Ticker

6/recent/ticker-posts

آئی ایم ایف ، حکومت اور ڈوبتی معشیت

The IMF, the government and the sinking economy

کالم نگار، سید ساجد علی شاہ 
26 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے تین سال پورے ہونے پر کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ایک پروقار تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کی تین سالہ کارکردگی پیش کرتے ہوئے حسب معمول کچھ"سہنری لواب" دیکھائے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں اعدا و شمار کے دلائل کے ساتھ ملکی معشیت کی نہایت شاندار تصویر تو پیش کر دی مگر انہوں نے مہنگائی اور بےروزگاری کے اعداد و شمار پیش کرنا مناسب نہیں سمجھا جو آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور ان کے سبب عام آدمی اور سفید پوش طبقے کی کمر ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور انفرادی معشیت تباہی سے دوچار ہوچکی ہے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکی معیشتوں اور انکی باہمی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ اور بیرونی قرضہ جات پر نظررکھتا ہے جبکہ انکی معاشی فلاح اور مالی خسارے پر قابو پانے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے سونے کی زبردست قلت کی بنا پر دوران جنگ دنیا کے بیشتر ممالک کو 1880ء سے جاری باہمی کرنسیوں کے تبادلے کی شرح کو متعین کرنے والے گولڈ اسٹینڈرڈ کے نظام کو خیرباد کہنا پڑا 1930ء کے معاشی مسائل اور اس کے بعد دوسری جنگ عظیم نے یورپی ممالک کی معیشت کو سخت نقصان پہنچایا خصوصاً جنگ کے اخراجات کی وجہ سے ان کا ادائیگیوں کا توازن بہت بگڑ گیا دنیا کے 29 ممالک کے نمائندوں کی منظوری سے آئی ایم ایف کا ادارہ قائم کیا گیا اس کا قیام ایک خود مختار ادارے کے طور پر عمل میں لایا گیا جس کا الحاق اقوام متحدہ سے ہے وہ تمام ممالک جو آرٹیکل آف ایگریمنٹ کے تحت اس کیلئے رقم فراہم کرتے ہیں انہیں اسکی ممبر شپ آفر کی جاتی ہے آج اس کے ممبر ممالک کی تعداد تقریبا 200 سے زائد ہو چکی ہے
آئی ایم ایف میں ہر ممبر ملک کو اسکی قومی آمدنی اور بین الاقوامی تجارت میں شرح تناسب کی بنیاد پر ایک کوٹہ الاٹ کیا جاتا ہے اور ہر ممبر ملک اس کوٹے کا 75 فیصد اپنی کرنسی میں ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے اور 25 فیصد گولڈ کی صورت میں جمع کروایا جاتا ہے پاکستان کی معیشت کو مزید تباہ و برباد کرنے میں موجودہ حکومت کے نااہل وزراء اور کرپٹ افراد کا بہت اہم کردار  ہے جنہوں نے ناکام پالیسیاں بنا کر پاکستانی معشیت کو بیچ سمندر بھنور میں لاکھڑا کر دیا ہے اس دور میں معیشت کا بہت برا حال ہے بھارت نے پرویز مشرف کی حماقت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کشمیر اور کارگل کے مقام پر بڑے چھوٹے 35 ڈیمز بنا کر پاکستان کا سارا پانی دہلی اور راجھستان لے گیا ہے بھارتی آبی جارحیت کو نہ روکنے کی وجہ سے آج پاکستان کی زراعت مکمل طور پر ڈوبی ہوئی ہے پانی کی کمی کی وجہ سے بجلی کا سنگین بحران ہے پاکستان کی ڈوبتی ہوئی معیشت بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ مافیا کی وجہ سے 52 ہزار سے زیادہ  کارخانہ دار سخت پریشان ہیں اور ڈالر کی
اونچی اُڑان سے سرمایہ کاروں کے ایک کھرب 78 ارب روپے ڈوب گئے ہیں

یہ بھی پڑھیں : خواب میں بچے کو دیکھنے کی تعبیر

پاکستان پر دہشت گردی کا سنگین الزام لگا کر اس کی ایکسپورٹ میں مسلسل خسارہ اور بحران پیدا کر دیا گیا ہے زراعت مکمل طور پر فلاپ ہوچکی ہے بجلی کی مسلسل لوڈ شیڈنگ اور صنعتوں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کافی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے جبکہ موجودہ حکومت نے نت نئے ٹیکسیز اور آئی ایم ایف کی ہدایات پر بجلی، پیٹرول اور سوئی گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کرکے ملک کے پیدا ہونے والے معصوم بچے کو پانچ لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض کر دیا ہے پاکستان کو اللہ تعالی نے معدنیات کی دولت سے بھرپور نوازا ہوا ہے پاکستان کے صوبہ سندھ، بلوچستان، پختونخوا اور شمالی وزیرستان میں نہ صرف پیٹرول کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں بلکہ سوئی گیس، سونا، چاندی، جپسم، کوئلہ، ہیرے جواہرات، ریکوڈک پروجیکٹ اور سیندک کاپر پروجیکٹ بھی دریافت ہوئے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی کرپٹ سول بیوروکریسی جو کہ پاکستان کی اقتصادی ترقی میں سخت ترین رکاوٹ بنی ہوئی ہے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک، ایشیائی بینک کے قرضوں سمیت اسٹیٹ بینک کے قرضوں سے ملک کی ڈوبتی ہوئی معیشت اور ڈوبتی چلی جائے گی اور رہی سہی کسر بھارت کی آبی جارحیت نے پوری کر دی ہے ترقی پذیر ممالک کی طرح ملکی معیشت کی بہتری کیلئے ماضی اور حال میں بھی پاکستانی حکومت اور عوام کو آئی ایم ایف کی زہریلی گولیاں کھانا پڑ ری ہیں آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کے لئے ہر حکومت کو باقاعدہ درخواست دینی پڑتی ہے وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے اقدام کی منظوری دی جاتی ہے

یہ بھی پڑھیں : قافلہ حریت کے پاسبان


خیال رہے کہ نئے منصوبے کے مطابق مائیکرو اکنامکس پالیسیوں کا اچھی طرح نفاذ کرنے والے ملک، جن کی معیشت اب عالمی بحران کا شکار ہے وہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے اہل تسلیم کئے جاتے ہیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ قرض کی ادائیگی کا ٹائم فریم بھی آئی ایم ایف ہی طے کرتی ہے قرض لینے والے ہر ملک کو آئی ایم ایف کی تمام شرائط تسلیم کرنا پڑتی ہیں ان شرائط میں سود کی شرح میں اضافہ، قومی اداروں کی نجکاری، بین الاقوامی اور کثیر القومی کارپوریشنوں کے لیے زیادہ سے زیادہ آزادی ،سبسڈی کا خاتمہ، ٹیکس نیٹ میں وسعت ، زرعی ٹیکس کے نفاذ اور حکومتی اخراجات میں کمی کے مطالبات نمایاں ہوتے ہیں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آئی ایم ایف مقروض ممالک پر جو شرائط عائد کرتا ہے وہ معاشی حالات کوسدھارنے کے بجائے بگاڑ پیدا کرتے ہیں اس بگاڑ سے مقروض ممالک میں گمبھیر مسائل پیدا ہوجاتے ہیں کڑوا سچ تو یہ ہے کہ اکثر مالیاتی پالیسیاں آئی ایم ایف کے ایجنڈے کا حصہ ہوتی ہیں 
اس کے باوجود ملک کی معیشت اکثر و بیشتر دگرگوں رہتی ہے اور حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی تگ ودو میں مزید مسائل میں گھرتے چلے جاتے ہیں 1980ء میں افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد اور طویل جنگ کے نتیجے میں روسی فوجوں کو نہ صرف شکست ہوئی بلکہ سنگین معاشی بحران کی وجہ سے روس جو کہ دنیا کی دوسری ایٹمی طاقت تھا ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا اور روس میں سخت اقتصادی بحران کی وجہ سے فوجیوں کو تنخواہ تک ادا کرنا مشکل ہوگیا تھا اور 6 ماہ کی تنخواہ کی بجائے فوجیوں کو تربوز پکڑائے گئے تھے جس کی تصاویر پوری دنیا میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جاری کی گئیں تھیں ملکی معیشت بالکل ڈوب چکی ہے گورنر اسٹیٹ بینک نے جان بوجھ کر روپیہ کی قیمت گرائی ہے ڈالر کی اونچی اُڑان سے سرمایہ داروں کے کھربوں روپے ڈوب چکے ہیں موجودہ حکومت نے تین سال میں وزہراعظم عمران خان نے یہ تو بتایا کہ کرنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر سے کم ہو کر 1.8 ارب ڈالر رہے گیا ہے مگر یہ بتاتے کہ ملکی معشیت کا حجم 314 ارب ڈالر سکڑ کر 297 ارب ڈالر رہ گیا ہے بے روزگاری میں اضافہ اور معاشی نمو کی رفتار میں کمی واقع ہوئی ہے تین سالوں میں ملکی قرضوں میں 13 ہزار ارب روپے کا اضافہ جب کہ سرکاری اداروں کا خسارہ 14سو ارب روپے سے بڑھ کر 2400 روپے ارب ہو چکا ہے گردشی قرضہ 1150 ارب روپے سے تجاویز کر کے لگ بھگ 2400 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے
بجلی، گیس، آٹا، چینی، ڈالر، پیٹرول اور دوایئں سمیت سب چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں۔ بے روزگاری اور مہنگائی میں 9.5 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جبکہ اقتصادی اور معاشی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں وفاقی وزراء، مشیروں اور معاونین خصوصی کی فوج ظفر موج قومی خزانے پر بوجھ ثابت ہو رہے ہیں حکومت کو چاہیے کہ معیشت کے استحکام کے لئے ازسرنو پالیسیاں ترتیب دی جائیں ورنہ پاکستان کی ڈوبتی معیشت کی کشتی کو بھنور سے نکالنا بہت مشکل ہو جائے گا


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent