Ticker

6/recent/ticker-posts

بلوچستان تمھارانہیں ہم سب کاہے

Balochistan is not yours, we all belong to it

تحریر نصیراحمد مستوئی 

سابق وزیراعلی بلوچستان چیف آف ساروان نواب محمد اسلم خان ریئسانی کی صوبائی اسمبلی میں خطاب کا چلنے والا حصہ سوشل میڈیا پر سنا کہ ہم سے پوچھتے ہیں تم کون ہو کہاں جا رہے ہو اگر مالک گھر آئے چوکیدار سوال کرے تم کون ہو پھر کیا کرنا چاہیے دوسرا واقعہ تربت میں طالب علم حیات بلوچ کو گولیوں سے بوڑھے والدین کے سامنے بھون دیا گیا جن کے والدین نے بیٹے کو تعلیم دینے کے لیے تربت سے باہر بھیجا تھا کہ بوڑھے والدین کا سہرا بنے گا کیا پتہ محاظ قاتل بن جائیں گے طالب علم حیات بلوچ جیسے واقعات مکران آوران تربت سمیت اندرون بلوچستان سے روزانہ کی بںنیادوں پر پیش آتے ہیں خاص کر مقامی آبادی کو فورسز کو لائسنس دے دیا ہے اکثر چیک پوسٹوں سے جب گزیں گے تو عجیب رویہ ہوتا ہے  بھائی جان صحافی ہیں زمیندار ہیں سرکاری آفیسر ہیں شناختی کارڈ دکھاو ٹیپ کیوں چل رہا ہے ان چیک پوسٹوں سے ایرانی ڈیزل غیر قانونی سملنگ کا سامان گزر رہا ہے دس پندرہ سال پہلے لوگوں کی گاڑی خراب ہوتی تھی یا مسافر بسوں کا انتظار کرتے تھے تو پولیس لیویز فورسز کے چیک پوسٹوں کے قریب بیٹھ جاتے تھے محافظ جان ومال کے تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ پانی چائے پلاتے تھے اب حالات یہ ہو گئے ہیں جب گاڑی چیک پوسٹ کے لیے موڑیں یا پیدل سیکورٹی فورس کی چیک کا رخ کریں تو بندوقیں تان لی جاتی ہیں اب ایسا لگتا ہے بلوچستان حکومت اربوں روپے سیکورٹی کے نام پر فورسز کو شاہد اس لیے دے رہی ہے کہ وہ خود کو محفوظ بنائیں عوام کا اللہ مالک ہے کیونکہ بلوچستان میں عوام کے محافظ اپنی ذمہ داریاں چھوڑ کر قومی شاہراہ پر سملنگ کی روک تھام پر توجہ دے رکھی ہے لیویز فورس ایف سی پولیس ہو یا نئی فورس جو دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے بنائی گئی ہے سی ٹی ڈی بھی چھالیہ ایرانی ڈیزل کے پیچھے لگ گئے ہیں حیرانگی کی بات ہے قومی شاہراہ پر سب ادارے رجسڑڈ لیکر بیٹھے ہیں گزرنے والی گاڑی کا نمبر نوٹ کرتے ہیں اپنی زبان میں لائن والی گاڑی کہا جاتا ہے اب لائن والی ایرانی ڈیزل والی گاڑی میں غیر قانونی پیڑول کے ساتھ دھماکہ خیز مواد ہے اسلحہ ہے منشیات ہے ہیروئن ہے یا اور کوئی غیر قانونی سامان اس لائن والی گاڑی  میں ہے روکنا نہیں ہےعلاقہ کے ایس ایچ او کی ہمت نہیں ہے وہ حسرت بھری نظروں سے لائن والی گاڑی کو صرف دیکھ سکتا ہے روک نہیں سکتا ہے جبکہ زمیندار کسان یوریا ڈی آئی پی فصلوں کو دینے کے لیے بغیر پرچی کے نہیں لے جا سکتا ہے جس سے زمینوں کو کھاد نہ ملنے سے بلوچستان میں پیداوار میں ہر سال کمی ہونے لگی ہے اب سوچنا اس بات پر لائن والی گاڑی میں غیر قانونی سامان جائے گا یا کسان زمیندار کھاد کی بوری دہشت گردوں کو دے گا اب سوشل میڈیا کا دور ہے بات چھپنے والی نہیں ہے فورسز کو رویہ تبدیل کرنا ہوگا اگر پنجاب میں رینجرز کی بات کریں تو وہ پولیس کے تابے میں ہے اختیارات محدود ہیں  اسطرح کھلے عام چیک پوسٹوں میں خود مختیار نہیں ہیں جس طرح بلوچستان میں پولیس اور لیویز فورس کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں کوئٹہ کی بلیلی چیک پوسٹ پر پولیس کا نام ونشان نہیں ہے کروڑوں کا اسکینرز بند پڑا ہے ہونا تو چاہیے کہ ایف سی بلوچستان میں پولیس لیویز فورس کی مددگار ہو تلاشی چیکنگ پولیس لیویز فورس کا اختیار ہو ایف سی سیکورٹی کے لیے موجود ہو اب بلوچستان میں سوشل میڈیا کے آنے تعلیمی میدان میں نوجوان پڑھنے باہر جا رہے ہیں جس کی وجہ سے ناخواندگی میں کمی آچکی ہے بلوچسستان کے طلباء طالبات سی ایس ایس پی سی ایس پاس کر رہے ہیں آفیسرز تعنیات ہو رہے ہیں  بلوچستان تبدیل ہو چکا ہے اب بلوچستان کی عوام کو ان پڑھ سپاہیوں کے رحیم وکرم پر چھوڑا نہیں جا سکتا ہے

یہ بھی پڑھیں : اقتدارمیں شرکت کااحساس اورحکمران؟

بلوچستان کی تعمیر ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہر ادارے کو اپنے دائرہ اختیار میں کام کرنا ہو گا ایرانی ڈیزل ودیگر سمگلنگ کی روک تھام کے لیے پولیس لیویز سی ٹی ڈی ایف سی کو محدود کرنا ہوگا کسٹم کے نظام کو فعال بنانا ہوگا منشیات کی روک تھام کے لیے ایکسائز پولیس موجود ہے بلوچستان کی معدنیات خاص کر کوئلہ پتھر  پر ٹیکس وصول کرنے کا اختیار بھی محکمہ معدنیات کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ سیکورٹی ادارے وصول کریں بلوچستان میں کوئلہ پر محکمہ معدنیات کو 130روپے فی ٹن ملتا ہے جبکہ 220 روپے فی ٹن تین سو کانٹا اور 90 روپے رائلٹی کون کس مد میں وصول کر رہے ہیں اور ایف بی آر 370 روپے فی ٹن وصول کر رہا ہے  اگر بلوچستان میں ہر فورس اپنا کام کرے تو کوئی شک نہیں ہے بلوچستان کے ایک سنیئر پولیس آفیسر خوبصورت بات کرتا ہے ہمارے بالا آفیسر ایرانی ڈیزل ودیگر سملنگ کے پیچھے لگانے کے بجائے اگر ہم 24 گھنٹوں میں صرف ایک گھنٹہ حقیقی معنوں میں عوام کے جان ومال کے تحفظ کے لیے کام کریں عوام رات بھر سکون سے سو پڑے گی چوری ڈکیتی قتل غارت صفر پر چلی جائے گی آپ نوٹ کریں قومی شاہراہ لنک شاہراہوں پر قائم چیک پوسٹوں پر کسی بڑے دہشت گرد سمگلرز گرفتار لیے یا سینکڑوں کی تعداد میں چلنے والے ایرانی ٹینکرز پکڑے ہر گز نہیں بلکہ شریف شہریوں اندرون ملک سے بلوچستان آنے سیاحوں تاجروں کی گاڑیوں کو روک کر تنگ ضرور کیا جاتا ہے بلوچستان میں پولیس لیویز فورس بنیادی سہولیات سے محروم ہے گاڑیاں تباہ حال ہیں ضلع کی سطح پر نفری انتہائی کم ہے اب حالت یہ ہے کہ سپاہیوں سے زیادہ حوالدار آفیسرز ہیں کانسٹیبل کم ہیں تمام ادارے سملنگ کی بتی کے پیچھے لگنے کے بجائے اپنا کام کریں تو بلوچستان میں امن ہو گا بلوچستان خوشحال ہو گا طالب علم حیات بلوچ جیسے نوجوانوں کو ماں باپ کے سامنے گولیوں سے بھون نہیں دیئے جائیں گے کسان زمیندار پرچی پر کھاد مقامی آبادی پرچی پر راشن نہیں لے گا بڑی ستم گری کی بات ہے سابق وزیراعظم میر ظفراللہ خان جمالی نے بلوچستان میں نیشنل ہائی وے لولیس ٹرانسپورٹرز کی مدد کے لیے دی تھی اب اطلاعات ہیں وہ بھی چھالیہ ایرانی ڈیزل کے سمگلروں کی بتی کے پیچھے لگ چکی ہے بلوچستان میں اداروں میں بہتری لانے کے لیے عوام کے منتخب عوامی نمائندوں کو کردار ادا کرنا ہو گا طالب علم حیات بلوچ پر گولیاں چلانے والوں محافظوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے آواز بلند کرنا ہو گا کیونکہ خوشحال بلوچستان تمھارا نہیں ہم سب کا ہے

یہ بھی پڑھیں : پنجاب ٹیلی کمیونیکیشن ڈسٹرکٹ خوشاب کےریٹاٸرڈہونےوالےملازمین کےاعزازمیں الوداعی تقریب کاانعقاد

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent