Ticker

6/recent/ticker-posts

نا پسندیدہ واقعات اورعالمی دباؤ

Undesirable events and global pressures

تحریر تحسین بخاری

ہوشیکو ایک جاپانی لڑکی ہے اس کی عمر 22 سال ہے یہ جاپان کے شہر تویو ہاشی کی رہائشی ہے یہ اوساکو یونیورسٹی میں فورتھ ائیر کی سٹوڈنٹ ہے آئی کی میت سو فائنل ایئر کا سٹوڈنٹ ہے اور یہ ہوشیکو کا بوائے فرینڈ ہے آئی کی میت سو اور ہوشیکو اپریل 2005 میں اوساکا کے ایک پارک میں اپنی سہیلیوں کے ہمراہ گھومنے گئی وہاں اس کا دوست آئی کی میت سو بھی اپنے دو درجن کے قریب دوستوں کے ہمراہ آیا تھا،ہو شیکو کچھ فاصلے پر کھڑی تھی اچانک اسکی نظر اپنے بوائے فرینڈ پر پڑی ہوشیکو نے اسے پہلے ہائے کہا اور پھر فلائنگ کس کیا آئی کی میت سو کے ساتھ کھڑے دوست اور پارک میں موجود کچھ دیگر لڑکوں میں سے ہر ایک نے یہی سمجھا کہ یہ لڑکی اسے لائن مار رہی ہے لہٰذا سب اس کے پاس چلے گئے اور پکڑ کر بوس و کنار کرنے لگے لڑکی گھبرا گئی اس نے واویلا شروع کردیا پولیس آئی لڑکی کو تھانے لیجا کر مقدمہ درج کیا تحقیقاتی ٹیم تشکیل پائی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ یہ سارا واقعہ لڑکی طرف سے فلائنگ کس کے بعد شروع ہوا ٹیم نے اپنی رپورٹ میں سفارشی نوٹ میں لکھا کیونکہ اس سارے واقعے کی ابتدا لڑکی کے ایکٹ سے ہوئی ہے اس لیے لڑکی کے خلاف بھی کاروائی کی جانی چاہیے اس رپورٹ کی روشنی میں لڑکی کے خلاف الگ سے کاروائی ہوئی مقدمہ عدالت میں چلا،عدالت نے لڑکوں کو چار ماہ جبکہ لڑکی کو یہ کہ کر چھ ماہ قید کی سزا سنائی کہ نہ لڑکی یہ حرکت کرتی اور نہ یہ واقعہ رونما ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: رحیم یارخان میں موجود مندروں کی رونقیں مکمل بحال ہوگئیں

اب آتے ہیں پاکستان عائشہ اکرم کا تعلق لاہور کے علاقہ شاہدرہ سے ہے یہ ایک سرکاری ملازمہ ہے اور پنجاب کارڈیالوجی آف انسٹیٹیوٹ لاہور میں بطور سٹاف نرس کام کرتی ہے اس کی ڈیوٹی ایمرجنسی میں ہے مگر یہ اداکارہ بننے کی خواہش مند تھی پاکستان میں فلم انڈسٹری کے بحران کی وجہ سے اداکاری کے شوقین لوگوں کو ٹک ٹاک کا سہارا مل گیا اور پھر وہ اپنی خواہشات کی تکمیل اس فورم کے ذریعے کرنے لگے عائشہ اکرم بھی ایک ٹک ٹاکر ہے عائشہ اکرم نے 12 اگست کو اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے سٹیٹس لگا کر اپنے فالورز کو مینار پاکستان آنے کی دعوت دی 14 اگست کو یہ اپنے دوست ریمبو اور کچھ دیگر لڑکوں کے ہمراہ مینار پاکستان چلی گئی ڈیوٹی پر موجود گارڈ نے اسے روکا مگر یہ کسی طریقے سے اندر جانے میں کامیاب ہو گئی،اندر جب گارڈ کو پتہ چلا تو اس نے اسے دوبارہ جنگلے سے باہر نکال دیا مگر رش کے باعث یہ پھر وہاں اندرگھس گئی ویڈیوز بنانا شروع کردیں،وہاں پہ کچھ تو اس کے فالورز تھے جن کو اس نے بلایا ہوا تھا جبکہ کچھ نوجوان جشن آزادی منانے کی غرض سے بھی وہاں آئے ہوئے تھے،عائشہ نے ان کو فلائنگ کس کرنا شروع کر دیے،انھیں سینے سے لگانے کے اشارے بھی کرتی رہی،لڑکے اس کے قریب ہوئے اور یہ اشاروں سے انھیں مزید حواس باختہ کرتی رہی اب اگر کوئی حلوائی بازار سے گزرتے لوگوں کو اشارے کر کر کے بلائے کہ مفت کا مال ہے آؤ اور لے جاؤ تو حلوے کی دیگ پر لوگوں کا دھاوا بول دینا کوئی حیران کن بات نہیں اور بعد میں حلوائی واویلا کرے کہ میرے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے تو میرے خیال میں اس کھلی ڈرامے بازی پر حلوائی سزا کا حقدار ہے سو اس لڑکی کی اس کھلی بے حیائی پر وہاں پر موجود سب لڑکے اس کی دعوت محبت پر اسکی جانب لپکے،سب نے اس کو چھونے اور اسکی طرف سے پھینکے گئے فلائنگ کس وصول کرنے کی کوشش کی دھکم پیل ہوئی اور پھر یہ گھبرا گئی 15 کی اطلاع پر پولیس آئی انھیں تھانے لے گئی توعائشہ نے کاروائی سے انکار کردیا کیوں؟ کیونکہ یہ جانتی تھی کہ جو بھی ہوا اسکی اپنی حرکت کی وجہ سے ہوا مگر پولیس نے پھر بھی اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا عائشہ 15 اور16 اگست تک اپنی روٹین کی زندگی میں مگن رہی پھر کسی نے 17 اگست کو یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کردی سوشل میڈیا سے اس واقعہ کو ہمارے غیر ذمہ دار میڈیا نے تصویر کا دوسرا رخ دکھائے بغیر ہمیشہ کی طرح یوں اچھالا کہ شاید اتنا ہمارے دشمن ملک انڈیا نے بھی نا اچھالا ہو۔ خود کو صف اول کی سٹار سمجھنے والی عائشہ اکرم نے دراصل یہ سارا شو اس نیت سے رچایا تھا کہ وہ اس ویڈیو کو فیس بک پر لگا کر نیچے کیپشن میں یہ تحریر لکھے سکے (معروف ٹک ٹاک سٹار عائشہ اکرم مینار پاکستان پہنچی تو ان کی ایک جھلک دیکھنے کیلیے سینکڑوں مداح ان کے گرد جمع ہو گئے) اب ہمارے غیر ذمہ دار میڈیا اور نام نہاد د لبرل ٹولے نے دنیا کے سامنے اس واقعہ ایسے پیش کیا گویا پاکستان میں خواتین مردوں کے ڈر کی وجہ سے قید ہیں باہر بالکل بھی نہیں نکلتیں پاکستان بننے کے بعد پہلی دفعہ جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک لڑکی گھر سے نکلی تو کئی برسوں سے باہر دو چار سے مرد اس انتظار میں کھڑے تھے کہ کوئی عورت باہر نکلے اور یہ اس پر جھپٹیں اور پھر جیسے ہی یہ باہر نکلی تو وہ اس پر جھپٹ پڑے۔

دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اور پاکستانی قوم ایک باشعور قوم ہے دنیا کو پتہ ہے خواتین روزانہ اپنی مرضی کے لباس کے ساتھ گھر سے باہر نکلتی ہیں،پارکوں میں گھومتی ہیں بائیک پر اکیلی کالج، یونیورسٹی جاتی ہیں اور انھیں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا،اس واقعہ کے دروان بھی وہاں بہت سی خواتین مینار پاکستان پر موجود تھیں مگر یہی لڑکے ان خواتین پر کیوں نا جھپٹے؟ اس لیے کہ وہ خواتین اپنے اخلاقی شرم وحیا کے حصار میں تھیں جبکہ عائشہ اپنے ہاتھوں سے اپنے اخلاقی شرم و حیا کا دامن خود بھی تار تار کر چکی تھی جبکہ بچا کھچا دامن تار تار کرنے کیلیے ان لڑکوں کو دعوت دے رہی تھی کہ برائے مہربانی میرے دامن کو تار تار کرنے میں میری مدد کیجیے اور پھر وہ لڑکے اسکی مدد کو پنہچے تو اس نے واویلا شروع کردیا۔

یہ بھی پڑھیں : ائیر پورٹ سے ملاقات

میرے ایک لبرل مائنڈ دوست کا کہنا ہے کہ عورت چاہے جتنی بری ہو اس کا لباس بھلے جس طرح کا ہو تو اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک مناسب ہے؟،تو میرے اس دوست کے سوال کا جواب ہے کہ عائشہ کے برے ہونے یا اس کے عریاں لباس کے باعث یہ واقعہ پیش نہیں آیا اسی طرح کے لباس میں اور بھی بہت سی خواتین روزانہ گھومتی نظر آتی ہیں جنھیں کوئی بھی نہیں چھیڑتا یہ واقعہ اس نے خود تخلیق کیا ہے،اس نے خود لوگوں کو اکسایا ہے۔کیا کوئی مرد کسی بھرے چوک میں کسی لڑکی کو اس طرح فلائنگ کس کرنے کی جرات کر سکتا ہے؟ ہرگز نہیں کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اگر وہ ایسی حرکت کرے گا تو وہاں پر موجود ہر مرد اس اجنبی لڑکی کا بھائی اور باپ بن کر پیش آئے گا۔مگر افسوس کہ ایک لڑکی نے سر بازار یہ حرکت کی تو ملک دشمن ایک مخصوص ٹولہ چیخ پڑا اورپاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوئی کسرنہ چھوڑی ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری حکومت ہمارے محکموں اور ہمارے ادارروں پر انٹر نیشنل پریشر حاوی ہو چکا ہے جب تک ان کے دروازوں پرانٹر نیشنل پریشرکی گھنٹی نا بجے تب تک یہ آنکھ نہیں کھولتے چاہے ظلم و زیادتی کا کتنا بڑا واقعہ رونما کیوں نا ہوجائے۔جہاں انٹر نیشنل پریشر ہو وہاں سوئی کے گم ہو جانے پر بھی یہ حرکت میں آجاتے ہیں اور ان کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔

بھونگ مندر واقعہ ہو،ریمنڈ ڈیوس کا ایشو ہو یا آسیہ مسیح کی رہائی کا معاملہ ہو آپ کو پاکستانی اداروں کے ایسے تمام فیصلوں میں انٹرنیشنل پریشر ملے گا جبکہ عافیہ صدیقی کیس میں پاکستانی قوم نے ہر طرح کا پریشر ڈویلپ کر کے دیکھ لیا امریکہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ پوری پاکستانی قوم جان چکی ہے کہ مینار پاکستان واقعہ پاکستان کو بدنام کرنے کیلیے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہوا لہٰذا حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اس واقعہ کے تمام کرداروں کے خلاف سخت ترین کاروائی کرکے انھیں کیفر کردار تک پہنچائے تاکہ آئندہ کوئی ملک دشمن عناصر پاکستان کو بدنام کرنے کا سوچ بھی نا سکے

نا پسندیدہ واقعات اورعالمی دباؤ


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent