Ticker

6/recent/ticker-posts

دینی مدارس میں بیرونی اشاروں پر این جی اوز کی یلغار

Invasion of NGOs in religious schools on external signals

تحریر سیدساجد علی شاہ

 انگریز سامراج نے سب سے پہلے سازشوں کے ذریعے دینی تعلیمی اداروں کو ویران کیا ملاں اور مسٹر کا فرق متعارف کروایا اور آخر کار برصغیر میں لارڈ میکالے کا طبقاتی نظام تعلیم رائج کر کے صدیوں سے اسلامی علوم کی آبیاری کرنے والے نصاب تعلیم کو فرسودہ قرار دے کر اداروں سے رخصت کردیا اور نصاب تعلیم کے لیے ایسی بنیادیں فراہم کیں جس سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جو رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی تھے مگر فکری و ذہنی اعتبار سے انگریز اور عیسائی تھے بنگلہ دیش سمیت پاکستان کے تمام ہمسایہ ممالک سے تعلقات کشیدہ ہیں یہ ہماری حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے کشمیر سمیت دیگر اسلامی ممالک کے مسلمان کس ظلم وستم اور وحشت ناک سفاکانہ درندگی کا شکار ہیں ان بین الاقوامی اداروں کا اس سلسلے میں کیا کردار ہے ماسوائے کاغذی کاروائی کے؟ اقوام۔متحدہ ہو یا سلامتی کونسل یہ امریکہ اور تمام کفریہ قوتوں کی داشتائیں ہیں، او آئی سی کے نام پر ان سامراجی قوتوں نے اپنے گماشتوں پر مشتمل عالم اسلام کے تنازعات کو حل کرنے کا پرفریب ڈھونگ رچایا ہوا ہے سلامتی کونسل یا اقوام متحدہ سے عالم اسلام کے تمام متنازعہ مسائل کا منصفانہ امن کے حامل فیصلے کی توقع رکھنا دیوانے کے خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا اوآئی سی ایک مردہ گھوڑا ہے اس سے عالم اسلام کے حقوق کا تحفظ اور مسائل کی امید رکھنا احمقانہ سوچ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، پاکستان میں غیر ملکی این جی اوز کی ایک نہ ختم ہونے والی یلغار ہے یہ غیر ملکی این جی اوز ڈالر اور پاونڈ پر پلنے والی جن ممالک سے بھتہ لے کر پاکستان میں فلاحی کاموں کی دعویدار بن کر وارد ہوئی ہیں کیا یہ این جی اوز ان غیر ممالک میں فلاحی کام سر انجام دے چکی ہیں اور کیا وہاں اب ان کی ضرورت نہیں؟ پاکستان میں پوش اور مہنگے و اعلی رہائشی کوٹھیاں لے کر رہتے ہیں اور اپنے کاروندوں کو بڑی بڑی تنخواہیں دیتے ہیں اور اس سے کئی گنا بڑی رقم عیش و عشرت پر خرچ کرتے ہیں کیا حکومت پر مساجد و مدارس کا حساب لینا ہی فرض ہے؟ کیا ان این جی اوز سے کسی قسم کی باز پرس نہیں کی جاسکتی؟ آخر ایسا کیوں ہے ان این جی اوز سے کیوں نہیں پوچھا جاتا؟ کیا حکمرانوں کے پاس پاکستان کو امریکی کالونی بنانے کا ٹھیکہ ہے جیسا کہ ایک امریکی این جی او" سیودی چلڈرن" کے نام پر پاکستان میں فلاحی کام کر رہی ہے اس کی ملکی و قومی مفادات کے خلاف جاسوسی سرگرمیوں کے ثبوت مل جانے کے بعد اس این جی او پر شام کے وقت پابندی عائد کردی گئی مگر اگلے دن سورج نکلنے سے پہلے پہلے نہ صرف یہ پابندی اٹھائی گئی بلکہ اس کے تمام دفاتر پورے تحفظات کے ساتھ کھول دئیے گےمدارس دینیہ پاکستان کے اندر تعلیمی حوالے سے ایک اہم مقام رکھتے ہیں لاکھوں طالب علم ملک بھر میں علوم دینیہ حاصل کرتے ہیں اور یہ مدارس ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے رہے ہیں جو وحی الی کا منبع اور احکامات خداوندی کا متبع ہے، مدارس کا یہ مشن ہر دور کے سامراج کو کھٹکھتا رہا ہے اور آج بھی کھٹک رہا ہے کبھی نصاب کی تبدیلی کا نعرہ، کبھی دہشتگردی اور دہشتگرد کا لیبل تو کبھی رجسٹریشن کی آڑ میں مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور بین الاقوامی دھارے کے ساتھ ملانے کے خوشنما اور رنگین خواب دکھائے گے اور آج بھی دیکھائے جا رہے ہیں

یہ بھی پڑھیں : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ

گزشتہ دنوں "اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ" رحیم یارخان کے سربراہان جن میں جمعیت علماء اسلام کے مرکزی رہنما علامہ عبدالروف ربانی،جمعیت علماء اسلام( س) کے مرکزی نائب امیر مفتی حبیب الرحمن درخواستی، مسئول وفاق المدارس مولانا عامر فاروق عباسی, خطیب محکمہ اوقاف قاضی خلیل الرحمن، جمعیت علماء پاکستان کے ڈویزنل صدر چوہدری ریاض احمد نوری، قاری عظیم بخش رحیمی، قاری ظفر اقبال شریف  نے پریس کانفرنس کے دوران انکشافات کرتے ہوئےکہا کہ دینی مدارس میں مختلف ٹیموں کی طرف سے  سروے فارم کی تقسیم اور انھیں بجلی کا بل، تنخواہ و دیگر مراعات کا لالچ دینا ایک بیرونی منصوبہ ہے جو ایف اے ٹی ایف بل کے سلسلے کی ایک کڑی ہے جو اپنے مذموم مقاصد کی خاطر دینی مدارس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں، متنازع اور غیر شرعی وقف املاک ایکٹ کو فی الفور واپس لیا جائے ورنہ ملک بھر میں احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے ان کا کہنا تھا کہ محکمہ اوقاف کی طرف سے مساجد و مدارس کو بھیجے گئے فارم واپس لیے جائیں اور دینی مدارس و جامعات میں مختلف ایجنسیوں کے افراد کی آمد اور مختلف پروفارمیں پر کرنے کے سلسلے کو موقوف کیا جائے مختلف ٹیمیں تین سو سے زائد مدارس میں جاچکی ہیں اور رجسٹریشن کے نام پر مدارس کو ہراساں کر کے خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے، مدارس کے خلاف منصوبے بنانے والوں کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیں گے اگر اس سلسلے کو نہ روکا گیا تو ملکی سطح پر ایک بھرپور احتجاجی تحریک چلائی جائے گی، مدارس کو مٹانے والے خود مٹ جائیں گے وفاق المدارس کی قیادت سے ہمارے رابط مکمل ہوچکے ہیں آئندہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی مشاورت سے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے ان کا مزید کہنا تھا کہ دشمنان اسلام چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو دین سے دور کیا جائے بیرونی سازش کے تحت مدارس پر قدغن لگائی جارہی ہے رجسٹریشن کے راستے میں حکومت خود رکاوٹ ہے حکومت دینی مدارس کے بچوں اور علما کرام کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کررہی ہے اگر یہ سلسلہ نہ روکا گیا تو وفاق المدارس کے پانچوں بورڈ اس اقدام کی بھرپور مذاحمت کریں گے پاکستان بھر میں دینی مدارس کے خلاف حکومتی کاروائیوں کا آغاز چودہ اگست سن دوہزار ایک کو جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں شروع کیا گیا تھا اور اس وقت امریکی حکومت نے پاکستان کے مدارس کو جدید بنانے کے لیے بارہ ارب روپے کی خطیر  امداد منظور کی تھی جس کے تحت مدرسوں کو عصری اداروں کی طرح  ان میں  جدید علوم ریاضی، سائنس، انگلش اور کمپیوٹر کی تعلیم کے کے لیے اساتذہ فراہم کئے جائیں گے جن کی تنخواہ حکومت دے گی آئے روز دینی مدارس میں بلاجواز بندشیں، کبھی انہیں دہشتگردی کے مراکز کی تہمت لگانا مدارس کوبدنام کرنا اور حاملین علوم دینیہ کو دہشتگرد کہہ کر عوام میں ان کے خلاف نفرت کی فضاء پیدا کرنا، عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے تحفظ، مقام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،قرآن و حدیث کا مقام بیان کرنے پر پابندیاں، کبھی نیشنل ایکشن پلان،کبھی مدارس کی رجسٹریشن کی آڑ میں سخت پابندیاں ان سب سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان اسلامی جمہوریہ ریاست ہونے کی بجائے امریکہ کی کوئی کالونی ہو، یہ تمام تر اقدامات امریکی ہدایات اور غیر ملکی قرضوں کی مشروط بھیک کے نتائج ہیں علماء کرام، مدارس دینیہ اور ان میں پڑھائے جانے  والے علوم ہی پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی وحدت کے استحکام اور بقاء کی علامت اور ضامن  ہیں ان کے خلاف جس انداز میں جابرانہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں اس سے صاف واضح لگتا ہے کہ ترکی جس جبر و تشدد کے نظام سے چھٹکارہ اور آزادی حاصل کررہاہے پاکستان میں وہی جبر و تشدد کا نظام نافذ کرکے وطن عزیز کو لادین ریاست بنانے کا گھناونا عمل شروع ہوچکا ہے گزشتہ کم و بیش  35 سالوں سے دینی مدارس کا خالص اور آزادانہ  نظامِ تعلیم بیرونی قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کی آنکھوں میں بُری طرح کھٹک رہا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جب تک یہ دینی  مدارس اور ان کا آزادانہ تعلیمی نظام حکومتی تحویل میں نہیں آجاتا‘ اس وقت تک اس سے فارغ ہونے والے علمأ پر "گرفت" نہیں ڈالی جاسکتی‘ اور نہ ہی ان سے اپنی منشا کے مطابق دین و مذہب میں تحریف  کرائی جاسکتی ہے۔ اس لئے صدر ایوب خان کے دور سے لے کر ہر نئی حکومت نے اس”کارِ خیر“ کو سرانجام دینے کا بیڑہ اٹھایا‘ اور اپنی بساط بھر کوشش کی۔ موجودہ ریاست مدنیہ کے دعویدار حکمران طبقہ  بھی روز اوّل سے اس فکر میں گھلے جارہے ہیں‘ اپنے تئیں انہوں نے اور ان کے مشیرانِ باتدبیر نے اپنے اسلاف کی فکر کو نئے خطوط اور جدید انداز سے اٹھایا۔چنانچہ سب سے پہلے یہ نعرہ لگایا کہ دینی مدارس کو رجسٹرڈ کرکے انہیں قومی دھارے میں شامل کیا جائے گا۔ حالانکہ دینی مدارس پہلے سے ہی رجسٹریشن ایکٹ 1860ء کے تحت رجسٹر ہیں‘ مگر حکومت نے اس سابقہ رجسٹریشن کو ناکافی تصور کرتے ہوئے اس ایکٹ میں ایسی ترمیمات فرمائیں کہ اگر اس جدید اور ترمیم شدہ ایکٹ کو مان لیا جائے تو کسی دینی مدرسہ اور عصری اسکول میں کوئی فرق باقی نہ رہے گا

یہ بھی پڑھیں : حکمران کسانوں کےمسائل حل کریں کھادادویات اور زرعی ٹیوب ویلزکےبڑھتے ہوئےریٹس ناقابل برداشت ہیں،کیپٹن(ر)محمدحسین، جام ایم ڈی گانگا

گویا یہ دینی مدارس کو ختم کرنے کی ایک کامیاب کوشش تھی۔ جب اس پر اعتراض کیا گیا اور اس میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی گئی تو کہا گیا کہ موجودہ دینی مدارس سے صرف علمأ پیدا ہورہے ہیں‘ جبکہ ہم چاہتے ہیں کہ ان سے جس طرح علمأ پیدا ہوتے ہیں‘ ویسے ہی ڈاکٹر‘ انجینئر اور وکلاء بھی پیدا ہوں اور ہماری خواہش و کوشش ہے کہ دینی مدارس سے نکلنے والے علمأ ہر شعبہٴ زندگی میں خدمات انجام دینے کی صلاحیت سے مالا مال ہوں ‘ جب ان عقل مندوں کو یہ باور کرایا گیا کہ اگر میڈیکل کالج اور یونیورسٹیوں سے انجینئر اور وکلاء پیدا کرنے کی فرمائش نہیں کی جاتی تو دینی مدارس سے یہ توقع کیوں کی جاتی ہے؟تو حکومتی مشیران نے کہا  کہ دینی مدارس میں انگلش‘ سائنس اور دوسرے مضامین کیوں نہیں پڑھائے جاتے؟ جب عرض کیا گیا کہ دینی مدارس میں پہلے سے ہی میٹرک کا نصاب زیر تعلیم ہے اور کسی دینی مدرسہ کا نظامِ تعلیم کسی بھی عصری اور سرکاری اسکول کے معیارِ تعلیم سے کم نہیں‘بلکہ اس سے بڑھ کر ہے‘ تو فرمان جاری ہوا کہ ان مدارس میں پڑھنے والے غیر ملکی طلبأ کو نکال دیا جائے‘وہ ملکی سالمیت کے لئے خطرہ ہیں‘ وہ اپنے اپنے ملک سے این او سی لے کر آئیں‘ ورنہ انہیں نکال دیا جائے گا‘دینی مدارس کی نمائندہ تنظیم ”اتحاد تنظیمات مدارسِ دینیہ پاکستان“اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے ذمہ داران نے بھرپور کوشش کرکے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ دینی مدارس اور دینی طلبہ کے خلاف آپ کا یہ اقدام کسی طرح قابل تحسین نہیں ہے‘ اس سے ملک میں خلفشار ہوگا، مدارس دینیہ کے آزادانہ نظام تعلیم میں دست اندازی کرتے ہوئے انہیں حکومتی تحویل میں لینے کی سعی کی گئی ہے کبھی حکومتی سطح پر ماڈل دینی مدارس کا قیام عمل میں لا کر معاشرے سے ان کے اثرات ختم کرنے اور عوام کی توجہ حکومتی ماڈل دینی مدارس کی طرف مبذول کرنے کی کوشش کی گئی ہر جمہوری دور اقتدار میں بیرونی طاقتوں کے ایماء پر مدارس دینیہ کے کردار کو محدود کرنے اور ان کے تعلیمی کردار کو ختم کرنے کی اپنے انداز میں کوشش کی گٸی لیکن اللہ تعالی کو دنیا میں اپنے دین کو باقی رکھنا منظور ہے اس لیے مدارس دینیہ کے خلاف کی گی تمام سازشیں ہر دور میں ناکام ہوتی رہیں لیکن اب ایک نئی سازش زور پکڑنے لگی ہے اور بیرونی ایجنڈے پر کام کرنے والی این جی اوز کے ذریعے  مدارس کی اندورنی فضاء کو لالچ کی پیشکش کرکے ماحول کو خراب کرنے کی جسارت کی جارہی ہے مدارس سے اٹھنے والی اس آزادی کی صدا کو دبانا ضروری سمجھا جا رہا ہے اور اس کے لیے طرح طرح کی سازشیں بروئے کار لائی جا رہی ہیں اور ان مدارس کے راستے میں روڑے اٹکائے جا رہے ہیں  بیرونی قوتوں کے ایما پر سیکولر اور غیر اسلامی تہذیب کو رواج دینے کے لئے نصابِ تعلیم کو نہایت بھونڈے طریقے سے تبدیل کیا جارہا ہے‘ قرآنی آیات‘ احادیث‘ جہاد کی تعلیمات اور عبادات بالخصوص نماز کو نصابِ تعلیم سے خارج کرنے کی مذموم کوشش دینی معاملات میں صریح مداخلت ہے‘ پاکستان کے غیور عوام اس طرح کی سازشوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘ غیر ملکی قوتوں کے ایما پر نصابِ تعلیم میں تبدیلی اس ملک کے عوام کو اسلامی تشخص سے محروم کرنے کی سنگین سازش ہے‘ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہمارا نظامِ تعلیم بالعموم اسلامی اقدار سے ہم آہنگ رہا ہے‘ یہ پہلی حکومت ہے جو نصاب ِتعلیم کو یکسر سیکولر بنانے کی ناپاک جسارت کررہی ہے‘موجودہ صورتِ حال پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے سخت آزمائش ہے‘ کمیونزم کے خاتمہ اور روس کی شکست و ریخت کے بعد امریکا پوری دنیا میں اسلام دشمن کی حیثیت سے ابھرا‘ اس نے اسلام اور اسلامی تہذیب کو ختم کرکے مغربی تہذیب کو مسلط کرنے کی کوششیں شروع کررکھی ہیں اور اسلام کی سربلندی کو اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھ رہا ہے‘ اسلام دشمن اور عالمی دہشت گرد امریکا کے خلاف دنیا بھر میں جہاں کہیں امت مسلمہ نے مزاحمت کی‘ اس کی قیادت و سیادت دینی مدارس سے وابستہ علمأ کرام کے حصہ میں آئی‘ جس کی وجہ سے امریکا‘ مغرب اور یہودی لابی کی نگاہوں میں دینی مدارس کھٹکنے لگے اور دینی مدارس کے خلاف مذموم پراپیگنڈا مہم شروع کردی گئی‘ اور ہر اسلامی حکومت کو دینی مدارس کے خلاف اقدامات کرنے پر مجبور کیا گیا کہ وہ ان مدارس کے نصاب میں مداخلت کریں‘ ان کی حریت و آزادی کو سلب کرلیں اور مدارس کی خدمات کو یکسر نظر انداز کرکے ان کے خلاف منفی پراپیگنڈا کریں‘ یہاں تک کہ سعودی حکومت پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مدینہ یونیورسٹی‘مکہ یونیورسٹی کے نصاب سے قرآن و حدیث کی تعلیم کو ختم کرے علمائے کرام نے ہر دور میں اس دباؤ کو نہ صرف یہ کہ مسترد کیا‘بلکہ مدارس کی حریت و آزادی کی اپنی جان سے بڑھ کر فکر کی‘ افغانستان کی اسلامی حکومت اور عراق کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد امریکا کے حوصلے اتنے بلند ہوئے کہ اس نے پاکستان کی حکومت کو مدارس کے خلاف اقدامات کے لئے براہ راست احکامات دینا شروع کئے‘ امریکی ہدایات پر حکومت نے مدارس میں مداخلت کا سلسلہ شروع کیا‘ ہر موقع پر اربابِ اقتدار نے مدارس کے خلاف زہر اگلا‘ رجسٹریشن کے نام پر مدارس کو اپنے جال میں پھنسانا چاہا‘ غیر ملکی طلبہ کے خلاف ملک بدری کا ظالمانہ فیصلہ کیا‘ حالانکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تمام قوموں کو بلاکسی تفریق مذہب‘ رنگ و نسل یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کریں‘ تو پھر پاکستان میں حکومت کو یہ حق کیسے دیا جاسکتا ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی تعلیم سے روکے؟عالمی قوت کہلوانے والا امریکا جہاں کرہ ارض کے تمام وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے‘ وہاں اس کے حصول کے لئے اس کا بڑا ہدف دینی مدارس ہیں‘ جن کو وہ اپنے لئے بڑا خطرہ سمجھتا ہے

لیکن یہ بات عیاں ہے کہ دینی مدارس کسی کے لئے خطرہ نہیں، دینی مدارس کا سلسلہ صدیوں سے قائم ہے اور گزشتہ صدی میں ہندوستان میں انہی دینی مدارس کے دم سے علوم نبوت زندہ و تابندہ ہیں‘ انہی کی وجہ سے استعمار کے جبر و استبداد کا خاتمہ ہوا‘ یہی وہ قلعے تھے جن سے دین اسلام کا دفاع ہوا‘ یہی وہ نظریاتی چھاؤنیاں تھیں‘ جنہوں نے اسلامی نظریہ کی حفاظت کی‘ دینی مدارس ہی آب حیات کے وہ پاکیزہ چشمے ہیں‘ جنہوں نے مسلمانوں میں دینی زندگی باقی رکھی ہوئی ہے لیکن جس طرح آج سے چودہ سو اکتالیس سال پہلے قائم ہونے والا مدرسہ کفر کی نگاہ میں کھٹکتا تھا‘ اسی طرح آج بھی پاکستان اور دنیا بھر کے دینی مدارس اسلام دشمنوں کی نگاہوں میں خار بنے ہوئے ہیں‘ چنانچہ بے سروسامانی کے عالم میں دین حق کی شمع کو روشن کرنے والے مدارس کو دین دشمن اپنے لئے ایٹم بم سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں‘ اس لئے دین دشمن قوتیں اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ ان مدارس کو ختم کرنے‘ انہیں کمزور کرنے‘ مسلمانوں کا ان سے تعلق توڑنے اور ان کی حریت و آزادی کو ختم کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں‘ نظریاتی اسلامی مملکت پاکستان میں روز اوّل سے مدارس کو حکومتی جال میں پھنسانے کی مذموم کوششیں کی جاتی رہی ہیں اور مدارس کے لئے مشکلات پیدا کرنے کے لئے سرکاری سطح پر کوششیں جاری ہیں‘ مگر موجودہ امریکا نواز حکومت نے سابقہ تمام ظالمانہ حکومتوں سے بڑھ کر مدارس کے خلاف اقدامات کئے اور اس کو ایک مہم کے طور پر شروع کر رکھا ہے دین دشمنی مول لے کر اللہ کے غضب کو دعوت نہ دیجئے! اور اس آہنی دیوار سے نہ ٹکرایئے! بلکہ اپنے پیشرؤں کے انجام سے سبق حاصل کیجئے! ”جیو اور جینے دو‘‘کے فلسفہ پر عمل کیجئے! اور اپنے دل و دماغ سے یہ خمار نکال دیجئے کہ آپ دین‘ دینی مدارس یا علمأ کو ختم کردیں گے! اس لئے کہ یہ دین اللہ کا ہے اور اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی حفاظت کرنا آتی ہے اور وہ ان کی حفاظت کرنا بھی جانتا ہے جو اس دین کے محافظ ہیں‘ چونکہ یہ دین قیامت تک رہے گا‘ اس لئے انشاء اللہ یہ مدارس اور مدارس کے طلبہ اور علمأ بھی قیامت تک رہیں گے۔ آپ خواہ مخواہ اس پر اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کیجئے‘ اسی میں ملک و قوم اور آپ کا مفاد ہے


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent