Ticker

6/recent/ticker-posts

بیٹاقربانی کاگوشت ابھی تک ختم نہیں ہوا

The flesh of the son-sacrifice is not finished yet

تحریر ابوبکر جتوٸی ایڈووکیٹ

یہ وہ ہوٹل ہے جس کی تعریفیں سن سن کر میرے کان پک گئے جب بھی کھانے کی بات ہوتی تو میرے پیارے چھوٹے بھائی محترم اعجاز لاڑ صاحب فوراً فرماتے کہ لاریب شنواری کی کیا بات ہے

 دو دن پہلے بھی کچھ ایسا ہی ہوا ایک دوست کے ساتھ روش کھانے کا پروگرام بنا ہم نے محترم اعجاز لاڑ صاحب کو کال کی اور ان کو ساتھ لے کر چل پڑے پروگرام تھا کوئٹہ ہوٹل کا کہ وہاں جا کر روش تناول کیا جائے لیکن جونہی ہم نے گاڑی ظاہر پیر چوک سے کوئٹہ ہوٹل کی جانب موڑی تو جناب محترم اعجاز لاڑ صاحب نے دوبارہ رٹ لگا دی کہ لاریب شنواری چلو کیا کمال کا ہوٹل ہے کیا لذیذ روش اور پر لطف کھانے ہیں بس ساتھ آئے دوسرے دوست نے بھی اعجاز لاڑ صاحب کی ہاں میں ہاں ملا دی

یہ بھی پڑھیں : مئی کرپشن ہم کدھرجارہے ہیں؟

اب ہم ٹہرے جمہوریت پسند اور درویش منش انسان ہتھیار ڈالنا تو بنتا تھا تو ہم نے ہتھیار ڈال دیے اور عین کوئٹہ ہوٹل سے پہلے والے یوٹرن سے اپنے وزیراعظم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یو ٹرن لے لیا اور جناب ہم خوش ہو کر لاریب شنواری پہنچے ہوٹل دیکھنے میں بہت اچھا لگا پھر پینڈو ماحول تکیے اور چارپائیاں لگے دیکھ کر سوچا کہ اعجاز لاڑ صاحب کی بات مان کر آج ہم نے بہت عقلمندی کا کام کیا

ایک سائیڈ پر ہم تینوں دوست بیٹھ گئے اور جناب بڑے رعب سے ویٹر کو بلایا اور اسی روش لانے کا آرڈر دیا تھوڑی دیر کے بعد روش آگیا دیکھتے ہی پتہ چل گیا کہ واہ کمال چیز ہوگی اور پہلے لقمے نے سونے پر سہاگے کا کام کیا جناب کیا ذائقہ تھا ویٹر کو بلایا اور میں نے انتہائی پیار اور سنجیدگی سے پوچھا "بیٹا قربانی کا گوشت ابھی تک ختم نہیں ہوا "ویٹر میرا منہ تکنا شروع ہوگیا کوئی جواب نہ بن پڑا تو پوچھا کہ کیوں سر کیا ہوا میں نے کہا کہ میں نے جونہی گوشت کا لقمہ لیا مجھے سنت ابراہیمی یاد آ گئی اس وجہ سے پوچھا کہ گوشت کی لذت بتا رہی ہے کہ یہ قربانی کے جانور کا ہے

تو دوستو جو لقمہ لیا تھا اسکی بوٹی چباتے چباتے میرا جبڑا شریف چیخنا شروع ہو گیا اور ایسا محسوس ہوا جیسے میرے دانت مجھے چیخ کر کہے رہے ہوں کہ خدا کا خوف کرو غریبوں مسکینوں کا حصہ کھا رہے ہو ہمیں بھی گناہگار کرو گے اپنے ساتھ تب مجھے احساس ہوا کہ بات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی وہی ایک لقمہ بیس منٹ چبانے اور جنگ لڑنے کے بعد ثابت ہی نگلنا پڑا بس اسی پر اکتفاء کیا اور ہوٹل کے مالک سے پوچھا کہ باورچی کون ہے اس نے وجہ پوچھی میں نے کہا ہاتھ چومنا چاہتا ہوں اس کے کیونکہ میری ماں مجھے روز منع کرتی ہے کہ بیٹا ہوٹل کا کھانا مت کھایا کر مگر میں ناہنجار نا خلف ان کی بات نہیں مانتا تھا مگر آج آپ کے باورچی کے ہاتھ کا کھانا کھا کر مجھے سمجھ آگیا کہ ماں جو کہتی ہے اولاد کی بھلائ کے لیے کہتی ہے بس اس کے بعد میں نے روش شریف ان کو واپس کر دیا اور حکیم صاحب کے مشورے کے مطابق سبزی سے پیٹ بھرا مگر اس ایک لقمے جہاں دوائی لینے پر مجبور کردیا وہاں بہت سارے سبق بھی دے گیا شکریہ اتنی لمبی فضول تحریر پڑھنے کا میں ہر گز لاریب شنواری کے روش کو یا باورچی کو برا نہیں کہ رہا بلکہ یہ بتانے کی کوشش کر رہا

واقف راہ نہ چھڈو بھانویں دور ہو وے

بیٹاقربانی کاگوشت ابھی تک ختم نہیں ہوا

بس جو تکلیف بھگتائی اس کو چھوڑیں جو سبق ملا وہ یاد رکھیں کہ میری ماں سچ کہتی ہے بیٹا کھانا ہمیشہ گھر کا شکریہ لاریب شنواری سبق دینے کے لیے

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent