Ticker

6/recent/ticker-posts

بہاولپور پولیس کا رویہ

Attitude of Bahawalpur Police

تحریر یوسف تھہیم

محترم قارئین کرام ، یوں تو محکمہ پولیس کا شمار بہت زبردست فورس میں ہوتا ہے عام فہم سا تاثر ہے کہ پنجاب پولیس جب کچھ کرنے پر آئے تو روائتی طریقوں سے نہ ممکن کو ممکن بنادیتی ہے اور اس سے بھی زیادہ تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ پنجاب پولیس جیسی کرپشن کسی دوسری فورس میں نہیں ہے حالانکہ یہ شرح بانسبت پولیس دوسرے اداروں میں زیادہ ہے لیکن پنجاب پولیس صرف اپنے رویوں کی وجہ سے بہت بدنام ہوچکی ہے پنجاب پولیس کو کرپٹ کہنے والے افراد کی شرح اس لئے بھی زیادہ ہے کہ دو سائل کسی معاملے میں پولیس کے پاس جاتے ان میں سے ایک کو انصاف ملتا ہے اور دوسرا خودبخود پولیس کے خلاف اپنی سوچ کو منفی بنالیتا ہے چاہے وہ خود غلط بھی ہو میں نے اپنے صحافتی کیرئیر کا زیادہ عرصہ کرائم سے متعلقہ خبروں میں گزارا مجھے یاد پڑتا ہے کہ پولیس فورس میں بہت اچھے کپتان بھی آئے اور کئی تو ایسے بھی آئے جنہوں نے محکمہ کا فنڈ بھی پنجاب حکومت کے حوالے کیا موجودہ حالات میں محکمہ پولیس میں میرٹ کی دھجیاں بکھیری جاچکی ہیں پولیس آرڈر 2002ء کے برعکس آئی جی پنجاب ، اسلام آباد،آزادکشمیر اور گلگت بلتستان گریڈ کم اور جونیئر ہونے کے باوجود تگڑی سفارشوں سے آئی جیز تعینات ہیں جبکہ سینئر اور گریڈ زیادہ ہونے کے باوجوددستیاب متعدد پولیس افسران کو نظر انداز کردیا گیا ہے جس فورس میں ہائی لیول پر تقرری کا معیار سفارش ہو اور سینئر و تجربہ کار افسران کی موجودگی میں جونئیرز کو ان پر باس لگا دیا جائے تو وہاں احساس کمتری اور بغاوت کا رجحان کتنی شدت سے بڑھ رہا ہوگا اور اسی وجہ سے کئی سینئر افسران نے جونیئر کے ماتحت کام کرنے سے انکار کردیا اور رخصت پر چلے گئے بڑے لیول پر یہ معیار ہے تو چھوٹے لیول پر کس طرح پیٹی بھائیوں کو روندا جاتا ہوگا چھوٹی سی مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں بہاولپور کی تحصیل حاصل پور میں تقریبا 2 سال سے ڈی ایس پی جمشید اختر تعینات ہیں انکی جگہ نئے پروموٹ ڈی ایس پی رائو سلیم کو ڈی ایس پی حاصل پور لگایاگیا لیکن وہی ڈی ایس پی جو 24 گھنٹے انصاف اور میرٹ کی بات کرتا ہے اس نے انصاف اور میرٹ کا ایسا قتل کیا یا کروایا کہ ایک ہی سفارش پر ایک گھنٹے کے اندر ایڈیشنل آئی جی کو انکا ٹرانسفر واپس حاصل پور کرنا پڑا اس سے زیادہ اور کیا انصاف کا قتل ہو سکتا ہے ؟

تقریبا دوماہ قبل ڈی پی او فیصل کامران بہاولپور میں تعینات ہوئے ہیں میں نے اتنا محنتی اور ایکٹیو ڈی پی او شاید کہیں دیکھا ہو یہ اہل بہاولپور کی خوش قسمتی ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ حسب روائیت مخصوص ٹولہ ڈی پی او کے اردگرد غلط بریف کرنے میں لگارہتا ہے جسکا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عوام متنفر ہونا شروع ہو جاتے ہیں بات اتنی سادہ سی ہے کہ سنو سب کی اور کرو وہ جو قانون کے مطابق اور مفادعامہ کے لئے ہو ۔ ایک اور واقعہ آپ سے شیئر کرتا ہوں کیونکہ پولیس کے رویے سے ہر دوسرا بندہ تنگ دکھائی دیتا ہے اور ہمارے ہاں قانون کی مثال مکھڑی کے جالے جیسی ہے جسمیں سے جتنا بڑا جانور گزرے گا وہ اتنی جلدی جالا پھاڑ کر نکل جائے گا گذشتہ ہفتے بہاولپور ضلع کے تھانہ سٹی حاصل پور میں پولیس کو ناکوں چنے چبوانے والے موٹر سائیکل چور عوام نے خود پکڑ کر پولیس کے حوالے کردئیے عید سر پر تھی پولیس کے تو وارے نیارے ہو گئے موٹر سائیکل چوروں کا تعلق لڈن سے تھا اسی رات پتہ چلا سٹی پولیس نے قانون کو ہاتھ میں لیکر دوسرے ضلع کی حدود میں آمد روانگی اور چادر چاردیواری کا تقدس دیکھے بغیر درجنوں افراد کو گرفتار کرلیا صبح اٹھتے ہی لڈن سے متعدد صحافیوں اور لکھاریوں کے فون سننے کو ملے کہ سٹی پولیس نے درجن سے زائد بے گناہ افراد پکڑ لئے ہیں میں نے مکمل تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ عوام کی مدد سے پولیس نے چور پہلے پکڑ لئے تھے اب انکے رشتے دار بھائی اور دوستوں کو پکڑا ہے

یہ بھی پڑھیں : عید قربان،جعفرآباد میں کسان سراپا احتجاج

ایس ایچ او سٹی بلال قریشی سے بات کی تو موصوف نے بتایا صاحب بہادر ڈی ایس پی جمشید اختر ( انصاف اور میرٹ پسند آفیسر کہلوانے والے) کا حکم ہے کہ جو بندہ بی کیٹگری میں ہیں یعنی بے قصور ہیں ان سب سے ایک ایک موٹر سائیکل کی ریکوری تقریبا 20 سے 30 ہزار روپے لیکر چھوڑدیں حالانکہ ان افراد کا کوئی قصور نہیں تھا ان بے قصور افراد میں سے ایک نان والا بھی تھا جسکے پاوں میں غالبا 20 روپے کی جوتی ہو گی جو دوران ریڈ پولیس کے ہتھے آگیا تھا سب سے پہلے تو اسکا موبائل چھو منتر کیا گیا پھر اس کو ایک موٹر سائیکل کے پیسے بطور ریکوری دینے کا کہا گیا تو میں نے ایس ایچ او کو کہا غریب آدمی ہے اسکے پاوں میں جوتی دیکھ کر تصور کریں کہ یہ آپ کو ایک موٹر سائیکل کے پیسے ریکوری کی مد میں دے سکتا ہے ایس ایچ او بلال قریشی نے کہا کہ ڈی ایس پی کا حکم ہے تمام بے قصور افراد سے کم از کم ایک موٹر سائیکل کے پیسے لیکر چھوڑدیا جائے اور تمام جائزو ناجائز موٹر سائیکلز کی لائن بنائی جائے جس پر ڈی پی او صاحب پریس کانفرنس کریں گے میں نے غریب نواز کے لئے ایک موٹر سائیکل کی حامی بھر کر اسکو چھڑوایا تاکہ غریب کی عید باہر ہو اب تک اسکا موبائل اور موٹر سائیکل واپس نہیں دیا گیا اب میں ایس ایچ او صاحب کا قرض دار ہوں دیکھتے ہیں اب کب ایس ایچ او صاحب بے گناہ افراد کو چھوڑنے کے لئے مجھ سے ریکوری کی مد میں پیسوں کے لئے فون کرتے ہیں پھر حسب روایت تھانہ سٹی پولیس نے متعدد افراد کو 10 سے 20 ہزار روپے ریکوری کی مد میں پیسے لیکر چھوڑا اور انکے موبائل تک واپس نہیں دئیے یہ سب آن دی ریکارڈ ہے اور تمام افراد کے نام معہ ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں کیونکہ تھانے میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور تحقیقات کروائی جاسکتی ہیں ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن بے گناہ افراد سے یہ رویہ اپنایا گیا کیا اب وہ پوری زندگی پولیس کو اچھا سمجھیں گے یا اپنے بچوں کو بھی پولیس کے رویے کے متعلق آگاہ کریں گے ؟ محکمہ پولیس کا ہر جمشید اختر ہر دوسرے آفیسر کے حق اور میرٹ کا قتل کررہا ہے ۔ ڈی ایس پی جمشید اختر کے متعلق مجھے یاد پڑتا ہے ایک سال قبل اے ایس آئی کی پروموشن تقریب کے بعد میٹنگ میں ترقی پانے والے افسران کو رشوت کے گُر بتاتے ہوئے یہ کہتے رہے کہ میں تو نہیں لیتا اگر آپ لوگ محنت کرو تو سب حاضر ہوجائے گا

میرا ڈی پی او بہاولپور فیصل کامران سے سوال ہے کہ فیصل کامران صاحب آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آپ کی تعیناتی کے بعد بہاولپور پولیس نے رشوت لینی بند کردی ہے؟ بالکل بھی نہیں بہاولپور سٹی ، صدر ، یزمان ، احمد پور ، خیرپور اور حاصل پور کے سرکل میں بغیر پیسوں کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ پہلے پیسے کم لیتے تھے اب آپ کا نام لیکر کہا جاتا ہے ( صاحب بہت سخت ہیں اجازت نہیں ملی ایف آئی آر کی اور سختی بہت ہے یا وہ کسی بھی وقت آسکتے ہیں ) اور پیسے زیادہ بٹورے جاتے ہیں یہ حقیقت ہے سیکیورٹی ایجنسیز بالخصوص آئی ایس آئی کو چاہئیے کہ وہ بہاولپور پولیس میں ایک ہی جگہ اور ایک ہی دفتر میں کئی سالوں سے تعینات افسران کی لسٹ بنا کر وزیر اعظم عمران خان ، وزیر اعلی عثمان بزدار کو بھیجیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ پنجاب پولیس میں چھوٹے لیول پر بھی کتنے تگڑے پولیس افسران تعینات ہیں جنکو تبدیل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ نامکمن بھی ہے آخری چند الفاظ پولیس افسران بالخصوص ڈی پی او بہاولپور فیصل کامران کے گوش گزار کرناچاہتا ہوں کہ آپ کے علم میں ہوگا گذشتہ روز تھانہ سمہ سٹہ کی حدود میں چند بااثر افراد نے خانقاہ شریف بازار میں اسلحہ سے لیس ہوکر مقامی صحافی عدنان افضل کو پسٹل کے بٹ مارے اور اس پر تشدد کے علاوہ بھرے بازار میں اسلحہ دکھاتے ہوئے فرار ہوگئے وجہ عناد صرف یہی تھی کہ صحافی عدنان افضل نے ایس ایچ او سمہ سٹہ کو ان ملزمان کے کالے کرتوتوں اور منشیات فروشی کے متعلق ثبوت دئیے تھے

ملزمان اتنے بااثر تھے کہ انہیں ایس ایچ او کو دی گئی انفارمیشن بھی مل گئی اور وہ صحافی کی دوکان پر باہر سے اشتہاری منگواکر جاپہنچے 72 گھنٹے گزر چکے ہیں لیکن سمہ سٹہ پولیس نے ابھی تک وقوعہ کا مقدمہ ہی درج نہیں کیا کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اب تک وقوعہ کی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ کیوں نہیں درج کی جا سکی؟ صرف اس لئے درج نہیں ہو سکی کہ ایس ایچ او افسران کو غلط گائیڈ کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے انتہائی ادب کے ساتھ کہوں گا کہ جب آپ عوام کو انکی دہلیز پر انصاف نہیں پہنچا سکتے تو یہ کھلی کچہریاں لگانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ کیا آپ توقع رکھتے ہیں ایک پولیس معاون صحافی دوبارہ پولیس کے رویے سے کبھی مطمئن ہوگا؟ کبھی بھی نہیں مجھے تو سوچ کر بھی ڈر لگتا ہے بہاولپور پولیس کے رویے سے نالاں کسی عدنان کی آہ اللہ کی بارگاہ میں سنی جاسکتی ہے بلاشبہ وہ بہتر انصاف کرنے والا ہے 

یہ بھی پڑھیں: اوکاڑہ یونیورسٹی کو ماحولیاتی اعتبار سے پائیدار اور محفوظ کیمپس بنانے کےلیے پرعزم ہیں

بہاولپور پولیس کا رویہ،تحریر یوسف تھہیم


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent