اگر سماج کے تمام طبقے اور تمام لوگ دیانتداری سے اپنا اپنا فرض نبھانے لگ جائیں جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کا کسی بھی وجہ سے رکھ رکھاو کرنا چھوڑ دیں.ظالم اور ظلم کی بجائے مظلوم اور سچ کا ساتھ دینے کا تہیہ کر لیں ظالم اور طاقت ور کے خوف سے خاموش رہنے کی روش ترک کردیں قانون، قانون نفاذ کرنے والے اداروں اور محافظوں کے معاون بن جائیں تو یقین کریں کہ کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے معاشرے میں سے جرائم کا خاتمہ نہ ہو سکے ہمارے مسائل کے حال میں آسانیاں اور حیران کن پیش رفت نہ ہو سکےلیکن دوسری جانب یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ جب سے اداروں میں سیاسی مداخلت بڑھی ہےسیاسی لوگوں نے اپنے اپنے کارندے ان اداروں میں گھسائے ہیں تب سے حالات بد سے بدتر یوتے چلے گئے ہیں اداروں کے اندر موجود کالی بھیڑوں کی وجہ سے عوامی گھیپ بڑھتا اور اعتماد کمزور ہوتا چلا گیا جب جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کی نشاندہی کرنے والے خود نشان عبرت بننے لگے تو معاملہ بالکل ہی الٹ ہو گیاپولیس کو قانون اور عوام کا محافظ کہنے کی بجائے کچھ اور کہا جانے لگا خیر چھوڑیں یہ ایک علیحدہ اور طویل بحث ہے ہم اپنے آج کے ہیڈ ٹاپک اور ایک ذیلی ٹاپک کی طرف آتے ہیں رحیم یار خان شہر کے پوش علاقے سٹیلائٹ ٹاون کے فیملی پارک زم زم گراؤنڈ سے11فروری کی شام کو وہاں سیر کے لیے آنے والی ایک فیملی کی ڈیڑھ سالہ بچی خوشاب فاطمہ اچانک اور چپکے سے اغوا ہو گئی بس اتنا سا پتہ چل سکا کہ موقع سے اغوا کرنے والی عورت ہےپتہ چلتے ہی یہ خبر سوشل میڈیا کے ذریعے فورا جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اطلاع ملتے ہی تھانہ بی ڈویژن کی پولیس موقع پر پہنچی فرض شناسی کے حوالے سے شہرت یافتہ ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی اور ان کی ٹیم نے اپنے طریقے کار کے مطابق کاروائی اور تلاش کا کام شروع کر دیاگذشتہ کچھ دنوں سے رحیم یارخان میں موٹر سائیکل چوری اور ڈکیتی کی یکے بعد دیگرے وارداتوں سے لوگ پہلے ہی پولیس کے بارے میں سوالیہ انداز میں کئی باتیں کرنے لگے تھےسوشل میڈیا منفی اور مثبت دونوں قسم کے اثرات رکھتا ہے
سوشل میڈیا کی وجہ سے ڈیڑہ سالہ بچی کے اغوا کی خبر اور اس کی تصویر ابتدائی دو تین گھنٹوں میں ہی گھر گھر پہنچ گئی اس آگاہی کا ہی نتیجہ ہے کہ غوثیہ کالونی رحیم یار خان کےایک فرض شناس شہری کو اپنی ہمسائیگی میں بچی کے مسلسل رونے کی آوازیں آئیں اللہ کا کرنا اسے شک گزارا اور خیال آیا اس نے چپکے سے پولیس کو آگاہ کرنے کا فیصلہ کر لیاپولیس کو کال کرکے صورت حال سے آگاہ کیا ایس ایچ او بشارت نیازی فورا نفری کے ہمراہ پہنچے گھر پر ریڈ کیا اللہ تعالی نے کامیابی سے نوازا. بچی کی بازیابی کے وقت ڈی ایس پی جاوید اختر جتوئی بھی موقع پر موجود تھے میرے نزدیک بچی کی بازیابی میں ابتدائی کردار سوشل میڈیا کا ہےجس کی وجہ سے گھر گھر اغوا کا علم اور آگاہی ہوئی سب سے اہم ترین کردار اس عظیم شہری کا ہے جس نے جن وجوہات کی بنا پر بھی کچھ محسوس کیاہمسائیگی کی پرواہ کیے بغیر فورا چپکے سے پولیس کو آگاہ کر دیااگر یہ شخص پولیس کو آگاہ نہ کرتا تو بچی کا ملنا اتنا آسان نہ تھاپولیس اور اداروں کو ایسے شہریوں کی عزت اور قدر کرنی چاہئیے یہی سوچ اور یہی کردار ہی کامیابی کی ضمانت ہیں.پولیس نے بروقت کاروائی کرکے اغوا ہونے والی بچی کو بازیاب کرالیاپولیس اگر روایتی سستی کا مظاہرہ کرتی اغواکار خاتون کا کالی بھیڑوں میں سے کسی کے ساتھ رابطہ ہوتا تو باہمی تعاون کے نتیجے میں ادھر اُدھر ہونا تو معمولی سے بات تھی.گرفتار ہونے والی ماریہ کا یقینا کسی بڑے گروہ سے واسطہ ہوگایہ گھر اور یہ لوگ جرائم اور دیگر دھندوں میں ملوث ہوں گےپولیس کو چاہئیے کہ وہ باریک بینی سے چھان بین اور تحقیق کرے
محترم قارئین کرام،رحیم یارخان کے بہترین کرائم رپورٹر صحافی نور محمد سومرو کی رپورٹ کی گئی ایک اور خبر بھی آپ کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں. ُ ُ اقلیتی برادری کےافرادبیربل‘مکھناجی‘ آشارام ودیگرنے اہلخانہ کے ہمراہ احتجاج کرتے ہوئے میڈیاکوبتایاکہ چک نمبر96 پی کے با اثر زمیندار نے اقلیتی برادری کے لئے جو پینے کا پانی تھا اس جگہ پر قبضہ کرکے ان کے تالاب کو مٹی ڈال کر بند کر دیا ہے اب اقلیت برادری کے پاس پینے کے لئے پانی بھی موجود نہ ہے نہ ہی جانوروں کے پینے کے لئے پانی ہے اور گھریلو استعمال نہانے دھونے کے لئے پانی کی شدید قلت ہے سرکاری تالاب کا منظور شدہ پانی جو کہ 45 منٹ نہری پانی کو اپنی زمین کے لیے استعمال کرتا ہے لہذا اقلیت برادری پر ترس کھاتے ہوئے ان کے پینے کے پانی کے تالاب کو واگزار کروایا جائے اور اقلیت برادری کے لیے پینے کے پانی والے تالاب کو پختہ کیا جائے تاکہ اقلیت برادری پاکستان سکون کی زندگی گزارسکیں انہوں نے کمشنربہاولپوراورڈپٹی کمشنررحیم یارخان سے نوٹس لے کرپانی کی فراہمی یقینی بنانے کامطالبہ کیاہے۔ ٗ یہ کوئی اچھی بات نہیں. اس پہلے کہ بات پھیل کر آگے نکل جائے اور جگ ہنسائی کا باعث بنےانتظامیہ فورا معاملے کی حقیقت اور حقائق کو دیکھے چوہدراہٹ کا مظاہرہ اور انتہائی گھٹیا حرکت کرنے والے بااثر آدمی سے باز پرس کرے. اس نے کس حیثیت سے اور کن وجوہات کے تحت اقلیتی برادری کا پانی بند کیا ہے اس کے خلاف قانونی کاروائی کرکے مسئلے کو حل کرےیہ اقلیتی لوگ بھی صدیوں پرانے وسیب واسی اور پاکستانی ہیں وہ بھی ہماری طرح شہری حقوق رکھتے ہیں ان کے سرکاری منظور شدہ پانی کو بند کرنا کسی طرح بھی درست نہیں ہے
0 Comments