Ticker

6/recent/ticker-posts

Imran Khan's arrival in Rahim Yar Khan and Saraiki Wasib's expectations

عمران خان کی رحیم یارخان آمد اور سرائیکی وسیب کی توقعات

تحریر جام ایم ڈی گانگا

تحریک انصاف کے قائد و سابق وزیراعظم عمران خان 24 ستمبر کو خطہ سرائیکستان کے ضلع رحیم یارخان جلسہ عام کرنے آ رہے ہیں بلاشبہ عوامی پذیرائی کے لحاظ سے سابق وزیراعظم شہیدِ جمہوریت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد عمران خان وہ واحد سیاسی لیڈر ہے جو مختلف وجوہات کی بنا کر عوام خاص طور پر نوجوانوں کے دلوں پر راج کیے ہوئے ہے مذکورہ بالا دونوں شخصیات کے چاہنے والوں کے طبقات اور نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں.جن کی تفصیل ہمارے آج کے موضوع کا حصہ نہیں ہے ضلع اور وسیب کی بڑی درس گاہ گورنمنٹ خواجہ فرید کالج میں عمران خان کا یہ دوسرا جلسہ ہے

کپتان عمران خان  کی سرائیکی وسیب رحیم یارخان آمد پر یہاں کے عوام نے اُن سے کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں آیا عمران خان عوام کی اُن آس امیدوں کا لحاظ کرتے ہوئے سرائیکی وسیب کے لیے کوئی حقیقی عملی کام کرتے ہیں یا نہیں؟ اس کا پتہ تو جلسہ کے دن ان کے خطاب سے ہی چلے گا اگرچہ اس وقت وفاقی حکومت عمران خان کے پاس نہ ہے لیکن ملک کے سب سے بڑے اور طاقت ور ترین  صوبہ پنجاب میں تو اُن کی حکومت ہے وہ کم از کم صوبائی حکومت سے متعلقہ منصوبے، کام اور اقدامات کے لیے تو سب کچھ کہہ اور کروا سکتے ہیں عمران خان نے وفاق میں خود تقریبا چار سال حکومت کی ہے اس دوران وہ الیکشن 2018 کا سرائیکی وسیب کے لوگوں سے کیا گیا اہم ترین وعدہ اپنا صوبہ اپنا اختیار بھی پورا نہ کر سکے جس پر عوام کا اُن سے گلہ و شکوہ بجا ہے.الٹا یہاں کے عوام کی ڈیمانڈ کے بغیر ملتان اور بہاول پور میں سب سول سیکرٹریٹ کے نام پر ایک بڑامذاق کیا گیا ہے مذاق اس لیے کہ صوبہ مانگنے والے خطے کے عوام کو جو سیکرٹریٹ دیا گیا اس کا ایک پاؤں ملتان میں اور دوسرا پاؤں بہاول پور میں ہے اختیارات بدستور تخت لاہور کے پاس ہی ہیں ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ ان نام نہاد سول سیکرٹریٹس میں نہ تو آفیسران پورے ہیں اور ہی سٹاف پورا ہے. بلڈنگز کے جو نقشے مشتہر کیے گئے تھے نہ جانے وہ کہاں پر بن رہے ہیں پی ٹی وی ملتان سنٹر کی حالت زار پر ہم ایک عرصہ سے رو کھپ رہے ہیں علحیدہ نئے صوبے کے حوالے سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر وطن عزیز پاکستان کے باقی صوبے اور ان کے موجودہ نام حلال اور ٹھیک ہیں تو پھر سرائیکی وسیب پر مجوزہ نئے صوبے کا نام ُ ُ صوبہ سرائیکستان ٗ ٗ کیسے حرام اور غلط ہو سکتا ہے اس حوالے سے جو بھی سوچ، نظریہ، پیمانہ وغیرہ ہو وہ ایک ہی ہونا چاہئیے انصاف کا تقاضا تو یہی ہے

عمران خان صاحب آپ کے وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی نے آتے ہی اپنے ضلع گجرات کو تو ڈویژن بنا ڈالا ہے اس پر ہمیں اعتراض نہیں مگر سرائیکی وسیب میں کوئی نیا ڈویژن، کسی نئے ضلع کسی نئی تحصیل کی انہوں نے کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کیوں ایسا کیوں ہے؟ ہم اپنے کالج دور سے خان پور ضلع کے نعرے سنتے آرہے ہیں ہم دریا کے پار سے جام پور کو ضلع بناؤ کی باز گشت بھی سنتے چلے آ رہے ہیں خان پور کو یا لیاقت پور کو ضلع بنائیں تو سہی لوگوں کو آپس کی لڑانے کی بیورو کریسی چالیں اب تو بند ہونی چاہئیں کسی معروف سخصیت نے رحیم یارخان کو ڈویژن کا درجہ دلوانے کے لیے نقشہ بھی بنوایا تھا خان پور کا کیڈٹ کالج کب منظور ہوا اس کا کام کب سے شروع ہے یہ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک مکمل ہو کر فنکشنل کیونکر نہیں ہو سکا گورنمنٹ گرلز کالج میانوالی قریشیاں گانگا نگر سمیت ضلع رحیم یارخان کے دوسرے دیہی علاقوں میں جو گرلز یا بوائز کالج میاں شہباز شریف اور نواز شریف کے دور میں بنائے گئے ہیں وہ ابھی تک ٹیچرز، سٹاف اور دیگر بنیادی ضروریات سے کیوں محروم ہیں کیا بچوں کو اینٹوں کی دیواروں نے پڑھانا ہے پنجاب میں تو آپ کی حکومت ہے رحیم یارخان کی انڈسٹریل اسٹیٹ جس کے تین چار دفعہ سنگ بنیاد اور  افتتاح ہو چکے ہیں متعلقہ ذمہ داران سے اتنی تاخیر کی وجہ کون پوچھے گا اور رکاوٹیں حل کروائے گا آدم والی اکرم آباد کے مقام پر صنعتی کارکنان کے لیے جس سوشل سیکورٹی ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا وہ اہم  منصوبہ کس قبرستان میں دفن ہے یا کس دفتر کے سرد خانہ میں فریز کرکے رکھ دیا گیا ہے خواجہ فرید انجینئرنگ یونیورسٹی رحیم یارخان کے انتہائی معتصب وائس چانسلر ڈاکٹر سلمان طاہر جس نے مقامی ملازمین کو بڑی تعداد میں بے روزگار کرکے اپنے مخصوص لوگوں اور چہیتوں کو ملازمتوں سے نوازا. سرائیکی زبان و ادب سے بُغض کی انتہا کر رکھی ہے کرپشن کا یہ عالم ہے کہ اس کی نگرانی میں یونیورسٹی کی نئے تعمیر ہونے والی بلڈنگز گر رہی ہیں انکوائری رپورٹس خلاف آجانے کے باوجود بھی یہ بااثر فیصل آبادی ڈھولا لال پٹولا دھڑلے سے یہ کہہ رہا ہے کہ کوئی میرا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا نہ تبادلہ کروا سکتا ہے عمران خان صاحب ایسے ہٹ دھرم آدمی فسادات کا باعث بنتے ہیں وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی سے کہیں کہ اس کا کوئی علاج کرے رحیم یارخان اس حوالے سے خاصا حساس ضلع ہے

یہ بھی پڑھیں : عمران خاں کی مخدوم ہاشم بخت کو تنبیہ؟

محترم عمران خان صاحب، خطہ سرائیکستان کے اضلاع ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کو رود کوہی سیلاب نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے پنجاب سرکار سے کہیں کہ سرائیکی وسیب کے عوام کو ہر سال رود کوہی سیلاب میں ڈوبنے اور مرنے سے بچانے مستقل اور ٹھوس بندوبست کرے پاکستان بھر میں ضلع ڈیرہ غازی خان یرقان کی بیماری کے مریضوں کے حوالے پہلے نمبر پر ہے اور دوسرا نمبر بھی سرائیکی وسیب کے ضلع رحیم یارخان کا ہے یقین کریں اس سال سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہونے والے غریب لوگ اگلے دو سال بھی سیدھے نہیں ہو سکیں گے 2016 میں ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع میں کم و پیش چھ کے قریب رود کوہی ڈیمز بنانے کا منصوبہ ترتیب دیا گیا تھا سرائیکی وسیب کے دوسرے منصوبہ جات کی طرح یہ منصوبہ تخت لاہور کے سرد خانے میں پڑا ہے یا سابق وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے علاقے میں کوہ سلیمان کے پہاڑوں کے نیچے دب گیا ہے ازراہ کرم آپ آواز اٹھائیں پنجاب حکومت تو آپ کی ہے آپ کی آواز سے سوئی ہوئی وفاقی حکومت اور متعلقہ ادارے جاگ جائیں گے ان علاقوں میں رود کوہی واٹر چینل نہریں بنائی جائیں عوام اور کسان خاصی حد تک محفوظ ہو جائیں گے سیلاب میں کسانوں کی فصلات تباہ ہو چکی ہیں پھر اوپر سے وہ طرح طرح کے مافیاز کا شکار ہیں ان کے بارے میں بھی رحم دلانہ پالیسی اختیار کی جائے کسانوں کو گندم کا ریٹ سندھ کے برابر دیا جائے ہم جانتے ہیں آپ ذاتی طور پر کسانوں کے ہمدرد اور خیر خواہ ہیں آپ نے ترمیمی شوگر کین ایکٹ جیسے اور جن حالات میں اپنے دور میں پاس کروایا تھا. کسانوں کے دلوں سے آج بھی آپ کے لیے دعائیں نکلتی ہیں سابق کین کمشنر پنجاب میاں محمد زمان وٹو جسے سابق وزیر اعلی میاں حمزہ شہباز نے ٹرانسفر کر دیا تھا کسانوں کے تحفظ کے لیےاسے دوبارہ کین کمشنر پنجاب کے عہدے پر لایا جائے پاکستان بھر میں ضلع رحیم یارخان کے عوام ٹوکہ پرمٹ کی کارستانیوں کا سب سے زیادہ شکار ہیں ٹوکہ پرمٹ کیا ہے اس کا طریقہ واردات کیا ہے اس کی تفیصلات آپ کسان رہنماؤں سے ملاقات کرکے جان سکتے ہیں بلکہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈر میاں غوث محمد جوکہ گنے کے بڑے کاشتکار ہیں وہ زیادہ بہتر انداز میں جناب کو ثبوتوں کے بہت کچھ بتا سکتے ہیں مختصرا یہ ایک معاشی ڈکیتی ہے کسانوں کا سراسر معاشی قتل ہے آپ کسانوں کے ہمدرد ہیں کسانوں کو ان بدمعاشوں اور معاشی ڈکیتوں سے بچانے میں کردار ادا کریں جس طرح شوگر کین ترمیمی ایکٹ کو پاس کروانے میں کیا تھا کسان خوشحال تو پاکستان خوشحال.رحیم یارخان میں ایک زرعی یونیورسٹی وقت کی اشد ضرورت ہے ضلع رحیم یارخان کی تمام ششماہی نہروں کو کم ازکم نو ماہی کرکے آباد و زرخیز سونا اُگلتی زمینوں کو ویران ہونے سے بچایا جائے نہروں کی بندش کی وجہ سے زیر زمین پانی کا لیول نیچے ہوچکا ہے اور پانی کا معیار و ذائقہ بھی متاثر ہو کر خرابی و کڑواہٹ کی طرف سفر کرنے لگا ہے عوام کے ساتھ ساتھ زراعت کے لیے یہ بڑی بدشگونی کی بات ہے نہروں کی ری ڈیزائنگ و ری ماڈلنگ کرکے کامیابی سے چلنے والے پرانے سسٹم کو بچایا جائے اور چلنے دیا جائے نہر صادق برانچ سمیت دیگر نہروں کو بڑا کرنے کی بجائے چھوٹا کرنے کی سازشوں کو بند کروایا جائے

یہ بھی پڑھیں : خواب میں تاجر دیکھنے کی تعبیر

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent