Ticker

6/recent/ticker-posts

قائدحزب اختلاف

Leader of the Opposition

تحریر یوسف تھہیم 

قارئین کرام ،قومی اسمبلی کے پہلے قائد حزب اختلاف حسین شہید سہروردی سے اٹھارویں قائد حزب اختلاف شہباز شریف تک جمہوری پارلیمان کی نمائندگی اور حکومتی بیانیے پر بحث و تکرار کا سلسلہ چلا آرہا ہے ۔ایوان میں جمہوریت کی بالادستی کے لئے جیسی بھی بحث و تکرار اور تنقید ہو قابل قبول ہے بجائے اسکے مارشل لاء ہو ۔بھلے ہی لنگڑی لولی جمہوریت ہو وہی سیاست اور  ملکی ترقی کا حسن ہے گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ وقت ہو چکا پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل برقرار ہے اور اگر یہی دو تین دہائیوں تک تسلسل برقرار رہا تو ملکی ترقی, آئینی بالا دستی اور نظام کی بہتری کے لئے سود مند ثابت ہو گا ۔ 
قائد حزب اختلاف کسی بھی پارلیمان میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ وہ اپوزیشن لیڈر آف دی ہائوس کے طور میں حکومت کے اچھے برے کاموں پر تعمیری اور تنقیدی تیر برسا رہا ہوتا ہے اسلئے قائد حزب اختلاف کا کردار ایوان کے اندر جمہوری بالادستی کا حامل ہوتا ہے ۔

یہ بھی پڑھیں : سابق وزیراعلی پنجاب حنیف رامےاورسرائیکی صوبہ

"قائد حزب اختلاف" میاں شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف پنجاب حمزہ شہباز شریف دونوں اسوقت جیلوں میں ہیں ۔شہباز شریف کو حال ہی میں منی لانڈرنگ کیس میں عبوری ضمانت خارج ہونے پر گرفتار کیا گیا جبکہ حمزہ شہباز 16 ماہ سے جیل میں ہیں ۔ ان سے قبل جن جن مسلم لیگی رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا ان میں نواز شریف,  شاہد خاقان عباسی, رانا ثناء اللہ, احسن اقبال, خواجہ سعد رفیق, سلمان رفیق,مفتاح اسماعیل و دیگر رہنما شامل ہیں ۔ کیا ان تمام لیگی رہنمائوں کی گرفتاری سے قوم کی لوٹی ہوئی رقم وصول کرلی گئی ہے ؟کیا میاں نوازشریف کو حکومتی پارٹی نےعلاج کے لئے مبینہ طور پر لندن نہیں بھجوایا ؟ کیا تمام گرفتار لیگی رہنمائوں پرلگے الزامات سچ ثابت ہوئے ہیں ؟ ایسا کچھ بھی سچ ثابت نہیں ہوا بلکہ حکومت ایک سیاسی انتقامی روش ڈال رہی ہے جسکا خمیازہ انہیں مستقبل قریب میں بگھتنا ہوگا۔ واقفان حال کے مطابق اگر ن لیگ میں سے ش نکل جاتی تو شہباز شریف کی گرفتاری نہ ہوتی ۔ ن لیگ میں سے ش نہیں نکلی تو ش کوجیل میں ڈال دیا گیا میرا ذاتی تجزیہ ہے آل پارٹیز کانفرنس اور پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ کے بعد حکومت تذبذب کا شکار ہے ۔پی ڈی ایم کی قیادت اور قائد حزب اختلاف کا کردار شہباز شریف نے ادا کرنا تھا اسے جیل میں ڈال دیا گیا ۔اس سے قبل اکتوبر 2018 میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو آشیانہ ہائوسنگ سکیم اور رمضان شوگر مل کیس میں گرفتار کیا گیا تو ان سے کتنی برآمدگی کی گئی ؟ اس بار بھی ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے کیونکہ شہباز شریف نے واضح کہہ دیا کہ اس نے ایک دھیلے کی کرپشن نہیں کی, نیب کو 90 دن کا ریمانڈ دے دیں وہ تسلی سے تحقیقات کر لے ۔ 
انتہائی افسوس کیساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ حکومت اب بے بس اور لاچار ہو چکی ہے۔ عمران خان کے بیانیے  "کسی کو نہیں چھوڑوں گا" کو تقویت ملنے کی بجائے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے کیونکہ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار پر الزامات ثابت ہوئے انکے خلاف آج تک کوئی ایکشن نہیں ہوا اور ترین صاحب باہر چلے گئے جبکہ مخدوم خسرو بختیار کوایک وزارت سے ہٹا کر دوسرا قلمدان سونپ دیا گیا عمران خان اور حکومت کو چاہئیے تو یہ تھا کہ وہ مہنگائی , غربت کے خاتمے اور بیروزگاری کے خلاف جنگ کرتی انہوں نے اپوزیشن اوردیگر بڑی سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنے کی بجائے انتقامی سیاست کو رول ماڈل بناکر پیش کیا ۔ لوگ غربت سے مر رہے ہیں اور حکومت اپوزیشن لیڈرز کو جیلوں میں ڈالنے پر لگی ہوئی ہے ۔ چینی, پٹرول ,آلو اور ٹماٹر سنچری کراس کر چکے ہیں آٹا 70 روپے تک پہنچ چکا ۔دو وقت کی روٹی غریب کی دسترس سے دور ہے ۔ بجلی کے بل آئٹم بم بن کر عوام پر گر رہے ہیں ۔ادویات پانچ سو فیصد مہنگی کردی گئی ہیں ہر طرف مہنگائی بیروزگاری اور غربت سے عام زندگی اجیرن ہو چکی ہے ۔ملک کے اندرمافیا طاقتور سے طاقتور ہورہا حکومت مہنگائی اور بیروزگاری کو کنٹرول کرنے کی بجائے قائد حزب اختلاف کے پیچھے پڑی ہوئی ہے ۔
ایک مشہور واقعہ ہے کسی چوہدری کیساتھ گاما میراثی دعوت پر چلا گیا ۔چوہدری کو دیگوں پر بیٹھا دیا گیا ۔خوشبودار پکوان دیکھ کر گامے میراثی سے رہا نہ گیا وہ لائن میں جالگا ۔ چوہدری نے گامے کو لائن میں دیکر کہا "گامے میرے پاس آکر بیٹھ جا تو میرے ذہن میں ہے"گاما چوہدری کے پاس بیٹھ گیا ۔مسلسل دوسری اور تیسری  دیگ پر یہی الفاظ کہے ۔آخری دیگ کو ختم ہوتا دیکھ کر گاما لائن میں لگا تو چوہدری نے پھر وہی الفاظ کہے تو گامے نے کہا

یہ بھی پڑھیں : خاتون کو لوٹنے کے بعد زیادتی کی،موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم کا بیان

چوہدری صاحب تسی مینو ذہن چوں کڈھ دیو"حکومت کو بھی چاہئیے کہ وہ حزب اختلاف کی گرفتاریوں کو ذہن میں رکھنے کی بجائے غربت, مہنگائی اور بیروزگاری پر اپنی توجہ مرکوز کرے تاکہ پانچ سال پورے ہونے کے بعد انہیں اپنے بیانیے پر عوام کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent