Ticker

6/recent/ticker-posts

قمرجتوئی بنام ڈی پی اورحیم یارخان

Qamar Jatoi on behalf of DPO Rahim Yar Khan

تحریرجام ایم ڈی گانگا/ضلع رحیم یار خان میں خان پور کے صحافی غالبا زیادہ پولیس سپیشلسٹ ہیں ضلع کی چاروں تحصیلوں میں اگر مقابلہ کروایا جائے تو میرا خیال ہے کہ خان پور پہلے، رحیم یار خان دوسرے، صادق آباد تیسرے اور لیاقت پور چوتھے نمبر پر آئے گا.پولیس کے ساتھ یارانے اور بھائی بندی کی کئی دلچسپ اقسام اور درجہ بندی میرے آج کے موضوع میں شامل نہیں ہے میں اپنے  صحافی بھائیوں کو خاشامدی کہنے کی جرات اور گستاخی تو ہرگز نہیں کر سکتا لیکن صحافی بھی تو اس اچھے یا برے معاشرے ہی کا حصہ ہیں خان پور میں سماجی اور فلاحی خدمت کے علمبردار صحافیوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں ہے میں حیران ہوں کہ 1994 میں ایک مخیر خاندان کی جانب سے  ٹی بی ایسوسی ایشن کو ٹی بی سنٹر اور صحت کے ادارے کے لیے عطیہ کی گئی 6 کنال 14 مرلے کروڑوں روپے کی قیمتی زمین کے بیشتر حصے پر شہر کے بااثر لوگ قابض ہو چکے ہیں خان پور کے صحافیوں کو اس پر کھل کر نیوز یا ڈائری لکھنے کی توفیق نصیب نہیں ہو پا رہی ایک فلاحی مقصد کے لیے دی گئی زمین پر قبضے کرنے والے کتنے ہی بااثر اور قریبی تعلق دار کیوں نہ ہوں ایسے لوگوں اور گروہوں کو بے نقاب کرنا ہی حق سچ اور خدمت کی صحافت ہے ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد کی جانب سے نوٹس لیے جانے اور اسسٹنٹ کمشنر خان پور فاروق احمد کے غریب آباد میں مذکورہ زمین کے وزٹ کے بعد تو کم ازکم خان پور کے صحافیوں کو اس فلاحی عوامی ایشو پر کھل کر سامنے آ جانا چاہئیے تھا قبضہ گیر شیخ، خوجہ یا جو کوئی اور ہے حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں پٹواری بادشاہ اور لینڈ ریکارڈ سنٹر سمیت جو جو کردار اس میں شامل ہیں جن سیاستدانوں کی ان قبضہ گیر لوگوں کو آشیر باد حاصل ہے ان کے بارے میں مثبت سوچ کے حامل، جرات مند اور متحرک ڈپٹی کمشنر علی شہزاد اور عوام کو بتایا جائے کمال ہے جن صاحبان کی کھاتے میں سرے سے کوئی زمین نہیں ہے یا وہ صاحبان جن کی بقیہ ملکیت صرف چند مرلے باقی ہے اور وہ دو کنال تک قبضہ کیے بیٹھے ہیں کیوں؟ ٹی بی ایسوسی ایشن کی خاموشی بھی شریک جرم ہونے کی علامت ہے وسیم دھریجہ کی بجائے انہیں مدعی بننا چاہئیے تھا انتظامیہ اور عدالت کے دروازے پر دستک دینی چاہئیے تھی.ایسے لوگ کیا عوام کی خدمت کریں گے بہت بڑا سوالیہ نشان ہے زمین عطیہ کرنے والے خاندان کو بھی یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ بھائی ہر نیکی کو کرنے کے بعد دریا میں پھینکنے کا حکم نہیں ہے کچھ نیکیاں اور نیک کام ایسے ہوتے ہیں کہ بعد میں بھی ان کی خبر گیری اور دیکھ بھال کرنا بھی مزید نیکی ہوتی ہے انہوں نے زمین جس عظیم مقصد کے لیے دی تھی وہ تو وہاں کچھ بننے سے قبل ناجائز قبضہ گیروں کے نرغے میں جا چکی ہے خیر چھوڑیں اس کیس میں انکوائری کے بعد ہونے والی پیش رفت اور رکاوٹوں بارے علیحدہ سے تفصیل کے ساتھ ڈسکس کریں گے مجھے یقین ہے کہ ڈپٹی کمشنر علی شہزاد اس کیس کو دفن اور زمین کو ہضم نہیں ہونے دیں گے انشاء اللہ ہم بھی اپنے حصے کا دیا جلا کر اندھیرے میں روشنی کیے رکھے گے. 
محترم قارئین کرام، آج کے موضوع پر کچھ لکھنے سے قبل میں جناب قمر اقبال جتوئی کے پولیس کے بارے میں تازہ ترین جذبات و احساسات کو من و عن آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں.تاکہ میرے لیے بات کرنا اور سمجھانا آسان ہو جائے. لیجئے پہلے اسے پٹھ لیں تحریر آخر تک پڑھیں گے تو کسی صحیح نتیجے پر پہنچیں گے!!

یہ بھی پڑھیں : شادی ہال اسیوسی ایشن نے شادی ہالوں میں تقریبات بند کرنے کا اعلان کردیا

 آج ڈی پی او رحیم یار خاں منتظر مہدی صاحب نے خان پور میں ایک پریس کانفرنس +کھلی کچہری کی انہوں نے اس موقع پر درجنوں شہریوں کو ان سے چھینی گئی نقدی، موٹر سائیکل ، کاریں یا ان کے متبادل کچھ رقوم دیں ایک اندازے کے مطابق یہ ریکوری دو کروڑ روپے کے لگ بھگ تھی بدلے میں شہریوں نے بھی ڈی پی او صاھب اور ان کی ٹیم کوپھولوں سے لاد دیا،  آج کی اس پریس کانفرنس سے شہر اور اس کے اردگرد ہونے والی وارداتوں سے شہر میں جو خوف و ہراس کی فضا تھی اور لوگ سر شام ہی گھروں میں دبک جاتے تھے ملزمان کی گرفتاری اور ان سے لوٹے گئے سامان کی واپسی یا سامان کے متبادل رقم کی واپسی سے خوف و ہراس کی فضا میں خاصی کمی آئی ہوگی وہیں پر جرائم پیشہ عناصر کو بھی یہ پیغام ملا کہ اگر تم ہمارے شہریوں کو لوٹو گے تو ہم بھی تمہیں اور تمہارے پورے خاندان کو لوٹیں گے اور اگر تم نے ہمارے شہریوں کو گولی ماری تو یاد رکھو گولی کے جواب میں گولی ہی کھاو گے یہاں تک تو ہم بھی پولیس کی پالیسی سے متفق ہیں کہ جرائم پیشہ بھاگ جائے تو اس کے سرپرستوں کو اٹھا لو مگر ایک بات سے ہم قطعی متفق نہیں ہیں کہ اگر میں جرم کروں اور فرار ہو جاوں تو اس کے بدلے میں میرا وہ بھائی اٹھا لو جس کو میں نے کبھی ہوا بھی نہ لگنے دی ہو کہ میں کوئی جرم کرتا ہوں یا میرا معمر والد اٹھا لو اور پھر ان سے گھر کا سامان بکواو جائیداد بکواو، ریکوری دینے کے نام پر دس لاکھ  لو اور افسران کو تین لاکھ بتاو  یہ غلط ہے ایک اور اعتراض آج کی پریس کانفرنس میں ڈی پی او صاحب کو (ماموں ) بنایا سٹی پولیس نے کہ اپنی کارکردگی شو کرنے یا اپنی برادری کے لوگوں کو نوازنے کیلئے ایسے ایسے لوگوں کو ریکوریاں دی گئیں ، جن کی واردات ہی نہیں ہوئی ایس ایچ او سٹی نے خود کو پہلے تو نا اہل ثابت کیا پھر آج اس نے اپنے آپ کو مزید نا اہل کے ساتھ ساتھ اپنے افسران کو اندھیرے میں رکھ کر ان سے بلنڈر کیا، آج کی پریس کانفرنس میں ہونے والی بدمزگی بھی نااہل ایس ایچ او سٹی کے کھاتے میں جاتی ہے اگر اس کے روئیے اور تعلقات لوگوں سے اچھے ہوتے تو ان کے افسران کو آج سبکی نہ اٹھانا پڑتی آخر میں ڈی پی او صاحب کو ایک تجویز ضرور دیں گے کہ تھانہ سٹی خان پور ایک بڑا تھانہ ہے اس کو وہی ایس ایچ او بہتر انداز سے چلا سکتا ہے جس کے لوگوں سے گراس روٹس لیول پر تعلقات ہوں کرائم فائٹر بھی ہو مگر اس کا رعب اور دبدبہ بھی اتنا ہو کہ اس کی تعنیاتی کا سُن کر جرائم پیشہ عناصر علاقہ چھوڑنے کے بارے سوچنے لگ جائیں ڈی پی او صاحب ،آپ کے پاس ایسے ایس ایچ او موجود ہیں مگر آپ نے ایک نہایت کمزور اور اہلیت کے معاملے میں بھی مشکوک شخص کو ایس ایچ او لگا رکھا ہے اس کے بارے سوچیں ضرور !!
محترم قارئین کرام، یقینا قمر اقبال جتوئی کی اس مختصر سی مگر جامع تحریر کے اندر بہت کچھ کے علاوہ کئی سوالات ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ قمر  جتوئی پولیس کے ناقد نہیں سپورٹر ہیں آخر معاملہ کیا ہے کیا ہوا ہے پولیس کدھر جائے کیا کرے اور کیا نہ کرے ریکوریوں کے نام پر کی جانے والی وصولیوں میں غبن، بڑا باریک اور پولیس کا اندرونی معاملہ ہے ایس ایچ او چودھری فقیر حسین آرائیں کا اپنی برداری کے لوگوں کو ریکوریاں دلوانا تو اچھی اور مثبت بات ہے باقی حضرات کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہئیے جہاں تک کسی شخص کو جسے کوئی واردات ہی نہیں ہوئی اسے ریکوری دلوانا سمجھ سے بالاتر بات ہے یہ تو صریحا اور ڈنکے کی چوٹ پر فراڈ اور گھپلہ ہے اس پر ڈی پی او کو ضرور انکوائی اسٹینڈ کرنی چاہئیے جہاں تک ماموں بننے اور ماموں بنانے کا تعلق ہے یہ رشتہ ٹائم اور انڈر سٹینڈنگ چاہتا ہےایسے نہیں بن جاتا کسی بھی ضلع میں اگر عوام اور حکمران ڈی پی او سے اچھی کارکردگی اور مثبت زرلٹ چاہتے ہیں تو پھر تھانوں کے انچارج صاحبان سمیت پولیس کے دیگر انتظامی امور کو قانون کے مطابق سرانجام دینے میں اسے مکمل آزادی ہونی چاہئیے رعب اور دبدبہ قانون کا اور قانون کی عمل داری کا ہونا چاہئیےشکر ہے پولیس آجکل چوروں ڈکیتوں سے ریکوریاں کرکے عوام کو واپس لوٹا رہی ہےورنہ ہم ماضی میں یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ یہی پنجاب پولیس صنعت کاروں، سرمایہ داروں، آڑھتیوں، سود خوروں کی جائز اور ناجائز ریکوریاں کرانے میں مصروف پائی جاتی تھی رہی بات وارداتوں میں کمی و بیشی، کنٹرول، اضافے اور ہوشربا اضافے کی تو یہ بھی نہ سمجھ آنے والی بات نہیں ہے. اچانک وارداتوں کی لہر کا آنا، چھا جانا اور عوام کا گبھرا جانا اس کے کئی اسباب اور وجوہات ہیں لاقانونیت کے یہ کالے کالے بادل، ان کے خوف کی گرج چمک، نقصان دہ بارش اور تباہ کن ژالہ باری اس کے اسباب کچھ انتظامی اور کچھ سیاسی ہوتے ہیں بیچ میں کئی دیگر مفاد اور موقع پرست عناصر بھی شامل ہو جاتے ہیں میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ عوام کو چوروں ڈکیتوں سے وصولیاں کرکے ریکوریاں دلانے والے ڈی پی او کا ساتھ دیجئےاسے کھل کر کام کرنے دیجئے کالم کی طوالت کی وجہ مزید تفصیلات پھر کبھی سہی

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent