Ticker

6/recent/ticker-posts

گالی گلوچ کا بڑھتا رجحان

Growing trend of abusive gossip

از قلم : شبیر احمد ڈار 

گالی گلوچ کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب سے ہم سب باخوبی واقف ہیں گالی گفتگو کی وہ قسم ہے جس میں کسی دوسرے کے جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے گالی گلوچ میں لعن طعن ، ملامتی الفاظ ، انتہا درجے گرانے والے الفاظ ، رشتے ناتوں کو برا بھلا کہنا جیسے فحش گوئی پر مشتمل الفاظ شامل ہوتے ہیں
گالی گلوچ عہد حاضر کی بڑھتی ہوئی خطرناک برائی ہے جس کی لپیٹ میں بچے ، بوڑھے ، عورتیں سب ہی شامل ہیں چاہے وہ جس بھی شعبہ سے منسلک ہوں گالی اس کی زبان پر موجود ہی رہتی ہے بعض لوگوں کی زبان پر گالی عادت بن چکی ہے اور بعض لوگوں کے لیے گالی غذا بن چکی ہے جب گھر میں ، محلے میں ، چوک چوراہے پر ، سیاست کے ایوانوں میں ، سرکاری دفاتر میں ، بس اسٹاپ پر گویا ہر جگہ جب بھی لڑائی یا پھر تکرار سننے کو ملتی ہے اس میں گالی گلوچ دونوں طرف سے دی جاتی ہے اور یہ اپنی انا کی تسکین کے لیے اور دوسرے کو شدید تکلیف پہنچانے کے لیے دی جاتی ہے کچھ لوگوں کے گالی غذا بن چکی ہے اس کے بغیر وہ رہتے نہیں ہنسی مذاق میں بھی وہ گالی دے رہے ہوتے اور ہمارے نبی محمدﷺ نے گالی گلوچ کو منافق کی نشانی قرار دیا ہے آج ہم اہل سنت ہونے کا دعوی تو کرتے ہیں مگر سنت پر عمل پیرا نہیں ہوتے گالی گلوچ کا نشانہ ہمیشہ ہماری مائیں اور بہنیں بنی ہیں جن کی عزت ہم سر عام اتار رہے ہوتے اور شرم بھی محسوس نہ کرتے
بچے پھول جیسے نازک ہوتے ہیں آج جیسی تربیت ہم انھیں دیں گے یہ بڑے ہو کر ایسے ہی بنیں گے اور اپنی اولاد کی تربیت بھی ایسے ہی کریں گے یہ سب سمجھنے کے باوجود بھی ہم گھر میں معمولی سی پریشانی پر بھی گالی دے رہے ہوتے ہیں بجلی چلی جائے تو بچوں کے سامنے گالی دے رہے ہوتے مہنگائی کی خبر سنی تب بھی گالی نکال دی کہیں کوئی چوری ہو جائے تب بھی گالی نکال دی محلے میں کسی سے لڑائی ہو جائے تب بھی گالی نکال دیتے گویا ہر وقت اور ہر مسئلے پر گالی ہماری زبان کا حصہ بنی ہوتی ہے ہم جو بات کرتے ہیں وہ بچوں کے کانوں میں آوٹ پٹ ہو رہی ہوتی ہیں اور پھر ان کی زبان سے وہ باتیں ان پٹ کی صورت میں نکلتی ہیں

یہ بھی پڑھیں : خواب میں پسلی دیکھنے کی تعبیر

بچے گفتگو کا بہت سا حصہ ماں باپ ، اسکول کے بس ڈائیور ، اساتذہ ، دوستوں اور پڑوسیوں سے سیکھتے ہیں مگر افسوس کی بات ہے ہم تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تربیت یافتہ نہیں یہ سب تب درست ہوگا جب ہم درست ہوں گے ہر شخص اپنی اصلاح کرے بچوں کو ان محافل اور مشاغل سے دور رکھیں جن سے بچے کی تربیت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہوں گھر میں خود اپنے بچوں کے ساتھ کھیلیں ان کو درس دیں کہ کیسے وہ اچھے اور برے میں تمیز کر سکتے یہ چیزیں ان کو کیسے فائدہ یا نقصان پہنچاتی ہیں آج اگر ہم نے اس برائی کو ختم نہ کیا تو یہ ہماری نسلوں کو ختم کر دے گا اب نہیں تو پھر کبھی نہیں۔

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent