Ticker

6/recent/ticker-posts

سچا انسان

True man

کالم نگار،مفتی اسعد یوسف جاجروی
آج سے چودہ سو سال قبل جب ہر طرف شرک و بدعات کے سیاہ گھٹا بادل ہر سو سایہ افگن بن کر چھائے ہوئے تھے، جہاں ناپ تول میں کمی کر کے فخر جب کہ پانی پلانے ہر خونی جنگیں برپا ہو جایا کرتی تھیں، جہاں سورج اور بتوں کی پرستش کو عظیم عبادت خیال کیا جاتا تھا، جہاں معصوم بچیوں کو پیدا ہوتے ہی بدنامی کے خوف سے زندہ درگو کرنا عین ثواب کا کام سمجھا جاتا تھا انسانی اخلاق وکردار کا تعین انسان کے گفتار ومعاملات سے ہوتاہے۔ جو انسان ہمیشہ سچ بولتا ہے، وہ فاتح اور کامیاب رہتا ہے وقتی مشکلات کے باوجود صدق وسچائی، انسان کو نجات و عافیت کی منزل پہ لے جاتی ہے۔ جھوٹا آدمی وقتی طور پر کچھ فوائد حاصل کر بھی لے تواس کا جھوٹ بالآخر اسے ہلاکت کے گڑھے میں لے ڈوبتا ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ''اَلصِّدْقُ یُنْجِیْ وَالْکِذبُ یُہْلِک‘‘ یعنی صدق نجات کا ذریعہ اور جھوٹ باعث ہلاکت ہے، انسان تو ہر دور میں تھے حضرت آدم علیہ السلام کی دنیا میں آمد سے لے کر حضرت موسی علیہ السلام کی نبوت تک، پر جو سچا انسان بنا وہ میرے محبوب نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد،  اس سے پہلے یہ انسان کبھی سجتا سنورتا ضرورتھا کیوں کہ ہر دور میں نبی و رسول آتے رہے انسان کو سچا انسان بنانے کیلےلیکن یہ انسان ایسی ایسی حرکتوں کا مرتکب ہوا کہ کائنات بھی دنگ رہ گی حالانکہ جس ذات باری تعالی نے اس کو سچا انسان  اور اشرف المخلوقات بنایا یہ اس کا شکر وفرمانبرداری کی بجائے اس کے ساتھ بھی شریک بنا لیے وہ وہ کام کیے کہ خود انسانیت بھی شرماگئی بیماری سے شفاء کاخدا الگ، بارش برسانے کا الگ حتی کہ  ہرچیز کیلیے الگ الگ معبود بنالیے۔ بچیوں کو زندہ درگور کرنا صرف اس لیے کہ لوگ کیاکہیں گے یہ بچیوں کا باپ ہے یہ اپنے لیے طعنہ سمجھتے تھےپھر بیت اللہ کابرہنہ ہوکر طواف کرنا ایسی ایسی غلط رسومات کاایجاد کرناکہ  جس سے انسانیت بھی شرماجائےجب ہر طرف بدعات رسومات کابول بالا ہونے لگا دنیاتاریک ہونے لگی سیاہ رات کی طرح انسانیت میں سچائی کی جوصفت تھی وہ معدوم ہونے لگی تو اللہ کی ذات کو اس انسان پر ترس آیا تب اللہ رب العزت نے اقائےنامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کومبعوث فرمایا جیسے ہی آقا صلی اللہ علیہ  کی تشریف آوری ہوئی اور اس وقت جو تاریکی کے گھٹا ٹوپ بادل  انسانیت پرچھائے ہوئے  تھے وہ ہٹنے  لگے تاریکی سے اجالا ہونے لگا، آج ہر طرف عجیب افراتفری کا عالم ہے ہر شخص جھوٹ کا عادی اور سچائی سے عاری ہے جس معاشرے میں جھوٹ کا چلن عام ہوجائے اور سچائی دم توڑ جائے اس میں جرائم کی کثرت لازمی امر ہے باہمی احترام اور محبت جھوٹ کی آگ میں جل کر خاکستر ہوجاتے ہیں اس کے مقابلے میں سچائی جرائم کو کنٹرول کرنے اور امن و امان کے قیام کے لیے بہترین اکسیر ہے سچا انسان دوسروں کا احترام کرتا ہے اور اُسے خود بھی احترام ملتا ہے جو شخص جھوٹ کا عادی ہوجائے اس کی شخصیت گندگی کا ڈھیر بن جایا کرتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر لحاظ سے انسانِ کامل تھے۔ آپؐ کی حیات طیبہ سراسر نور و ہدایت اور حسن وجمال کا مرقع تھی۔ آپؐ نے زندگی بھر کبھی جھوٹ نہیں بولا حالانکہ جس معاشرے میں آپؐ نے آنکھ کھولی اس کی بنیاد ہی جھوٹ، غلط بیانی اور دھوکہ دہی پرتھی۔ جھوٹ کو اگرچہ عیب جانا جاتا تھا مگر اس کا چلن اس قدر عام تھا کہ معیوب ہونے کے باوجود اسے انسان کی ذہانت و فطانت اور ہوشیاری تصور کیا جانے لگا تھا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے معاشرے میں آنکھ کھولنے کے باوجود اپنے دامن کو ہمیشہ اس آلودگی سے پاک صاف رکھا۔ بچپن اور لڑکپن میں بھی آپؐ کی یہ صفت اتنی معروف اور نمایاں ہو کر ضیا پاش ہوئی کہ معاشرے کا کوئی فرد نہ اس سے بے خبر رہا، نہ کبھی اس کا انکار اور نفی کرسکا۔ پوری قوم کے درمیان آپؐ عنفوان شباب ہی میں الصادق (یعنی سچا اور راست گو) کے لقب سے معروف ہوگئے تھے۔ آپؐ کی اس صفت کی بدولت بدترین مخالفتوں کے ادوار میں بھی آپؐ کا ستارہ چمکتا رہا

یہ بھی پڑھیں : سرائیکی صوبہ کروڑوں لوگوں کا خواب


آپؐ کے حق میں صداقت وامانت کی گواہی محض ابوجہل ہی نے نہیں دی بلکہ پوری قوم اس کی گواہ تھی۔ آپؐ کے بدترین دشمنوں میں جن لوگوں کے نام آتے ہیں، ان میں عتبہ بن ربیعہ اور نضربن حارث، دومعروف، زیرک اور بااثر سردار تھے۔ عتبہ نے دارالندوہ میں اپنی تقاریر میں کئی مرتبہ اس بات کا اظہار کیا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹا آدمی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے یہ بھی کہا کہ جو کلام وہ پیش کرتا ہے، اس جیسا کلام کسی انسان کے بس میں نہیں۔نضربن حارث، وہ شخص ہے کہ جس نے اسلام کا راستہ روکنے کے لیے گانے بجانے اور رقص وموسیقی کی محفلیں منعقد کیں، رستم وسہراب کے قصے کہانیوں پر مشتمل واقعات واشعار کے ذریعے محفلیں سجائیں اورقرآن کی آواز کو لوگوں کے کانوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے شیطانی کلچر کے ذریعے شوروہنگامہ کھڑا کیا، اس نے بھی ایک مرتبہ قریش کی مجلس میں خطاب کرتے ہوئے برملا کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم سب سے زیادہ سچا انسان ہے، نہ وہ ساحرہے نہ کاہن، نہ شاعر ہے نہ مجنون، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی تدبیر سوچنی چاہیے، محض الزامات سے بات نہیں بنے گی۔ گویا یہ ایسا اعتراف تھا جو بدترین مخالف کی زبان سے برملا کیاگیا۔ سچائی ایک اعلیٰ صفت ہے اور سچا انسان کبھی بھی غلط کام نہیں کرتا، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے''اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، سیدھی اور سچی بات کیا کرو، اللہ تمھارے اعمال درست کردے گا اور تمھارے گناہوں کو معاف کر دے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے، بس وہی عظیم کامیابی کا مستحق ہے‘‘۔ (سورۃالاحزاب 33: آیات 70-71) ہم اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں جس نے سچائی کی تعلیم دی اور سچا بن کر ہر دوست اور دشمن سے اپنا سکہ منوایا۔ کسی کلمہ گو کے لیے جھوٹ بولنا ہرگز جائز نہیں۔ سچ بولنا اور اس پر قائم رہنا شیوۂ ایمانی بھی ہے اور سچے رسولؐ کا سچا پیروکار ہونے کا ثبوت بھی۔

یہ بھی پڑھیں : پاکستان بیت المال میں نوکریاں

انسان کھوٹے انسان سے سچاانسان بننےلگاوہی انسان جوخود بھی اور معاشرہ کو بدبودار کر چکا تھا وہ اب رحمت اللعالمین کی رحمت سےخوشبو دار اور پاکیزہ ہونے لگا وہ بیٹی جو ان کےہاں زحمت سمجھی جاتی تھی وہ اب ان کیلیے رحمت و سکون تھی۔بہرکیف جب انسان کو پتہ چلا کہ میں ہی سچا انسان ہوں تو اس نے اپنی کھوج لگائی  رب کی دی ہوی عقل سے اور رحمت اللعالمین کی تعلیم سے تو ایسا سچا انسان بنا کہ چلتا زمین پر تھا مگر اس کے پاؤں کی آہٹ آسمانوں پے سنائی دیتی تھی آج بھی اگر کوئی سچاانسان بنناچاہے تومحمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کواپنا لے دنیا اس انسان کی معترف ہوجائے گی، آئیے ہم عہد کریں کہ ہمیشہ سچ بولیں گے۔ اس سے قبل ہم سے جو کوتاہیاں ہوئیں، آئیے ہم سب اس پر اللہ سے توبہ کریں۔ خود سچ پر قائم رہنے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام اہل وعیال ووابستگان کو بھی اس کی تعلیم دینا، اس کی برکات سے آگاہ کرنا اور جھوٹ کی تباہ کاریوں سے متعارف کراکے اس سے اجتناب پر آمادہ وکاربند کرنا ہمارا فرض ہے۔ ان شاء اللہ ہمیں اس کے نتیجے میں خیراور بھلائی ملے گی اور اللہ ہمیں ہر نقصان سے پناہ دے گا۔
سچا انسان


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent