Ticker

6/recent/ticker-posts

بیٹیاں بوجھ نہیں یہ تو رحمت ہیں

Daughters are not a burden, it is a mercy

تحریر سیدساجدعلی شاہ

ہزاروں سالہ پرانی تاریخ پر جب ہم نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جو قومیں اپنے اسلاف اور ان کی روایات کو بھول جاتی ہیں دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ جاتا ہےآج سے 1442 سال قبل جب دنیا ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی لوگ طرح طرح کے سماجی و اخلاقی برائیوں میں مبتلاء تھے  دلوں میں بغض و کینہ نے ڈیرے ڈال رکھے تھے بت پرستی کا دور دورہ تھا جب  زندہ انسانوں کو پتھروں کے بتوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہونے والی لڑائی پرانی دشمنی میں بدل جایا کرتی تھی یہ وہ دور تھا جہاں رشتوں کے تقدس کو پامال اور اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا گزشتہ دنوں مجھے اپنے دوست راشد کے ساتھ ان کے عزیز انجم کی فیملی کی تیماری داری کے لیے ہسپتال جانا ہوا اور وہاں دوست کے عزیز انجم سے ملاقات کے دوران پتہ چلا کہ موصوف کے ہاں اللہ کی رحمت یعنی بیٹی کی ولادت  ہوئی ہے جس پر میں نے مبارکبادی لیکن وہ شخص نہایت غمگین ہوا بیٹھا تھا اسی دوران وہاں میرے دوست کے ایک اور عزیز جن کا نام ایوب تھا تیمارداری کے لیے آئے اور باپ بننے والے شخص انجم  کے منہ پر بارہ بجے دیکھے تو مسلہ دریافت کیا جس پر انجم نے بیٹی کی ولادت کا لفظ بڑا دردناک انداز میں ادا کیا  تو ایوب نے اس موقع پر اپنی کہانی سنائی جس کو میں اپنے قلم کی زینت بنانے کی جسارت کر رہا ہوں، یہ 2004 کی گرمیوں کی ایک شام تھی جب ہسپتال کے آپریشن تھیٹر کے دروازے سے باہر آتی ایک نسوانی آواز میری سماعت سے ٹکرائی، مبارک ہو سر  بیٹی ہوئی ہے نرس نے باہر آتے ہی بڑا اعلان کیا۔یہ اعلان سن کر ایوب کا دل اندر سے بجھ سا گیا اور وہ اوپر سے ہشاش بشاش دکھائی دینے کی کوشش کر رہا تھا مگر اس کے اندر جیسے اندھیرا سا چھا گیا تھا یہ تیسری لڑکی تھی۔ اسے بیٹے کی شدید خواہش تھی اور  دل ہی دل میں وہ  زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی بیوی کو کوس رہا تھا کہ اس نے بیٹے کو جنم دینے کی بجائے بیٹی پیدا کر دی ہے اور ایوب مایوسی کے بدلوں میں گم سوچ رہا تھا کہ کاش  ایک بیٹا ہوتا تو کم از کم بڑھاپا تو سکون سے گذر جاتا۔وہ رو رو کر اللہ سے دعائیں مانگتا تھا کہ اس کے ہاں نرینہ اولاد ہو کبھی کسی نیک آدمی سے ملتا تو اسے بھی اسی دعا کے لیے کہتا۔آخر اللہ نے اسکی سن لی دو سال بعد اس کے ہاں چاند سا بیٹا پیدا ہوا۔ جسکا نام اس نے ارباب رکھا اسکی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ساری دنیا جیسے اسکے لیے رنگین ہو گئی تھی گو کہ اس کا تعلق ایک متوسط طبقے سے تھا لیکن پھر بھی اپنی ہستی کے مطابق اس نے خوب جشن منایاماہ و سال گذرتے رہے۔ لڑکیوں اور جمال کے معاملے میں ہر ہر بات میں اقبال کا رویہ نہایت غیر منصفانہ رہا۔ بچیوں کو اس نے بس واجبی سی تعلیم دلوائی جبکہ لڑکے کو اعلٰی سے اعلٰی سکولوں میں بڑھاپے کا سہارا جو بننا تھا اس نے لڑکیاں بس عام سی زندگی گذارتی رہیں جبکہ ارباب زندگی کی ہر آسائش کے مزے لوٹتا رہا۔ لڑکیاں بہت سمجھدار تھیں ایسا نہیں تھا کہ انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ یہ سب کیا ہے۔ لیکن انہیں اپنے ماں باپ بھائی سے شدید محبت تھی۔ جمال پر ایسی عنایتوں نے اسے لابالی اور بے پرواہ سا کر دیا تھا۔ باپ کے ساتھ بھی اکثر اکھڑ سا ہو جاتا تھا لیکن اقبال نظر انداز کرتا رہا کہ بچہ ہے۔وقت کے ساتھ ساتھ اقبال کے سارے بچے یکے بعد دیگرے جوانی کی دہلیز پار کرتے رہے۔ ان کی شادیاں ہوتی گئیں سب سے آخر میں اس نے ارباب کی شادی کی۔ چن کر چاند جیسی بہو لایا۔ لڑکیاں پہلے ہی اپنے گھروں کو سدھار چکی تھیں اور اپنے اپنے گھروں میں خوش تھیں۔ جیسی وہ متحمل اور بردبار تھیں اللہ کے فضل سے تینوں نے اپنے اپنے سسرال والوں کو اپنا گرویدہ کرلیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں : دینی مدارس میں بیرونی اشاروں پر این جی اوز کی یلغار

بڑھاپے نے ایوب کی ہڈیوں کو بھی چورا کر دیا تھا۔ تمام زندگی اس نے انتھک محنت کی تھی جسکی وجہ سے وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہو گیا تھا۔ ارباب اب ایک بہت بڑی کمپنی میں بڑا آفیسر تھا اور بہت ہی اچھی آمدنی تھی۔ ایوب کو وہ مقصد پورا ہوتا نظر آ رہا تھا جس کے لیے وہ بیٹے کی دعائیں مانگتا تھا ایوب کو ایک ساتھ کئی بیماریوں نے آ لیا اسے اب آئے روز مختلف ڈاکٹروں کے پاس چکر لگانے پڑتے تھے جو اس اکیلے کے بس کی بات نہیں تھی تو ارباب ہی پر اس کا تکیہ تھا۔ لیکن اسے اکثر ایسا محسوس ہوتا کہ ارباب کو اس طرح اس کے ساتھ بندھے رہنا سخت ناگوار گذرتا ہے۔ کئی دفعہ اس نے اشاروں کنایوں میں اس بات کا اظہار بھی کیا۔ وہ ماں اور باپ دونوں سے نالاں ہی رہنے لگ گیا۔پھر ایک دن ایوب اور اسکی بیوی نے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔ ارباب اپنے کمرے میں تیار ہو رہا تھا کافی دیر گذر گئی تو ایوب اور اسکی بیوی ان کے کمرے کی ہی طرف چل دئے کمرے میں سے اونچی اونچی آوازیں آ رہی تھیں۔ ارباب اپنی بیوی سے کسی بات پر لڑ رہا تھا تمہیں ان کے ساتھ مجھ سے زیادہ ہمدردی ہے کیا؟ ارباب وہ بوڑھے ہیں ایسے وقت میں جوان اولاد ہی سہارا بنتی ہے۔ اسکی بیوی بولی ارے چھوڑو کتنا کوئی سہارا بنے؟ اللہ ان کو موت ہی دے دے تو سب کے لیے اچھا ہے۔ صبح شام ان کی خدمت کروں یا اپنی زندگی بھی گذاروں۔ کیا میری اپنی کوئی زندگی نہیں؟ ارباب بس بولے چلا جا رہا تھا۔ ایوب کے کان سن ہو رہے تھے۔ دماغ میں اندھیرا چھا رہا تھا۔ اس سے آگے جیسے اسے کچھ سنائی ہی نہ دیا اسکی نظر اپنی بیوی پر پڑی تو وہ فرش پر گری ہوئی تھی شائد اپنی کوکھ سے جنم دیئے بیٹے کے منہ سے یہ سب سن نہ پائی تھی اقبال نے زور کی چیخ مار کر بیوی کو پکارا۔ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ اس کے بعد نہ اٹھی۔خون کی مریضہ تھی دوران خون اتنا اوپر چلا گیا کہ دماغ کی شریان ہی پھٹ گئی۔ ایوب کی دنیا ہی اندھیر ہو چکی تھی۔ صرف ایک ہی غمگسار تھی اسکی اس گھر میں اس کی موت کے بعد اس نے جمال کو گھر سے نکال دیا۔ جب بیٹے کا آسرا ختم ہوا تو خود بخود اس کے اندر ہمت آ گئی۔ گو کہ یہ اسکے لیے بہت تکلیف دہ تھا مگر اس نے جہاں جانا ہوتا خود ہی چلا جاتا۔ اب وہ بیٹے کی شکل تک دیکھنے کا روادار نہ تھا اسکی بیٹیاں باپ کی تکلیفوں پر سخت غمزدہ تھیں۔ ان میں سے کوئی نہ کوئی اسکے پاس آ موجود ہوتی تیسری والی نے ضد کر کے اسے اپنے گھر کے ساتھ جڑا ہوا گھر لینے پر مجبور کیابابا آپ یہاں رہیں میں آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔ مجھے نیند نہیں آتی بابا آپ کا سوچ سوچ کے وہ اس کو وقت پر کھانا کھلاتی۔ وقت پر دوائی کھلاتی اسکا شوہر اسے ڈاکٹر کے پاس بھی لے جاتا اور اسکی تیوری پر بل تک نہ پڑتا۔ رات کو وہ باپ کے پاؤں دباتی اس کا سر سہلاتی۔ اس کو دوائی کھلاتے ہوئے ایک دن اس نے دیکھا تو باپ کی آنکھ سے آنسو رواں تھے بابا کیا ماں کی یاد آ رہی ہے؟ اس نے محبت سے پوچھا ایوب نے اسکی طرف دیکھا اور بولا نہیں بیٹی میں یہ سوچ رہا ہوں کہ جب تو پیدا ہوئی تھی تو میں نے مالک سے اس دن یہ دعا کیوں نہ مانگی کہ مجھے تیرے ہی جیسی ایک اور بیٹی عطا کرے۔ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا

زمانہ جاہلیت میں عورت ذات کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے جس گھر میں لڑکی پیدا ہوتی اس عورت اور گھر کو منحوس سمجھا جاتا تھا عورت ہر طرح سے ذلیل و رسواء تھی لیکن ہمارے پیارے مذہب اسلام نے عورت کو عزت بخشی اور عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے پاکیزہ رشتوں سے نوازا، اسلام نے عورت کو چادر اور چار دیواری میں رہنا، بیٹھنا اور انداز بیاں سکھایا غرض یہ کہ اسلام نے عورت کو بہت اونچا مقام عطاء کیا،اسلام کی آمد عورت کے لیے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کا پیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام فرسودہ رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور عورت کو وہ حقوق عطا کیے جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی،عورت کو زندہ زمین میں گاڑے جانے سے خلاصی ملی، یہ وہ بری رسم تھی جو احترام انسانیت کے منافی تھی۔ اسلام عورت کے لیے تربیت اور نفقہ کے حق کا ضامن بنا کہ اسے روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور علاج کی سہولت ’’سربراہ ‘‘ کی طرف سے ملے گی۔اسلام نے ان سب باطل رسوم کو ختم کرکے عورت کو ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے روپ میں عزت بخشی ہے، اسلام نے عورت کو حق عصمت عطا کیا اور مردوں کو بھی پابند کیا کہ وہ اس کے حق عصمت کی حفاظت کریں

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent