Ticker

6/recent/ticker-posts

ڈاکو بھائیوں کے خلاف کچہ آپریشن اور؟

Some operation against dacoit brothers and?

تحریر جام ایم ڈی گانگا

گذشتہ چند سالوں سے ہم دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ ہر سال تقریبا گندم کا سیزن شروع ہونے سے قبل کچہ آپریشن کے نام پر باقاعدہ ایک محاذ کھلتا ہے فورسز اور ڈاکوؤں میں مقابلہ ہوتا ہے کچھ بے چارے ڈاکو بھائی مارے جاتے ہیں فورسز کے جوان بھی زخمی یا شہید ہوتے ہیں ہر سال بالآخر اکثر سرغنے اور چیدہ چیدہ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں پولیس چوکیاں قائم ہو جاتی ہیں پولیس کی موجودگی میں ہی پرامن طریقے سے ہیوی مشینری کے ذریعے گندم برداشت کر لی جاتی ہے کچھ عرصہ چوری ڈکیتی کی وارداتوں میں بھی ٹھہراؤ آجاتا ہے پھر رفتہ رفتہ حالات اپنی اصل کیفیت کی طرف لوٹنے لگتے ہیں فورسز کی واپسی، چوکیوں کا خاتمہ ڈاکو بھائیوں کی اپنے اپنے علاقہ جات میں دوبارہ آمد شروع اور معاملہ ونہی پے پہنچ جاتا ہے جہاں سے شروع ہوا ہوتا ہے چھوٹو گینگ سے لیکر اب تک کے تمام آپریشن اور ان کے سین حالات و واقعات اور نتائج تقریبا ملتے جلتے ہیں. اس کی وجوہات تو ہمارے ذمہ داران حضرات ہی بہتر بتا سکتے ہیں اس حساس موضوع پر لکھنا یقین کریں دونوں طرف سے سنگین خطرات کا باعث ہے وطن عزیز میں قوم کو ہمیشہ چپ رہنا اور برداشت کرنا ہی سیکھایا،بتایا، پڑھایا سمجھایا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں : شکست،اعتماد کا ووٹ اور سونامی کے بھنور میں غوطے کھاتی عوام

ضلع رحیم یار خان اور ضلع راجن پور کے اضلاع کی دریائی بیلٹ میں واقع علاقہ جو کچہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس کچہ بیلٹ کے اندر کئی مختلف نام کے کچہ جات موجود ہیں یہ علاقے ڈاکوؤں کی محفوظ کمین گاہوں کے طور پر ملک گیر شہرت کے حامل ہیں یا بنا دیئے گئے ہیں گویا یہاں ریاست کے اندر کئی چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں ان علاقہ جات کو ملک کے آئین و قانون کی نسبت مقامی طور پر کسی نہ کسی کے راج کے تحت چلایا جاتا ہے امن و امان، لا اینڈ آرڈر، آئین و قانون کی حکمرانی کو قائم کرنے کے لیے یہاں ڈاکو بھائیوں کے خلاف ہر سال کچہ آپریشن کیا جاتا ہے چاچا نتھو خان مامے خیرے سے پوچھ رہا تھا کہ ڈاکو بھائیوں کے خلاف ہر سال کچہ آپریشن کیا جاتا ہے، پکا آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا؟ اگر ہم غور کریں تو سوال کے اندر وزن تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس کا جواب کون دے گا کیا کبھی کسی قومی تھینک ٹینک نے اس پر سوچا کہ میرے وسیب میں میرے دیس میں لوگ ڈاکو کیوں بنتے ہیں کتنے لوگ ہیں جو شوق سے ڈاکو بنتے ہیں کتنے ڈاکو ہیں جو سماجی، معاشرتی، سیاسی، انتظامی، پولیس اور عدالتی ناانصافیوں، ظلم و جبر سے مجبور ہو کر ڈاکو بن جاتے ہیں انہیں ڈاکو کون بناتا ہے ان ڈاکوؤں کی سرپرستی کون اور کیوں کرتا ہے کیا کبھی کسی ادارے اور تھینک ٹھینک نے یہ بھی سوچنا گوارا کیا ہے کہ کتنے ڈاکو ہیں جو معمول کی معاشرتی زندگی باعزت طریقے سے گزارنا چاہتے ہیں مگر آگے حالات اس کی اجازت نہیں دیتے معاشرے میں ان کے لیے اصلاح اور فلاح کا کوئی بندوبست اور سسٹم موجود نہیں ہے باعزت زندگی گزارنے کے لیے ان کی واپسی کا ہر راستہ بند ہوتا ہے ایسے میں جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کیسے ممکن ہے یہی وہ بڑی وجہ ہے جو حالات کو بہتری کی طرف نہیں جانے دے رہی کیا کبھی کسی نے ڈاکو بھائیوں کے گھروں، بیوی بچوں کو بھی دیکھا ہے کہ ان کی زندگی کیسے اور کن حالات میں گزرتی ہے میرے نزدیک ان میں سے اکثر وڈیروں اور سیاستدانوں کے ستائے ہوئے اور مظلوم لوگ ہوتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ یہ ہمارے اداروں اور ہمارے نظام کی ناکامی ہے میرا خیال ہے کہ ان ڈاکو بھائیوں کی ذاتی کوئی زندگی نہیں یہ محض دوسروں کے آلہ کار یا ہتھیار کے طور پر زندگی گزارتے ہیں اور یہ محلات میں بیٹھے نام نہاد شرفاء ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں ملک و قوم کے جو اصل چور اور ڈکیت ہیں ان کے خلاف تو کبھی کوئی آپریشن ہی نہیں ہوا ان کا تو کوئی نام لینے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتا معاشرے میں انصاف اور امن کے قیام کے لیے قانون کی حکمرانی و سربلندی کے لیے ان ڈاکو کو بھی تفصیلاً اور غور سے سنیں ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے در دروازوں اور کھڑیوں اور سوراخوں کو بند کریں انہیں اصلاح کا موقع فراہم کریں ان کی فلاح و نگرانی کےلیے کوئی ٹھوس سسٹم لانچ کریں ان بے چاروں کی زندگیاں اندھن بن چکی ہیں حکمران اور ادارے جب تک صرف جلتی پر تیل ڈالتے رہیں گے بارود برساتے رہیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی حل نہیں اگر یہی چیز حل ہوتا تو کچہ کے حالات گذشتہ کئی سالوں سے مسلسل خراب نہ ہوتے سب کچھ کنٹرول ہو چکا ہوتا آخر کنٹرول نہ ہونے کی اور کیا وجہ ہے کوئی تو ذمہ دار بتائے کوئی مانے یا نہ مانے میں سمجھتا ہوں کہ غذا کی طرح انصاف بھی ہر بندے اور امن کی ضرورت ہے اگر حکمران اور ادارے انصاف نہیں کریں گے تو حالات بہتر نہیں مزید خراب ہی ہوں گے پولیس کو غیر سیاسی کیے بغیر انصاف اور اصلاح ممکن ہی نہیں ہے میں تو گذشتہ کچھ وقت سے ایک ذاتی کیس کے سلسلے میں تھانہ رکن پور پولیس کا رویہ دیکھ رہا ہوں پولیس کی مسلسل طرفداری اورسیاسی فرمائشی پروگرام کی متوقع واردات کے خدشے کو دیکھتے ہوئے حقائق اور صورت حال بارے ڈی ایس پی صدر رحیم یار خان رانا اکمل رسول کو فون پر آگاہ بھی کرچکا ہوں جواس وقت چھٹی پر اور لاہور گئے ہوئے تھے زمینی حقائق کو نظر انداز کرکے میرٹ اور انصاف کے ساتھ کھیلنا بہت بڑی زیادتی ہے جذبات کے غالب آجانے کی وجہ سے میں اپنے ذاتی کیس بارے کچھ لکھ بیٹھا ہوں رکن پور پولیس کے رویے اور کردار بارے تفصیلاً علحیدہ لکھوں گا یہاں کا تھانے دار کچھ صاحب اقتدار حضرات کی خوشنودی کے حصول اور بہترین وفادار ہونے کا ثبوت پیش کرنے کےلیے ہماری ملکیتی ہمارے زیر قبضہ دنیا پور گانگا میں واقع زمین پر لڑائی جھگڑا کروا کر میرے خااندان پر کوئی انتقامی کاروائی کرنے کی جلدی میں ہے حالانکہ کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اور سٹے آرڈر ہے فریق مخالف کی مداخلت اور چھیڑخانی پر ہماری درخواست کے باوجود تھانے دار ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کر رہا کیوں؟ ارباب اختیار تھانے دار کو سمجھائیں کہ اتنی طرفداری اچھی نہیں ہے وہ لڑائی جھگڑا کروا کر آگ بھڑکانے کی سازش کا حصہ نہ بنے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے عوام کو بھی جینے دیا جائے جہاں تک میرا حق اور سچ کی آواز اٹھانے اور لکھنے کا تعلق ہے اسے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے کوئی نہیں روک سکتا محترم قارئین کرام،جب تھانے پر پرچوں کا اندراج اور اخراج سیاسی ڈیروں سے ہونے لگتا ہے تو پھر علاقے میں چوریاں ڈکیتیاں قبضہ گیریاں لڑائی جھگڑے عام ہونے لگتے ہیں 

میرٹ اور انصاف ہی وہ چیز ہے جو کنٹرول کرنے میں معاون و مددگار اور موثر ثابت ہو سکتی ہے ہم کچہ آپریشن کی بات کر رہے تھے انتظامیہ خاص طور پر پولیس نے گذشتہ کئی سالوں کے آپریشنز اور تجربات سے اب تک کیا حاصل کیا ہے وہ کن نتائج تک پہنچ پائی ہے اس سنگین مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے کیا پائیدار اور مستقل حل ڈھونڈا ہے جب ڈاکو فرار ہو جاتے ہیں فورسز پورے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیتی ہیں پولیس چوکیاں قائم ہو جاتی ہیں امن و امان کی صورت حال بھی ٹھیک ہو جاتی ہے تو پھر ان پولیس چوکیوں کو مستقل طور پر کون اور کیوں قائم نہیں رہنے دیتا مارے جانے والے زیادہ ڈاکوؤں میں اکثر یا تو پولیس کے منکر ہوتے ہیں یا پھر وڈیروں کے منکر.علاقے میں پولیس کنٹرول کے دوران کس قسم کی مجبوریاں یا مسائل آڑے آ جاتے ہیں کہ یہ پولیس چوکیاں ختم کر دی جاتی ہیں کیا یہ محاذ ہر سال ایسے ہی سجتا رہے گا پولیس اور ڈاکو بھائیوں میں ہر سال اسی طرح مقابلے کا سلسلہ جاری رہے گا عوام کو ڈیڑھ دو مہینے پولیس اور دس مہینے ڈاکو راج کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پولیس راج ہو یا ڈاکو راج دونوں میں عوام کا ہی نقصان ہوتا ہے وردیاں مختلف ہوتی ہیں بس لوٹنے کے کچھ انداز، طریقے، رنگ ڈھنگ میں فرق ہوتا ہے یہ جنگ اور مقابلے کا کھیل عام لوگوں کی سمجھ سے یکسر بالاتر ہے کچہ کے علاقے جہاں پر ڈاکوؤں کا راج اور سلطنت بتائی جاتی ہے کچے کے علاقوں کا وہ ہزاروں ایکڑ رقبہ کس کی ملکیت ہے کیا وہ رقبہ ڈاکوؤں کی ملکیت ہے یا سرکار کی یا کسی اور کی وہاں ہر سال گندم کون کاشت کرتا ہے وہ گندم کون برداشت کرتا ہے ڈاکو بھی انسان ہیں کیا مجبورا ڈاکو بننے والوں پر رحم کرتے ہوئے انہیں باعزت زندگی گزارنے کا کوئی معقول استہ فراہم نہیں کیا جاسکتا مارے جانے والے یا فرار ہو جانے والے ڈاکو بھائیوں کےبیوی بچوں کی زندگی کہاں اور کیسے گزرتی ہے کیا باقی ماندہ گھرانے کے افراد کے ساتھ بھی انصاف سے کام لیا جاتا ہے یا نہیں؟ پولیس کے جو جوان شہید ہو جاتے ہیں سالانہ ان کی قبروں پر پھولوں کی چادریں چڑھانے کے مناظر بھی یقینا بہت ارمانی کرنے والے ہوتے ہیں خدارا اس مسئلے کا مستقل حل سوچیں اور اس پر استقامت کے ساتھ دیانتداری سے عمل کریں میرا تو مشورہ ہے کہ کچے کی پوری دریائی بیلٹ مستقل طور پر پولیس کی بجائے رینجرز کے حوالے کر دی جائے تین صوبوں کاسنگھم کچہ جات کا یہی مناسب حل ہے کچہ میں صحت اور تعلیم کی سہولیات دی جائیں ووکیشنل اور رفاعی ادارے قائم کیے جائیں جرائم کی دنیا سے وابستہ لوگوں کے خاندان کے دیگر افراد کو یقین دلایا جائے کہ آپ بھی باعزت اور سکون کی زندگی جی سکتے ہیں جہاں صرف حقوق سلب کرنا ہی سیکھائے جاتے ہوں وہاں امن کیسے اور کیونکر قائم ہو سکتا ہے پولیس کی کارکردگی اورڈاکو بھائیوں کے ساتھ یارانے اب کوئی زیادہ ڈھکے چھپے نہیں رہے ہم سب کو جذبات پر کنٹرول کرکے ذرا غیر جانبدار ہو کر سوچنا ہوگا مجرم اور گنہگار کی بجائے جرائم اور گناہ سے نفرت کی سوچ کو بیدار کرکے، اس پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم اصلاح اور فلاح کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں سیاسی مداخلت سے پاک پولیس اس مقصد اور مشن کے لیے ضروری ہے وطن عزیز میں یہ کہاں تک اور کیسے ممکن ہے اس بارے صاحب رائے صاحب دانش لوگوں کو اپنی اپنی رائے ضرور دینی چاہئیے تاکہ دنیا میں جہنم بنتے معاشرے کو جنت بنانے میں مدد مل سکے قران و سنت کی پیروی یقینا ہمارے لیے سب سے بہترین اور کامیاب نسخہ ہے اللہ تعالی ہم سب کو امن، خیراور ہدایت کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent