Ticker

6/recent/ticker-posts

Fissures and new factionalism in Tehreek-e-Insaf Khanpur

تحریک انصاف خان پور میں دراڑیں اور نئی دھڑے بندی

تحریر جام ایم ڈی گانگا

رحیم یارخان کا سوشل ورکر سیاسی ٹھرکی ساجد آرائیں کہتا ہے کہ پنجاب کے بیشتر شہروں میں تحریک انصاف کی ٹکٹوں پر خانہ جنگی کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں شہر کا نمبر ون امیدوار، نمبر ٹو اور تھری سب اپنے لاؤ لشکر سمیت تحریک انصاف کی ٹکٹ کے لئے کوشش کررہے ہیں جب عمران خان کا جلسہ ہوتا ہے تو سب جدا جدا ریلیاں لیکر آتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں ایک دوسرے سے بڑی ریلی لائیں تا کہ عمران خان کی نظروں میں آسکیں. اور ن لیگ کی ٹکٹ دیکھ کر امیدوار ایسے بھاگتے ہیں جیسے کتی کلہ چھڑوا کر بھاگتی ہے
محترم قارئین کرام، مذکورہ بالا نقطہ نظررحیم یار خان کے ساجد آرائیں کا ہے کلے والی کتی کب، کہاں تک اور کتنی دیر کے لیے بھاگتی ہے یہ تفصیل انہوں نے نہیں بتائی اور بغیر کلے والی کے کتی کے بارے میں بھی موصوف نے کچھ نہیں بتایا خیر اس چلتے پھرتے آدمی سے ملاقات کرکے کچھ جاننے کی کوشش کریں گے ایسے حضرات کے پاس کافی باتیں ہوتی ہیں سرائیکی وسیب کے اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں آنے والے رود کوہی سیلاب کے دوران ہم نے دیکھا کہ لوگوں کے گھر مال مویشی اناج اور فصلات سمیت بہت کچھ پانی بہا کر لے گیا اس طرح پانی میں بہہ کر آنے والی چیزوں میں کتنی کارآمد ہوتی ہیں ان کی بقیہ ویلیو کس قدر اور کیا ہوتی ہے یہ مختلف علاقوں اور مختلف گھرانوں کے لیے مختلف حیثیت رکھتی ہے رود کوہی سیلاب کے دوران ہم نے اللہ سے تجارت کرنے والے بہت سارے صاحب احساس لوگ دیکھے ہیں ہُوہا والے بھی دکھائی دئیے کُھوہ کھا کے مناظر کے علاوہ شوشاہ والے بھی اپنی اپنی سوچ اور اپنے اپنے رنگ میں سرگرم عمل رہے ہیں مجموعی طور پر سول سوسائٹی کا مثبت کردار دیکھنے کو ملا ہے مافیاز تو مافیاز ہوتے ہیں جنہیں حرام کھانے کی عادت پڑ جائے وہ مشکل سے باز آتے ہیں رود کوہی سیلاب کی طرح ہماری سیاست میں بھی سیلاب آیا ہوا ہے خاصی بھگدڑ مچی ہوئی ہے اپنی اپنی سیاست بچانے کے لیے ہر سیاسی شخصیت دوڑ دھوپ میں مصروف ہے کچھ حضرات اپنی سیاست کو بوٹوں کی طرح پالش سے چمکانے اور کچھ اسے بڑھانے پھیلانے کےلیے اپنی دانست کے مطابق سیاسی تدابیریں اختیار کرتے ہوئے سیاسی پتے کھیل رہے ہیں ملک کے دوسرے صوبوں اور اضلاع کی طرح ضلع رحیم یارخان میں بھی یہ سب چیزیں بڑی تیزی پھرتی مہارت اور منافقت کے ساتھ کھیلی اور دیکھی جا رہی ہیں اِدھر سے اُدھر یا اُدھر سے اِدھر آنے والے سیاست دانوں کا یہ پرانا و دائمی جھوٹ ابھی تک کامیابی سے جاری و ساری ہے کہ میں نے اپنے عوام اور علاقے کے بہتر مستقبل کی خاطر یہ فیصلہ کیا ہے
اس سے بھی بڑا جھوٹ جمہوریت کی خاطر اور ملک کی خاطر یہ فیصلہ کیا ہے ضلع رحیم یارخان میں آجکل رود کوہی سیلاب میں بہہ کر آنے والی چیزوں کی طرح پارلیمانی سیاسی اور انویسٹرز سیاسی شخصیات پی ٹی آئی کی طرف آرہی ہیں مخدوم شاہ محمود قریشی، مخدوم ہاشم جواں بخت قریشی وغیرہ اپنے اپنے مطلب کی چیزیں اٹھاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہیں کہیں لوہا لوہے کو کاٹتے ہوئے بھی نظر آرہا ہے خیر اس کی تفصیلات کے لیے تو علحیدہ کالم درکار ہے گذشتہ دنوں خان پور سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر بیت المال چودھری اعجاز شفیع کو مخادیم میانوالی قریشیاں ٹوکہ برادران باقاعدہ طور پر تحریک انصاف میں بھرتی کروانے میں کامیاب ہوچکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن صاحبان کے 2018 میں ادھورے رہ جانے والے خواب پورے ہوں گے یا نہیں؟ اس بات کا فیصلہ پہلا مرحلہ ٹکٹوں کے تقسیم کے وقت اور دوسرامرحلہ الیکشن کے دوران ہوگا. مخدوم خسرو بختیار نے 2018 میں خان پور پر سیاسی چڑھائی کا فیصلہ کرکے وہاں کی قومی اسمبلی کی سیٹ پر الیکشن لڑنے کے لیے کاغذات جمع کروائے تھے جسے مہا شاطر سیاستدان سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری میاں عبدالستار لاڑ خان پور میں اپنی بچھائی جانے والی سیاسی سرنگوں کے ذریعے ناکام بنایا تھا لیکن اب کی بار  مخدوم بھی ہر طرح سے تیار ہو کر میدان میں اترنے کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں تبھی تو جیٹھہ بھٹہ والے میاں صاحبان کے ابھی سے پیسنے چھوٹے ہوئے ہیں. کوئی مانے یا نہ مانے سابق وفاقی وزیر مخدوم خسرو اس وقت ضلع رحیم یارخان کا سیاسی اژدھا بن چکا ہے یہ تو اب کسی ُ ُ اور ٗ ٗ کے زور پر مخدوم شاہ محمود قریشی کو آنکھیں دکھاتا ہے اور خود عمران خان سے بھی آنکھیں پھیر لیتا ہے خان کی حکومت ختم ہونے پر لندن جا بیٹھتا ہے پھر مڑ کر بھی نہیں دیکھتا چھوٹے بھائی ہاشم جواں بخت کو وقتی طور پر فوٹو سیشن کے لیے رکھا ہوا ہے ہاں البتہ خداد داد صلاحیتوں سے جمع کی جانے والی اپنی دھن دولت کے بڑے انبار میں سے تحریک انصاف کو اچھی خاصی ڈونیشن بروقت اور فراہم کر دیتا ہے الیکشن جیتنے کے لیے بھی یہ بھائی ووٹرز عوامی ڈونیشن پروگرام 2023 بنائے بیٹھے ہیں میاں عبدالستار، میاں شفیع محمد میاں غوث محمد وغیرہ مل کر اس کا کس حد تک مقابلے  کرنے کی جرات، سیاسی نیٹ ورک اور وسائل رکھتے ہیں

یہ بھی پڑھیں : خواب میں پیشانی دیکھنے کی تعبیر

چودھری اعجاز شفیع کی پی ٹی آئی میں شمولیت سے تحریک انصاف خان پور میں خفیہ نرم سیاسی مداخلت اب اوپن اور گرم ہو چکی ہے تحریک انصاف خان پور میں واضح طور پر دراڑیں نظر آنے لگی ہیں. ایم پی اے مخدوم ہاشم، چودھری اعجاز شفیع، راجہ سلیم وغیرہ ایک طرف جبکہ ایم پی اے میاں شفیع محمد، ٹکٹ ہولڈرز میاں غوث محمد سیٹھ عبدالماجد وغیرہ دوسری طرف.کوئی اور بولے نہ بولے چودھری اعجاز شفیع اور تازہ ترین پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے خواجہ قطب فرید کوریجہ کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے موقع اور اس دوران لی جانے والی تصویریں بہت کچھ بول رہی ہیں لیاقت پور میں پی ٹی آئی کے ایم این اے مخدوم مبین احمد بخاری، ایم پی اے چودھری مسعود احمد کے منحرف ہونے کے بعد میدان بظاہر خالی پڑا تھا یہاں لیاقت پور میں ڈاکٹر نذیر احمد صدیقی کی پی ٹی آئی میں تو کوئی دراڑ نہیں ہے البتہ پائپ لائن میں موجود سابق وفاقی وزیر مذہبی امور سید حامد سعید کاظمی اور چودھری اسلام اسلم اور اب نئے داخل ہونے والے صاحبان خواجہ قطب فرید کوریجہ اور پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر جانے والے جنرل سیکرٹری چودھری جہانزیب کے درمیان ٹکٹ مسائل موجود ہیں کاظمی صاحب کو لیاقت پور کے علاوہ ملتان، علی پور وغیرہ میں بآسانی ایڈجسٹ کیا جاسکتا ہے انویسٹر سیاست دان جان جہاں کا سیاسی اچار ڈالنےکے سوا فی الوقت اور تو کچھ نظر نہیں آ رہا خان پور میں لگتا ہے کہ سیٹھ عبدالماجد کو قربانی دینا پڑے گی یا قربان کرنا پڑے گا خان پور کے ٹائیگر راجہ اور منشی راجہ کا بھی نظریات اور مفادات کے مضامین کا امتحان و پییر ہوگا مخدوم خسرو بختیار آئندہ الیکشن پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر لڑے گا یا الیکشن کے موقع پر چند دن پہلے عمران خان کے خلاف چارج شیٹ جاری اور باغی تقریر کرکے کسی اور اونچے ٹیلے پر کھڑا ہوگا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی بھوری، کالی چِٹی سب گھوڑیوں کے فیصلے مالک نے کرنے ہوتے ہیں
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ مخدوم مارکہ میاں برادران کا پتہ صاف کرنے اور انہیں پی ٹی آئی سے آؤٹ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور پھر کھل کھلیں گے میاں غوث محمد کی بولتی مکمل بند کرنے کا پروگرام ہے بہرحال ایک بات تو طے ہو چکی ہے کہ میانوالی کے مخدوم اور جیٹھہ بھٹہ خان پور کے میاں برادران اس وقت آمنے سامنے آچکے ہیں.خان پور کےکچھ لوگ ماضی میں رحیم یارخان میں پیش آنے مخدوم رکن الدین اور چودھری ظفر اقبال وڑائچ والے واقعے کی مثالیں نہ جانے کس تناظر میں اور کیوں دے رہے ہیں ایسی سوچ رکھنے والوں کو میں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مخدوم رکن الدین اور اس کے بیٹوں مخدوم خسرو بختیار اور مخدوم ہاشم جواں بخت میں بہت بڑا فرق ہے اس وقت یہ کیفیت تھی پرے بھاء لاؤ اور اب یہ حالات ہیں الامان آگ لگا دو ویسے ہماری قومی سیاست میں مک مکا اور چک چکا کو بھی بڑی اہمیت اور مقام حاصل ہے اس لیے یہاں پر کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے قانونی طور پر احستاب اور اخلاقی طور پر یہاں پوچھنے کا ابھی تک رواج ہی شروع نہیں ہو سکا چاچا نہال لاڑ کا کہنا ہے کہ مخدوماں لاڑیں نال نہ لڑ اوکھا تھیسیں ویسے غیر جانبدارانہ پر دیکھا جائے تو لاڑ زمیندار اور بڑا ووٹ بنک رکھنے والا برداری ہے لیکن یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ڈاڈے خاندان یا گھرانے کی لاڑوں کے لیے کیا خدمات ہیں لاڑ کہاں کہاں اور کس حد تک باہم متفق و متحد ہیں؟

یہ بھی پڑھیں : میانوالی قریشیاں خان پور کو فتح کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟

سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری میاں عبدالستار لاڑ گذشتہ چند روز سے بیمار ہیں اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں زیر علاج ہیں ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں صحت و سلامتی سے نوازے سننے میں آیا ہے کہ فزیکلی ان کا ایمیونٹی سسٹم خاصا کمزور ہو چکا ہے اِدھر اُن کے سیاسی ایمیونٹی سسٹم کو کمزور کرکے ختم کرنے کے لیے بھی مہم شروع ہو چکی ہے ݙاݙے کے لیے یک نہ دو شد ایک ساتھ دو امتحان ایک جسمانی اور دوسرا سیاسی اللہ خیر کرے
پی ٹی آئی خان پور میں جو دراڑیں پڑ چکی ہیں ان کا کیا حل کیا جاتا ہے اس کا آنے والے وقت میں ہی پتہ چل سکے گا. فی الوقت تو دونوں دھڑے اپنی اپنی جگہ مطمئن ہیں کہ اوپر ہماری لابی مضبوط ہے ہماری موقع کی پوزیشن بھی ٹھیک ہے عوام بھی تو اپنے سیاستدانوں کو دیکھ دیکھ کر اور بھگت بھگت کر ان کی طرح سیانی سیانی سی ہو گئی. کسی کو انکار نہیں کرتی بلکہ ہرآنے والے سیاستدان کو کہتی ہے کہ سئیں ہم تمھارے ساتھ ہیں

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent