Ticker

6/recent/ticker-posts

کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے چھوٹی عمروں میں ذہنی وجسمانی قباحتوں کا شکار ہو جائیں؟

Do you want your child to suffer from mental and physical disorders at an early age?

تحریر و تحقیق، مسعودچوہدری

کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے چھوٹی چھوٹی عمروں میں ذہنی و جسمانی قباحتوں کا شکار ہو جائیں؟ ظاہر ہے کہ مجھ سمیت کوئی بھی ماں باپ نہیں چاہے گا کہ اسکے جگر گوشے، آنکھوں کے تارے، کسی بھی معاشرتی برائی کا شکار ہوں۔ لیکن اگر ہم دوسری جانب کی طرف دیکھیں تو دشمن ہمیشہ سے ہی یہ چاہے گا کہ کچے ذہنوں کو چھوٹی عمروں میں ہی ذہنی تباہی کا شکار کر دیا جائے۔ ہمارے جسم کا ایک نظام ہے۔ اس نظام میں اگر کوئی بھی ہارمون وقت سے پہلے اخراج کر جائے تو انسان کی زندگی ناقابل تلافی نقصان کا شکار ہو جاتی ہے۔ چھوٹی عمر میں کہ جب بچوں کو پاک اور صحت مند خیالات کا منبع بنانے کی اشد ضرورت ہوتی ہے، ہمارے معاشرے میں چند ناعاقبت اندیش چند ٹکوں کے مفاد کی خاطر ان معصوموں کا مستقبل تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ چھوٹی عمر کے بچوں کو فحش مواد دکھا کر اور اسے تمام مغربی تخیلات و قبیح عادات و اطوار سے روشناس کروا کر اگر کسی کو چند ٹکے حاصل ہو سکتے ہیں تو وہ معاشرتی مسائل اور نئی نسل کی تباہی کے بارے میں سوچے سمجھے بغیر ذاتی منفعت کے لئے نہ صرف ایک قبیح عمل کامرتکب ہو رہا ہے بلکہ جانے انجانے دشمن کا آلہ کار کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : کمشنر بہاول پور کا دورہ

ایک عرصہ سے اس کرب کا شکار تھا کہ معاشرے میں پھیلتی بے حیائی کہیں نہ کہیں معصوم کلیوں کے اغواء کے بعد جنسی زیادتی کا شکار کئے جانے کے سبب کی ایک بڑی وجہ بنتی جا رہی ہے۔ اس پر بہت کچھ تحریر بھی کیا اور مختلف واقعات کو رپورٹ بھی کیا۔ اسی تناظر میں چوہدری عبد الجلیل بندیشہ، سید قمبر علی ہمدانی،سید ساجد علی شاہ، اویس قادر اور انکے دیگر رفقاء کار نے جب نئی نسل بچاؤ تحریک کے لئے مشاورت کی تو اس اہم ترین سماجی فلاحی کام کے لئے اپنی بھرپور حمایت کا عوامی طور پر اعلان کیا۔ نئی نسل بچاؤ تحریک کے کارکنان و رہنماء کی کاوشوں کو آگر نہ سراہا جائے تو زیادتی ہو گی۔ ہر تحریک میں ہر شخص ہی اپنا اپنا حصہ شامل کرتا جاتا ہے اور مقصدیت تحریک کو بقاء مہیا کرتی ہے۔ بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کے منظم نیٹ ورک کے سامنے کھڑے ہونے کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ  وطن عزیز پاکستان کے ہر کونے میں ہر شخص جو بھی نئی نسل کی بقاء کے لیئے فکرمند ہے اپنا اپنا حصہ ڈالتا رہے لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اکیلا شخص کسی بھی مضبوط مافیا کے سامنے تن تنہا کھڑا نہیں ہو سکتا۔ کم از کم تحریک ان تمام افراد کے خلاف ایک توانا آواز تو بن سکے گی جو ہماری نئی نسل کو فکری طور پر مفلوج و تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ نئی نسل بچاؤ تحریک کی پنیری ابھی توانا درخت بننے کے مراحل میں ہے اور ہر مکتبہ فکر کی جانب سے نہ صرف اس اقدام کی حمایت کی جا رہی ہے بلکہ ایک ملی ذمہ داری کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے اور بھرپور حمایت کا نہ صرف اعلان کیا جا رہا ہے بلکہ عملی طور پر بھی بھرپور مدد فراہم کی جا رہی ہے۔ رحیم یار خان کے فحاشی پھیلاتے تین نیٹ کیفیز کے خلاف نامزد ایف آئی آر کا درج ہونا اور ان ایف آئی آر پرعدالت عالیہ کی جانب سے سٹے آرڈر کا نہ دیا جانا اسکی عیاں مثال ہے۔ جی ہاں یہ کافی نہیں ہے! لیکن کچھ تو عملی کام ہے نا۔

نئی نسل بچاؤ تحریک کی جانب سے فحاشی و عریانی پھیلاتے انٹرنیٹ کیفیز کے لئے ایس او پیز کا اجراء بھی کیا گیا ہے۔ یہ کیوں ضروری ہیں؟اسکی چھوٹی ترین وجہ وہ ثبوت ہیں جو نئی نسل بچاؤ تحریک نے سوشل میڈیا پر وائرل کئے ہیں جن میں کم عمر بچوں کو قبیح و ممنوعہ قابل اعتراض مواد دیکھتے دیکھا جا سکتا ہے۔ نوٹ فرما لیں کہ سماجی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بچوں کے چہروں کو چھپایا گیا ہے لیکن نیٹ کیفیز کے بند اور تاریک کیبنز میں ہمارے مستقبل کو تاریک ہوتے دیکھنا ہر ذی شعور کے لئے انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ لہذا جاری کردہ ایس او پیز کے نفاذ کے مطالبہ کے مطابق، ہر نیٹ کیفے میں کلوز سرکٹ کیمرے نصب کیئے جائیں جن کی چوبیس گھنٹے کا ریکارڈ مانیٹر کیا جا سکتا ہو لکڑی کے کیبن ختم کئے جائیں، اور سکرین واضح ٹیبل پر رکھی جائے اور سکرین کی بیک سائیڈ دیوار والی سائیڈ پر ہو شناختی کارڈ کا ڈیٹا نوٹ کیا جائے۔ کم عمر بچوں کو اکیلے میں استعمال نہ کرنے دیا جائے ہر انٹرنیٹ کیفے کے باہر بچوں کے داخلہ ممنوع کا بورڈ لگایا جائے نیٹ کیفے روزانہ کی بنیاد پر ڈیٹا متعلقہ تھانہ میں جمع کروائیں انٹرنیٹ کیفے کا باہر کا شیشہ اتار دیا جائے جس سے عوام کو سب صاف طور پر نظر آئے۔

ان ایس او پیز پر تاحال ماسوائے چند ایک ذمہ دار کیفے مالکان کے، مالکان گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔ پولیس روائتی مٹی پاؤ پالیسی کا مظاہرہ کر رہی ہے جبکہ عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے کہ اگر مساجد و سکولوں میں ایس و پیز لاگو کیئے جا سکتے ہیں تو یہاں کیوں نہیں۔ بہترین اخلاقیات ہی وہ کردار سازی کر سکتے ہیں جو ایک بھیڑ کو ایک عظیم قوم میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ نئی نسل بچاؤ تحریک کو اللہ رب العزت بڑھتی ہوئی فحاشی و عریانی کا سبب بننے والے دیگر سینکڑوں اسباب کے خلاف بھی پرچم اصلاح اٹھانے کی توفیق نصیب فرمائے۔

یاد رہے کہ حکومت وقت نے پاکستان میں تمام غیر اخلاقی مواد کو انٹرنیٹ پر بین کر رکھا ہے جبکہ ڈارک ویب پر قابل اعتراض مواد اپلوڈ کرنے پر ایف آئی اے اور دیگر ادارے بھی کاروائیاں کر چکے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قانون کے مطابق فحاشی و عریانی کی ترویج جرم ہے۔ چونکہ قوانین موجود ہیں لیکن انکے اندر موجود لوپ ہولز اور کمزور عدالتی نظام کے سبب قانون کی عملداری نظر نہیں آتی۔ نئی نسل بچاؤ تحریک تپتے ہوئے صحراء میں ڈھونڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے ہم سب مل کر اپنی نئ نسل کی بقاء کی خاطر جتنا بھی ہو سکے اپنا کردار ادا کریں۔ سب مل کر حکومت وقت اور متعلقہ اداروں تک اس بات کو باور کروائیں کہ ہر وہ امر جس سے نسل کی فکری و معاشرتی تباہی ہو رہی ہے اس پر سخت ترین موقف اپنایا جائے اور جسطرح بھی ممکن ہو برائی کو روکا جائے۔ دروازے بند کر دیئے جائیں تو عمارت میں داخل نہیں ہوا جا سکتا ہوتا۔ ہمیں بھی معاشرتی برائی پھیلاتے، اغیار کے ایجنڈے پر گامزن، ناپختہ ذہنوں کی تباہی کا سبب بنتے دروازوں کو بند کرنا ہوگا تاکہ ایک اسلامی فلاحی ریاست کے معماروں کی مجموعی استعداد کو بھرپور انداز میں فلاح کے لئے بروئے کار لایا جا سکے۔ رزق حلال کمانا ہر شخص کا حق ہے اور اسے اس سے محروم نہیں کیا جا سکتا لیکن سوال یہ ہے کہ حرام اور گناہ کی ترویج میں اپنا بھرپور حصہ ڈال کر کمایا گیا رزق کیا حلال ہے؟ کہیں انجانے میں تگ و دو کا نتیجہ لقمہ حرام تو نہیں بن رہا؟ ذرا سوچیں! کہ میرے اور آپ کے، سب کے  ہی بچے ہیں۔ کیا ایک محفوظ و توانا پاک خیالات کا حامل معاشرہ انکا حق نہیں؟

بقول اقبال رحمتہ اللہ علیہ

کل اپنے مُریدوں سے کہا پِیرِ مغاں نے

قیمت میں یہ معنی ہے دُرِناب سے دہ چند

زہراب ہے اُس قوم کے حق میں میء افرنگ

جس قوم کے بچّے نہیں خوددار و ہُنرمند


اور اقبال رحمتہ اللہ علیہ ہی کہتے ہیں کہ ۔۔۔

خودی کے ساز میں ہے عُمرِ جاوداں کا سُراغ

خودی کے سوز سے روشن ہیں اُمتوں کے چراغ

یہ ایک بات کہ آدم ہے صاحبِ مقصود

ہزار گُونہ فروغ و ہزار گُونہ فراغ!

ہوئی نہ زاغ میں پیدا بلند پروازی

خراب کر گئی شاہیں بچے کو صُحبتِ زاغ

حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی

خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ

ٹھہَر سکا نہ کسی خانقاہ میں اقبالؔ

کہ ہے ظریف و خوش اندیشہ و شگُفتہ دماغ

فیصلہ آخر کار ہم نے خود ہی کرنا ہے کہ نوجوان نسل کو افکار فرنگ کے حوالہ کرنا ہے یا انکا تعلق جان جہان کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن کرم سے وابستہ کرنا ہے؟

کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپکے بچے چھوٹی عمروں میں ذہنی وجسمانی قباحتوں کا شکار ہو جائیں؟

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent