Ticker

6/recent/ticker-posts

کاغذی منصوبے کاغذی فنڈز کیوں اور کب تک؟

Paper projects Paper funds Why and for how long?

تحریرجام ایم ڈی گانگا

دھرتی غداریں توں خالی نی تھی
ول وی اساڈی صبر سوالی نی تھی

یہ دیس ہم سب کا سانجھا ہے ہمارے دکھ سکھ اور وسائل سانجھے ہیں اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں قانون میں وطن کے تمام شہری یکساں حقوق رکھتے ہیں ان سمیت اور کتنی خوبصورت باتیں اور کتنے دلکش نعرے ہیں کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ سچ ہے زمینی حقائق ایسے نہیں ہیں یہاں بہت کچھ مختلف ہے


ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور والا معاملہ ہے.وفاقی بجٹ ہو یا صوبائی بجٹ سرائیکی وسیب کے ساتھ ہمیشہ سے زیادتی ہوتی چلی آ رہی ہے. وسائل منصوبہ جات اور فنڈز کی تقسیم میں تخت لاہور کا پیدا گیر طبقہ سرائیکی خطے کو مختلف حیلے بہانے بنا کر،مختلف اعتراضات لگا کر،مختلف قانونی اور تکنیکی جواز پیدا کرکے اس کے حق اور حصے سے محروم کرنے کی چالیں چلتا آ رہا ہے. ظلم اور ستم تو یہ ہے کہ زیادتی کو زیادتی تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ سرائیکی وسیب سے عوامی نمائندگی کا تاج سر پر سجانے والوں کی غالب اکثریت محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے یہی وجہ ہے کہ تعلیم و صحت، مواصلات و روزگار سمیت کسی بھی شعبے میں یہاں کے عوام کو ان کا حق نہیں ملتایہاں کی ایلیٹ کلاس اور رولر کلاس خود اور ان کی فیلیمز لاہور اسلام آباد میں رہتی ہیں. یہی وجہ ہے کہ وسیب کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو وہ سہولیات حاصل نہیں ہیں. خطرناک کرونا وبا اور اس کے پھیلاؤ کے باوجود شیخ زاید ہسپتال رحیم یار خان کے ڈاکٹروں اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف کو حفاظتی کیٹس اور پورا ساز و سامان تک فراہم نہیں کیا گیایہی حال نشتر ہسپتال سمیت وسیب کے دوسرے ہسپتالوں کا ہےبروقت اور مکمل حفاظتی سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے یہاں خود ڈاکٹرز خاصی تعداد میں کرونا کا شکار ہو چکے ہیں تین صوبوں کے سنگھم پر واقع بڑے ہسپتال شیخ زید میں ابھی تک کرونا ٹیسٹ کی سہولت تک دستیاب نہیں ہےاب لوگ سوال کرتے ہیں کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے جو سہولیات لاہور اور اپر پنجاب کے اضلاع کو حاصل ہیں وہ ہمیں کیوں میسر نہیں ہیں استحصال کا دائرہ اور لسٹ اتنی طویل ہے کہ اس کے لیے پوری ایک کتاب لکھنے کی ضرورت ہےمحترم قارئین کرام،سردست میں اپنے ضلع رحیم یارخان کے شعبہ تعلیم،ضلعی ہیڈ کوراٹر میں واقع سب سے بڑے کالج گورنمنٹ خواجہ فرید کالج کا کچھ مختصر سا حال سنانا چاہتا ہوں جس سے آپ کو بخوبی اندازہ ہو جائے گا یہاں منصوبے کیسے بنتے ہیں فنڈز کیسے ملتے ہیں پھر ہتھیائے یا ختم کیسے کیے جاتے ہیں دردیں دی داستان تو بہت طویل ہے جو اس کالم میں ہرگز نہیں سموئی جا سکتی میں سب سے پہلے ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد کو سلام پیش کرتا ہوں جنھوں نے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد اجمل بھٹی کی ارداس اور چیخ و پکار سن کر متعلقہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کےارباب اختیار کو خواجہ فرید کالج کے حوالے سے ایک یاد دہانی لیٹر لکھا ہے. اے ڈی پی2018,19 جی ایس نمبری 1101 میں خواجہ فرید کالج کے مختلف کاموں کے لیے  300ملین روپے کی پی سی بھیجی گئی.سیکرٹری ہائر ایجوکیشن مومن علی آغا نے بے جا اعتراضات لگا کر رد کر دیا  اے ڈی پی  2019,20جس ایس نمبری  218میں  15ملین روپے کے منصوبہ جات کی پی سی ٹو بنا کر بھیجی گئی جس کے لیے محکمہ ہائر ایجوکیشن کے ارباب اختیار نے 16.12.2019کی میٹنگ میں 11ملین کی منظوری دے کر پی اینڈ ڈی کو بھیج دیایہ بیل بھی یہاں تک پہنچ کر آگے نہ بڑھ سکی جس کی وجہ سے کالج کے مسائل نہ صرف جوں کے توں ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں خاصا اضافہ ہو گیا ہے.اب کی بار اے ڈی پی 2020,21کے لیے خواجہ فرید کالج کے لٹکتے بھڑکتے بڑھتے مسائل کو حل کرنے کے لیے  380ملین روپے کی پی سی بنا کر بھیجی ہوئی ہے ماضی کی طرح کا سلوک کیا جاتا ہے یاکالج کی فریاد پر اس کی داد رسی کی جاتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مختلف اعتراضات لگا کر سرائیکی وسیب کے منصوبہ جات کو ریجکیٹ کرنے یا فنڈز مختص کرکے واپس لے لینے والا رویہ اور عادتیں ترک کی جاتی ہیں یا نہیں. عادت سے مجبور تخت لاہور کی بیورکریسی ایسا کرے یا نہ کرے مگر ہمیں ابھی سے ایک کھٹکا سا لگ رہا ہے کہ شاید اس بار کرونا وباء کا بہانہ بنا کر سرائیکی وسیب اور خواجہ فرید کالج کے منصوبہ جات دینے کی بجائے پھر ڈراپ نہ کر دیئے جائیں سانپ سے ڈسے لوگوں کا اندھرے میں پڑی رسی سے ڈرنا بنتا ہےخواجہ فرید کالج میں سات ہزار سے زائد طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں کالج اساتذہ کی کمی کا شکار ہےاتنی بڑی تعداد کے حامل کالج میں صرف  81استاد ہیں. کلریکل اور دیگر سٹاف و عملے کی بھی شارٹیج ہے. طلبہ و طالبات کے رہنے کے لیے ہاسٹل نہیں ہیں تین ہاسٹلز میں سے ایک جناح ہال خطرناک قرار دے کر بند کیا جا چکا ہے اسلامیہ یونیورسٹی کے قبضے سے واگزار کرایا جانے والا لیاقت ہاسٹل کلاسز رومز کی شدید کمی کی وجہ سے  ایجوکیشنل مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جا چکا ہے سب سے چھوٹا اقبال ہاسٹل ہے جس میں اس کی کیپسٹی سے کافی زیادہ تعداد میں بھیڑوں کی طرح طلبہ کو ٹھونس کے رکھا گیا ہے طالبات کے لیے سرے سے کوئی ہاسٹل ہی نہیں کالج کے پاس ضرورت کی مطابق ٹرانسپورٹ بھی نہیں ہےگذشہ سالوں میں نئی بس کی خریداری کے لیے دیئے جانے والے  80لاکھ روپے کے فنڈز منظور کرکے فورا بعد  35لاکھ روپے ارباب اختیار نے واپس لے لیے تھے اس طرح بس کی خریداری کی بھی بس ہوگئی طلبہ و طالبات مسلسل پریشان اور دھکے کھاتے پھرتے ہیں لائبریری اور لیبارٹریز کے نہ ہونے یا مطلوبہ سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے درپیش مسائل اور ان کے نقصانات کو وہی لوگ جانتے ہیں جو بھگت رہے ہیں

یہ بھی پڑھیں : سری لنکا میں قید پاکستانی وطن واپسی کے منتظر

آجکل نئے بجٹ کی تیاری کی جارہی ہےوقت کی نزاکت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے وسیب کے مستحق غریب اور مڈل کلاس کے طلبہ و طالبات کے دکھ درد کو سمجھنے والے اور ان کا احساس رکھنے والے خواجہ فرید کالج کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد  اجمل بھٹی نے ڈپٹی کمشنر کے علاوہ ضلع رحیم یار خان کے ایم این ایز اور ایم پی ایز صاحبان سے بھی فردا فردا رابطہ کرکے فون کرکے، ملاقاتیں کرکے انہیں کالج کے مسائل اور فنڈز کے حصول سے متعلق گزراشات پیش کی ہیں بڑے عوامی نمائندگان میں صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت،وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار،پارلیمانی سیکرٹری چودھری محمد شفیق چنابیہ،چودھری آصف مجید،چودھری جاوید اقبال وڑائچ  مخدوم فواز احمد ہاشمی و دیگر شامل ہیں اب دیکھتے ہیں کہ بروقت یاد دہانی کے بعد ہمارے ضلع کے یہ ہونہار عوامی نمائندگان کیا کرتے ہیں. کالج کی آواز بنتے ہیں یا نہیں جہاں تک ڈپٹی کمشنر کا تعلق ہے علی شہزاد نے پہلی فرصت میں ہی لیٹر لکھ کر اپنے علم دوست اور صاحب احساس ہونے کا ثبوت دیا ہےمحترم قارئین کرام،تخت لاہور کی بیورو کریسی کے استحصالی حربوں اور اپنے نمائندگان کی انتہائی بے حسی سے وسیب کے لوگ انتہائی تنگ آئے ہوئے ہیں اب وہ کاغذی منصوبوں اور کاغذی فنڈز کے چکروں سے نکلنے کے لیے دعائیں کرنے کے ساتھ ساتھ سوچ بچار کرنے میں بھی مصروف ہیں حکمرانوں کی ٹرخالوجی پالیسی اب قابل قبول نہیں ہےجہازی سائز کے پینا فلیکس لگا کر ضلع میں اربوں روپے کے ترقیاتی اور فلاحی منصوبہ جات لانے والے جھوٹےسیاستدانوں سے یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مسلسل یہ کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے اور  کب تک کھیلا جاتا رہے گا یہ تو ضلع کے نامور ترین تعلیمی ادارے کا حال ہے باقیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہےہر سال سکیمیں بنتی ہیں تخمینہ جات کی فائلیں تیار ہوتی ہیں میٹنگیں ہوتی ہیں دفتروں کے چکر لگوائے جاتے ہیں گھوم گھما کر تھکا تھکا کر آخر میں نتیجہ نکال کے رکھ دیتے ہیں اور کہتے ہیں چلو کوئی بات اگلے سال سہی یہ کیسی سانجھ ہے یہ کیسا بھائی چارہ ہے یہ کیسا احساس ہےاب یہ منافقت اور ڈنڈی بازی ناقابل برداشت ہو چکی ہے. ہم بھی پاکستانی ہیں ہمارا بھی وسائل اور فنڈز میں حصہ ہےکبھی لاہور کے فنڈز تو لیپس نہیں ہوتےیہ فنڈز لیپس کی وباءاور بیماری صرف سرائیکی وسیب میں ہی نازل ہو کر کیونکر حملہ آور ہوتی ہےاس سلوک اور انہی رویوں سے تنگ آکر ہی سرائیکی وسیب کے لوگ اپنا علیحدہ سرائیکی صوبہ مانگ رہے ہیں اور کافی عرصہ سے تحریک چلائے ہوئے ہیں جسے مختلف طریقوں سے سیاسی سوداگر سیاستدان کیش کرتے اور دباتے چلے آ رہے ہیں لوگ ان سیاستدانوں کی تقسیم کرو اور حکومت کرو کی تھیوری اور پریکٹس کو اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں آنے والے دنوں میں انہیں عوامی رد عمل کا ضرور سامنا کرنا پڑے گالوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہےوہ اپنے حصے اور حقوق پر ڈاکہ زنی کرنے والوں اور اس ڈاکہ زنی پر خاموش رہنے والے نام نہاد عوامی ٹھیکیداروں سے اب بہت سارے سوال کرنے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں ہم بھی پاکستانی ہیں ہمیں بھی لاہور کی طرح تعلیم و صحت کے اداروں اور سہولیات کی ضرورت ہےعوامی نمائندگان فنڈز لائیں مسائل حل کروائیں تمام مروجہ خوشامدی سلسلے بند کریں یہ ہمارے زخموں پر نمک چھڑانے والی بات اور عمل ہے یہ منافقتیں،یہ صرف کاغذی منصوبے اور کاغذی فنڈز دینےکا مذاق بند کیا جائے

یہ بھی پڑھیں : کسان شوگر مافیا کا کھاج اور ملک پر راج کیوں؟

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent