Ticker

6/recent/ticker-posts

تیری ہک تے آلنا پاواں گی نت گٹکوں گٹکوں گاواں گی

I will be able to come to your hook, I will sing Nat Gatka Gatka

تحریر۔ محمد عارف سعید
جہانیاں شہر سے نواحی اڈہ پل 14جاتے ہوئے وہاڑی روڈ پر جہاں پر کائنات ہوٹل قائم ہے وہاں پر چند برس قبل مالٹوں کا باغ تھا جو کہ اب ختم ہو چکا ہے اور اسی جگہ پر بھلے وقتوں میں ایک سینما گھر قائم تھا یہ سینما گھر کوئی پختہ عمارت نہیں تھی بلکہ ”تنبو قناتیں اور کپڑے کی سکرین لگا کر“ سینما گھر ”کھڑا“ کیا گیا تھا جسے ”کچی ٹاکی“ کہتے تھے۔میرے لڑکپن کی دن تھے تب میرا ایک دوست جو کہ چک 113دس آر جہانیاں کا رہائشی تھا کے ساتھ مل کر اس سینما گھر (کچی ٹاکی) میں فلم دیکھنے کا پروگرام بنایا،قباحت یہ تھی کہ سینما گھر میں فلم کا شو رات کو ہوتا تھا اور میرا رات کو گھر سے نکلنا ازحد مشکل تھا والدہ مرحومہ سے دبے دبے الفاظ میں رات کو دیر سے گھر آنے کے پروگرام کا راز قبل از وقت افشاء بھی کر دیا تھا والدہ محترمہ نے کہا کہ  ”توں کھونسڑے (جوتے) کھانے نیں بس “ یہ سنتے ہی والد مرحوم کا کھسہ ذہن میں گھو م گیا اوریہ خیال دل سے ہی نکال دیا۔چند روز بعد دوست نے سوئی ہوئی خواہش کو پھر بیدار کر دیا کہ بڑی زبردست فلم لگی ہوئی ہے رات کو سائیکل پر چلیں گے،اصرار پر پروگرام فائنل ہو گیا کہ رات کو گھر کی دیوارسے بازار کی جانب دکان کی چھت پر اتر کر گلی میں چھلانگ لگا کر اتر جاؤں گا اور دوبارہ اسی راستے سے کود کر واپس گھر کی دیوار پھلانگ جاؤں گا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق دوست مقررہ جگہ پر سائیکل لے کر گھر کے قریب پہنچ چکا تھا اور میں بھی چھت پر سونے کا بہانہ بنا کر دیواریں اور محلے کی دکانوں کی چھتیں پھلانگتا گلی میں نکل آیا دوست سائیکل لیے کھڑا تھا لیکن اس کے ساتھ ایک اور دوست بھی تھا یعنی ایک سائیکل پر تین بندے جائیں گے،دوست نے سائیکل چلائی،دوسرے دوست کو آگے بٹھایا جبکہ میں پیچھے کیرئیربیٹھ گیا پل 14کی جانب سفر شروع ہو گیا،راستے میں گپ شپ ہوتی رہی دوست کے ذریعے سینما گھر میں لگی فلم کا نام معلوم ہوا کہ  ”وحشی گجر “ لگی ہوئی ہے۔سینما پہنچ کر سب نے مل کر پیسے ملائے کل پندرہ روپے تھے اور دوست تین ٹکٹیں لے آیا،ہم سینما کے ہال میں داخل ہو گئے ہال کیا تھا تنبو قناتیں لگائی ہوئی تھیں بیٹھنے کیلئے لکڑی کے بنے ہوئے پھٹے تھے جس کے متعلق کہا جا سکتا تھا کہ سب فلم بینوں کو ٹکٹ کے پیسے لے کر پھٹے چڑھا دیا جاتا تھا۔ خیروقت مقررہ پر فلم شروع ہوئی تو شومئی قسمت کہ چند منٹوں بعد تیز ہوا چلنے لگی جس سے سکرین ”کپڑے کا پردہ“ بھی پھڑپھڑانے لگا اور اس پر نظر آنے والی شکلیں بھی بگڑنے لگیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا سب کچھ ہی گڈ مڈ ہو رہا تھا فلم کیا تھی، کیاکہانی تھی،کیا مقصد تھا،سب کچھ ذہن سے نکل چکا ہے ہاں یاد رہا ایک گانا جس کے بول چند روز قبل بائی پاس سے گزرتے ہوئے ایک ٹرک کے اندر نصب ٹیپ ریکارڈ سے سنائی دے رہے تھے  کہ ”تیری ہک تے آلنا پاواں گی،نت گٹکوں گٹکوں گاواں گی“۔فلم کے اس گانے کے جو بول تھے تب مجھے اس کا مفہوم بالکل سمجھ نہیں آتا تھا لیکن وقت گزرنے پر نہ صرف اس گانے کے بول میں سمجھ آنے لگے بلکہ مکمل مفہوم بھی سمجھ میں آگیا تھا۔فلم ”وحشی گجر“ کا ہیرو حسب معمول پنجابی فلموں کا سلطان، سلطان راہی تھا جبکہ اس کی ہیروئین آسیہ تھی جس پر یہ گانا فلمایا گیا تھا۔آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اتنے برسوں بعد کیا اوٹ پٹانگ سوچ نازل ہو رہی ہے تو اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے پاکستان فلم انڈسٹری کی اس وقت کی سب سے مشہور ایکٹریس  ”آسیہ“ جو کہ پرلوک سدھار چکی ہے اور اسے اسے آنجہانی ہوئے آج پورے 6برس بیت چکے ہیں

یہ بھی پڑھیں : رحیم یارخان میں کلین اینڈ گرین مہم

فلم سٹار آسیہ پنجابی فلموں کی مقبول ترین اداکارہ تھی،مشہور زمانہ فلم  ”مولا جٹ “  میں اس کا  ”مکھو جٹی “ کا کردار بھی لافانی تھا اس کردار نے آسیہ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا۔فلم ”نوکر ووہٹی دا“ میں آسیہ کی منور ظریف کے ساتھ کردار بھی خوب رہا۔اس بعد فلم سٹار آسیہ کو  ” چھیدا پستول،حشر نشر،شریف بدمعاش اور جیرا بلیڈ سمیت مختلف فلموں میں ادکاری کے جوہر دکھاتے دیکھا بعدازاں آسیہ فلم انڈسٹری چھوڑ کر بیرون ملک شفٹ ہو گئی جہاں اسے کینسر کا مرض لاحق ہو گیا اور وہ مرض سے لڑتے ہوئے 10مارچ 2013ء کو زندگی کی بازی ہار گئی۔آج  فلم سٹار آسیہ کی برسی پر مجھے یہ اوٹ پٹانگ باتیں یاد آگئی تھیں ایک بات جو کہ اسی تحریر سے جڑی ہوئی ہے وہ یہ کہ ہم دوستوں میں ایک تیسرا دوست بھی تھا جس کے ہاتھ میں استری تھی اور رات کے وقت گھریلو استعمال کی چیز استری ہاتھ میں اٹھائے پھرنے کی منطق مجھے سمجھ نہ آسکی تھی لیکن میں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کا ذکر نہ کیا تھا وہ تو رات دیر گئے واپسی پر جہانیاں شہر میں داخل ہوتے ہیں افتاد ٹوٹ پڑی کہ گشت پر جاتے ہوئے پولیس رضاکاروں نے دھر لیا (تب پولیس رضاکار جہانیاں میں سائیکلوں پر گشت کیا کرتے تھے) رضاکاروں نے ہماری شناخت پریڈشروع کر دی رضاکار چونکہ شہر کے رہائشی تھے اس لیے شناخت ہونے پر میری خلاصی تو ہو گئی لیکن وہ دوست جس کے ہاتھ میں استری تھی اور رات گئے استری کا وجود پولیس رضاکاروں کیلئے ایک مشکوک ترین عمل تھا،ان کاکہنا تھا کہ چوری کرکے لائے ہو جبکہ دوست کا مؤقف تھا کہ (جو کہ حرف بحرف سچ تھا) دوست کے گھر والوں نے الیکٹریشن کو درستگی کیلئے دی گئی استری لینے بھیجا تھا جہاں اسے میرا دوست ملا اور میری طرح دوست نے اسے بھی جھانسہ دے کر ”فلم دیکھنے“ کیلئے ورغلا لیا تھا اور دوست نے استری گھر پہنچانے کے بجائے ہمراہ رکھنے کو ترجیح دی تاکہ گھر جا کر بہانہ تراش سکے کہ الیکٹریشن نے استری ابھی مرمت کرکے دی ہے۔قبل اس کے کہ ایسا کوئی خود ساختہ بہانہ کامیاب ہوتا پولیس رضاکار میرے ان دونوں دوستوں کو سائیکل اور استری سمیت تھانے لے گئے تب جہانیاں کا تھانہ شہر میں موجودہ میونسپل کمیٹی کے سامنے قائم تھا۔تھانہ جہانیاں میں تب ایس ایچ او  ”راجہ خضر حیات“ کا رعب و دبدبہ قائم تھا مجھے اگرچہ چھوڑ دیا گیا تھا لیکن میں دوستوں کو مصیبت میں چھوڑ کر جانے والا نہیں تھا پیچھے ہی تھانے جا پہنچا تب وہاں صرف ایک اہلکار کسی پر نیم دراز تھا جبکہ میرے دوست اور مال مقدمہ کے ہمراہ قریب ہی زمین پر بٹھا رکھے تھے،قریب ہی ایک الماری نما میز تھا جس کے ایک سرے پر بڑا شیشہ نصب تھا جس میں شاید پولیس اہلکار یا تھانے لائے جانے والے اپنی شکلیں ”سوری چہرے“ دیکھا کرتے تھے اس شیشہ  کے بالکل اوپر مجھے یاد ہے جلی حروف میں لکھا ہواتھا ’’کیا میں قابل عزت ہوں“،مجھے اس سے غرض نہ تھی میں نے تو اپنے طور پر اس پولیس اہلکار سے مسکینوں جیسی شکل بنا کر دوستوں کو چھوڑے کی گزارش کی لیکن یہ سعی لاحاصل تھی،پھر میں نے دوست سے اس الیکٹریشن کے گھر کا ایڈریس معلوم کیا اور اس کے گھر جا کر اس ے تما م صورتحال بتا کر اس سے مدد کی درخواست کی اس اللہ کے نیک بندے نے مدد ضرور کی لیکن بادل نخواستہ،پھر بھی ہم اس کے مشکور تھے،دوست اپنے اپنے گھر اور میں چوروں کی طرح دوسروں کی چھتیں اور دیواریں پھلانگتا اپنے گھر کی چھت پر بچھائی چارپائی پر دراز ہو گیا، دو چیزیں مسلسل ذہن میں کھلبلی مچا رہی تھیں ایک والد صاحب کے کھونسڑے ”جوتے“ اور دوسرا فلم سٹار آسیہ پر فلمائے گئے گانے کے بول جو مجھے تب بالکل سمجھ نہ آتے تھے ”تیری ہک تے آلنا پاواں گی،نت گٹکوں گٹکوں گاواں گی۔

یہ بھی پڑھیں : قیدیوں کوسہولیات کی فراہمی اوران کےمسائل کےفوری حل کو یقینی بنایاجائے،آٸی جی پنجاب جیل خانہ جات

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent