Ticker

6/recent/ticker-posts

شہیدایس ایچ اوممتازججہ کی شہادت،اورپولیس کےلیےدردسربننےوالےمقدمہ کی اصل کہانی سےپردہ اٹھ گیا

Martyrdom of Martyr S. H. O. Mumtaz Jajja, and the real story of the case which became a nightmare for the police has come to light.

Martyrdom of Martyr S. H. O. Mumtaz Jajja, and the real story of the case which became a nightmare for the police has come to light.






رحیم یارخان(میڈیا ذراٸع)تھانہ تبسم شہید لیاقت پور کی حدود میں پولیس کے لیے درد سر بننے والے کیس کے حقائق سامنے آگئے ایس ایچ او ممتاز ججہ کی حادثہ میں ہلاکت کی وجہ بھی یہ کیس بیان کیا جا رہا ہے شادی کے 10سال بعد خاتون کی اپنے شوہر کے ساتھ بے وفائی اور آشنا کے ساتھ معاشقے اور بدکرداری کی اس کہانی نے تین معصوم بچیوں کی زندگیوں اور ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے
کہانی یہ ہے کہ لیاقت پور کے نواحی چک کے رہائشی محنت کش نے دس سال قبل ہمدردی کے تحت نازش رمضان نامی یتیم لڑکی سے شادی کی شادی کے 10سالوں میں ان کے ہاں تین بیٹیاں جن کی عمریں اب بالترتیب 9سال،4سال اور 2سال ہیں پیدا ہوئیں تین ماہ قبل نازش رمضان اپنی ماں جس نے اس کے والد کی وفات کے بعد دوسری شادی کر رکھی تھی کو ملنے گئی ،اس دوران فیصل آباد میں نازش رمضان نے اپنی والدہ نسیم بی بی کے گھر آنے جانے والے محمد یوسف راجپوت نامی شخص جو پہلے سے شادی شدہ ہے کے ساتھ ناجائز مراسم قائم کر لیے ،مذکورہ خاتوں نازش رمضان جب دو ماہ ماں نسیم بی بی کے پاس رہ کر گھر واپس لوٹی تو اس کا رویہ یکسر تبدیل تھا اور خاتوں کو اہل خانہ نے گھنٹوں علیحدگی میں موبائل فون جو فیصل آباد واپسی پر ساتھ لائی تھی پر باتیں کرتے پایا اس دوران شوہر کے ساتھ جھگڑا اور معصوم بیٹیوں پر تشدد کرنا معمول بن گیا شک پڑنے پر جب اہل خانہ نے باز پرس کی تو دوہفتوں بعد نازش کی ماں نسیم بی بی نے 491کی رٹ کے تحت پولیس حدود چوکی گلشن فرید تفشیشی آفیسر مہر ارسل کی قیادت میں بھاری نفری کے ہمراہ ریڈ کیا اور خاتون نازش رمضان کو گھر سے برآمد کر کے ہمراہ لے گئے۔اس معاملے کے بعد جب اہل خانہ نے خاتون کے موبائل فون کی گیلری اور وٹس اپ ڈیٹا چیک کیا تو نازش رمضان کا اپنے آشنا محمد یوسف موبائل نمبر 03078673372پر وٹس اپ اور کال رابطہ ثابت ہو گیا۔جس میں برہنہ اور نازیبا حرکات پر مبنی تصویریں شادی شدہ بد کردار شخص اور عورت کے معاشقے کی اندھی کہانی بیان کر رہی تھیں جس نے ہستا بستاگھر اجاڑ دیا ۔موبائل فون ڈیٹا سامنے آنے پر راتوں رات پولیس چوکی گلشن کے اے ایس آئی مہر ارسل کو لڑکی کے لواحقین نے مبینہ طور بھاری رشوت دی جس پر پولیس نے حافظ قرآن نابینا شخص سمیت گھر کی خواتین اور مردوں کے خلاف پولیس سے تصادم کا مقدمہ درج کرتے ہوئے ریڈ پر ریڈ کئے،گھر کے دروازے توڑ کر مبینہ طور پر موبائل فون سمیت قیمتی سامان کو اٹھا لیا گیا،اس دوران لواحقین کی طرف سے انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ایڈیشنل سیشن جج نے شادی شدہ خاتون کے غیر مرد کے ساتھ ناجائز تعلقات ثابت ہونے پر تین معصوم بچیوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے بد چلن عورت کے ساتھ نہ بھیجنے کا فیصلہ دیا،اس دوران لواحقین نے نازش رمضان جو تین ماہ کی حاملہ تھی اور اس کی الٹراساونڈ رپورٹ موجود ہے سمیت نازیبا تصاویر کی بنیاد پر مقدمہ کے اندراج کی درخواست بھی دی,تعزیرات پاکستان میں حمل ضائع کرانے پر سیکشن اے تین سو اٹھتیس کے تحت تین سال قید کی سزا ہے

یہ بھی پڑھیں : ڈی پی اواسدسرفراز فری اورفوری انصاف مگرکیسے؟

،لیکن پولیس نے سائبر کرائم کا معاملہ قرار دیتے ہوئے مقدمہ کا اندراج نہ کیا جبکہ پولیس کی طرف سے ان کے ساتھ تصادم کے درج مقدمہ کی ضمانت کے لیے جانے پر عدالت عالیہ کے احاطہ سے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے،اب نازش رمضان نے تین بچیوں کی حوالگی کا کیس لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ میں کر رکھا ہے اس خاتون کا شوہر بچیوں کو لے کر غائب ہے جبکہ پولیس نے خاتون کے شوہر کی دوبہنوں ،بھتیجیوں سمیت رشتہ داروں اور عزیز و اقارب کے 30کے قریب افراد کو مبینہ طور پر حراست میں لے رکھا ہے ،ان کے مویشیوں کو بھی پولیس گلشن فرید ڈیرے سے کھول کر لے گئی ہے ادھر عدالت عالیہ نے معصوم بچیوں کو برآمد کروانے پر زور دیتے ہوئے آئی جی پنجاب تک کو طلب کر رکھا ہے ، پولیس پر بھی بچیوں کی برآمدگی کا پریشر ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس مقدمہ کی سماعت سے واپسی پر ایس ایچ او تھانہ تبسم شہید لیاقت پور ممتاز ججہ زہنی دباو کا شکار ہو کر لیاقت پور کے قریب حادثہ میں جان کی بازی ہار گیا،اس واقعہ پر عزیز خان ایڈوکیٹ جو پہلے پولیس آفیسر رہ چکے ہیں کی ایک تحریر شوشل میڈیا پر پائی گئی ہے،اس تحریر میں وہ لکھتے ہیں کہ ممتاز ججہ نے حکم سن کر جج صاحب کو سیلیوٹ کیا سرجھکایا اور کمرہ عدالت سے باہر آگیا ضلع کا ایس پی انوسٹیگیشن بھی آج ممتاز ججہ انسپکٹر کے ساتھ عدالت عالیہ میں پیش ہوا تھا -باہر نکل کر ایس پی نے ممتاز ججہ کو کہا ایس ایچ او صاحب اس دفعہ محبوسان نہ برامد نہ ہوئے تو جج نے تمہیں جیل بھیج دینا ہے اور ملازمت بھی جائے گی؟میرے زرائع کے مطابق خاتون کے شوہر کے لواحقین کی طرف سے ایس پی کے سامنے اندراج مقدمہ کے لیے حمل کی رپورٹ اور خاتون کے موبائل سے برآمد ہونے والی نازیبا تصاویر جس میں زنا ثابت ہو رہا ہے پیش کی گئیں تو انہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر الٹراساونڈ رپورٹ کو رد کرتے ہوئے تصویری ثبوت کو سائبر کرائم کا معاملہ قرار دے دیاتھا ۔ رپورٹ لف ہے ۔جبکہ انکوائری کے دوران خاتون یا اس کا کوئی رشتہ دار پیش ہی نہیں ہوا،اگر پولیس انصاف کرتی اور حقائق کی روشنی پر فیصلہ کرتی تواپنے آشنا کے لیے دس سالہ رفاقت چھوڑنے والی,حمل ضائع کروانے والی یہ بد کردار عورت کبھی بھی بچیوں کی حوالگی کا مطالبہ نہ کرتی اور نہ ہی پولیس کو درپیش حالات کا سامنا کرنا پڑتا۔عزیز خان ایڈوکیٹ لکھتے ہیں کہ عدالت عالیہ میں پیش ہونے کے بعد ممتاز ججہ بہت رنجیدہ تھا یہ کیس اتنا سنگین بھی نہ تھا ایک شوہر اپنی بیوی سے ناچاقی کے بعد اپنے تین بچوں کو لے کر چلا گیا تھا ،ممتاز ججہ انسپکٹر کی موت کا ذمہ دار کون ہے شاید اس کو اتفاقی حادثہ قرار دیا جائے گا مگر میرے نزدیک یہ ایک قتل ہے جو اس بدبودار نظام نے کیا ہے جس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو اس کا حصہ ہیں
انگریزوں کا بنایا قانون جو آج تک تبدیل نہ ہوسکا عدلیہ کے وہ جج صاحبان جو قانون سے ہٹ کر اپنی مرضی کرتے ہیں یا اس محکمہ کے افسران جو ماتحت ملازمین کو روبوٹ سمجھتے ہیں جنہیں آرام کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ ا ن کے غلام ہیں-یہ تو ایک ممتاز ججہ کی کہانی ہے ایسے کئی ممتاز ججہ اس طرح کے حادثات کا شکار ہو چکے ہیں اور آئندہ ہوتے رہیں گے جب تک یہ سسٹم ٹھیک نہیں ہوگا،عزیز خان ایڈووکیٹ سچ کہتے ہیں ,بطور ریٹائرڈ پولیس آفیسر وہ اپنےجذبات کی صحیح ترجمانی کر رہے ہیں لیکن پولیس حقائق کے مطابق قانونی کاروائی کرتی تو آج ان کے آئی جی کو طلب نہ کیا جاتا اگر خاتون کا شوہر اور اس کی تین معصوم بیٹیا ں مل بھی جاتی ہیں کیا معاشرہ قبول کرے گا کہ ان بچیوں کو ان کی بد چلن ماں کے ساتھ بھیج دیا جائے جس کا معاشقہ ایک پہلے سے شادی شدہ شخص کے ساتھ ہے اور تنسیخ اور طلاق کے معاملات کے بغیر ہی ناجائز تعلقات استوار کر تی پائی گئی ہے ۔جس کی مامتا کابھرم ٹوٹ چکا ہے ۔ایسے واقعات میں جب شوہر اپنی دس سال سے رفیق حیات کی بیووفائی پررسوائی کی اذیت سہہ رہا ہو اور اس سے اس کی لخت جگر بھی چھین لی جائیں.درد اور اذیت سے بھرے اس کیس کی کیا شنوائی ہوتی ہے اس کا فیصلہ عدالت عالیہ کے رحم و کرم پر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان معصوم بچیوں کو والد سے چھین کر بدکردار عورت کی حوالگی کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی طرف سے 30 کے قریب لواحقین کو حراست کے بعد نامعلوم مقام پر منتقل کر دیئے گیا ہے,احاطہ عدالت سے گرفتاری کے بعد اس صورتحال میں انہیں اس کیس کے لیے وکیل کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جا رہی اب تک جو معلوم ہوا ہے کہ بچیوں کو حاصل کرنے کے لیے نازش رمضان کی والدہ نسیم بی بی متحرک ہے جو مبینہ اطلاعات کے مطابق فیصل آباد میں قحبہ خانہ چلاتی ہے معاشرہ عورت کے حقوق کے تحفظ کی آواز اٹھاتا لیکن جب عورت ہی معاشرے کو تباہ کرنے پر تلی ہو تو حقائق کے مطابق منصفانہ  فیصلے ہی مزید تباہ کاری سے بچا سکتے ہیں.اس کیس نے ایک ایسے سوال کو جنم دیا ہے,جس کا جواب ڈھونڈنے کے بجائے سوال کرنےوالے کو ڈھونڈا جا رہا ہے.اگر یہ بچیاں کسی پولیس افسر یا جج صاحب کی ہوتی تو انصاف کےتقاضے پورے ہوتے یہ قابل اعتراض تصاویر لگانے پر دل گرفتہ ہے لیکن معاشرے کو دیکھانے کے لیے کس طرح تین بچیوں کی ماں اپنی ممتا کے حق کو معاشقہ پر زبح کر دیتی ہے یہ ایک المیہ ہے اور اس پر قانون کو راستہ بنانا ہوگا

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent