Ticker

6/recent/ticker-posts

سرائیکی صوبہ کروڑوں لوگوں کا خواب

Seraiki Province is the dream of millions of people

کالم نگار، ڈاکٹر نذیر احمد صدیقی
آج کے پاکستان میں جب سبھی قو میتیں اپنی اپنی صوبائی شناخت حاصل کر چکی ہیں تو پھرکروڑوں کی تعداد میں پنجاب میں بسنے والے سرائیکیوں کو اس حق سے پچھلی کئی دہائیوں سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ یقینا اس سازش میں جہاں پاکستان کی فیصلہ ساز قوتوں اورپنجاب کی بیوروکریسی اور اشرافیہ کا کلیدی کردار ہے وہیں پر خود سرائیکی لیڈر شپ اور وڈیروں کا حصہ بھی کسی سے کم نہیں ہے بیس بائیس کروڑ آبادی کا حامل پاکستان ایک بہت بڑا اور اہم ترین ملک ہے جس کے چار صوبے ہیں جبکہ حال ہی میں گلگت بلتستان کو بھی انتظامی صوبہ قرار دیا گیا ہے پنجاب،سندھ اور بلوچستان صوبوں کے نام آبادی کی لسانی اکثریت کی ترجمانی کرتے ہیں جبکہ سابقہ صوبہ سرحد کو بھی اب وہاں کی آبادی کی لسانی شناخت اور خواہش کے مطابق خیبر پختونخواہ بنا دیا گیا ہے جو یقینا ایک اچھا قدم ہے کیونکہ کوئی بھی ملک صرف اسی وقت خوشحال اور ترقی کر سکتا ہے جب اس کی اکائیاں یا صوبے ہر لحاظ سے مطمئن اور آسودہ ہوں اگر آپ اٹھارویں ترمیم کا بغور مطالعہ کریں تو اس ترمیم کا بنیادی فلسفہ بھی یہی تھا کہ فیصلہ سازی اور وسائل استعمال کرنے کے زیادہ سے زیادہ اختیارات وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے جائیں اور صوبے یہ اختیارات اپنے اپنے اضلاع اور تحصیلوں کو تفویض کر دیں تاکہ گراس روٹ لیول تک لوگوں کو اپنے فیصلے کرنے کا حق دیا جاسکے ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ وفاق نے تو صوبوں کو وسائل اور اختیارات سونپ دیے ہیں لیکن صوبے لوکل گورنمنٹ کے ادارے قائم کرنے میں ابھی تک ناکامی سے دوچار چلے آرہے ہیں جس سے لوگوں کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں :  ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں نوکریاں

اگر دیکھا جائے تو پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی لگ بھگ 11سے 12کروڑ ہے یہی وجہ ہے پنجاب جس پارٹی کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے وہ پارٹی آسانی کے ساتھ وفاق میں اپنی حکومت بنا لیتی ہے جس کے باعث بعض اوقات چھوٹے صوبوں اور باقی صوبوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو پنجاب سے جائز شکایات بھی پیدا ہو جاتی ہیں پنجاب کے اندر سرائیکی بولنے والے پاکستانی کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں جو زیادہ تر بہاولپور،ملتان اور ڈی جی خان تینوں ڈویژن میں رہتے ہیں اگرچہ پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی کافی تعداد میں ان کی آبادی ہے سرائیکی زبان اور کلچر تاریخی اہمیت کی حامل ہے ماضی میں وسائل سے مالا مال بہاولپور ریاست ایک ایسی ریاست رہی ہے جہاں آبادی کی غالب اکثریت کے علاوہ وہاں کے فرما روا بھی سرائیکی نواب تھے جسے ون یونٹ کے وقت مغربی پاکستان میں ضم کر دیا گیا تھا۔
گزشتہ کئی عشروں سے پاکستان میں سرائیکی قوم اپنی شناخت اور اپنے علیحدہ صوبے کے لیے ہر فورم اور محاذ پر آواز اٹھا رہی ہے لیکن بدقسمتی سے وسیب واسیوں کے اس قانونی اور اخلاقی مطالبے کو ماننے کی بجائے پاکستان کی فیصلہ ساز قوتیں،بیوروکریسی اور ہماری اشرافیہ پنجاب کے توڑنے کا نام دیکر خاموشی اختیار کر لیتی ہے حالانکہ منصفانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ پنجاب کو توڑنے یا تقسیم کرنے کا مطالبہ ہرگز نہیں ہے بلکہ کروڑوں لوگوں پر مشتمل ایک قومیت کا جائز مطالبہ اور اس کی شناخت کا سوال ہے اور پھر 11 سے 12 کروڑ آبادی کے پنجاب کو انتظامی طور پر چلانا بھی کافی مشکل ثابت ہو رہا ہے جبکہ وفاق پاکستان کے دیگر صوبوں کو بھی ایک بہت بڑی آبادی والے پنجاب سے متعدد شکایات رہتی ہیں۔
سرائیکی بولنے والے علاقوں پر محیط سرائیکی صوبے کے قیام کا جب ہم مطالبہ کرتے ہیں تو اس میں آباد وہ تمام لوگ شامل ہوتے ہیں جو کئی عشروں سے وسیب میں آباد ہیں اور یہاں کی کلچر اور ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں ان میں بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے لاکھوں مہاجرین اور اپر پنجاب سے ریاست بہاولپور میں آباد ہونے والے پنجابی بولنے والے ہمارے پاکستانی بھائی بھی شامل ہیں کیونکہ پاکستان پر سب پاکستانیوں کا مساویانہ طور پر حق ہے سرائیکی قوم کو الجھانے کے لیے کبھی جنوبی پنجاب کا لولی پاپ دیا جاتا ہے تو کبھی بہاولپور کو انتظامی یونٹ بنانے کے نوید سنائی جاتی ہے آج دنیا بدل رہی ہے میڈیا نے پوری دنیا کو ایک ویلج بنا دیا ہے اس لیے آج گھر گھر میں شعور پیدا ہو چکا ہے اس لیے سرائیکی قوم کو زیادہ دیر تک غلام بنا کر رکھنا ممکن نہیں ہوگا

یہ بھی پڑھیں : آئی ایم ایف ، حکومت اور ڈوبتی معشیت

یہ بھی ایک بڑی بد قسمتی ہے کہ وسیب کے ساتھ نا انصافی کی اس درد ناک کہانی لکھنے میں ہماری فیصلہ ساز قوتوں اور اشرافیہ کے علاوہ خود سرائیکی وڈیروں،تمنداروں اور منتخب نمائندوں کا سب سے زیادہ کردار ہے کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اگر سرائیکی صوبہ بن جاتا ہے تو پھر بہت سارے نئے اضلاع اور تحصیلیں معرض وجود میں آجائیں گی اس طرح ان کے خاندانوں کے علاوہ بھی غریب اور متوسط سرائیکی گھرانوں سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ سیاست کے میدان میں آجائیں گے اور ایک نہ ایک دن یہ نوجوان ان وڈیروں کی اولادوں کے مدمقابل ناصرف الیکشن لڑیں گے بلکہ اپنی قابلیت، صلاحیت اور سیاسی خدمات کے باعث وزیر اور مشیر بھی بن سکیں گے اور بہت ممکن ہے کہ کسی نہ کسی دن صوبے کی قیادت پر بھی متوسط کلاس فائز ہوجائے یہی وہ ڈر ہے جو سرائیکی قیادت کے دل و دماغ میں بیٹھ گیا ہے اسی لیے وہ ہر الیکشن کے موقع پر سرائیکی قومیت کا نعرہ ضرور لگاتے ہیں لیکن دل سے سرائیکی صوبے کے قیام کے مخالف ہیں ورنہ پچھلے کئی سالوں کے دوران سرائیکی بولنے والے بہت سارے سیاستدان پاکستان کے سب سے بڑے بڑے عہدوں پر پہلے بھی فائز رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جو بدقسمتی سے وسیب واسیوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے تو استعمال کرتے ہیں لیکن کبھی ان کو آگے آنے کا موقع نہیں دیناچاہتے لیکن ایسی سرائیکی دشمن قوتیں یاد رکھیں کہ وسیب واسی اب بیداری کی کروٹ لے چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب وہ اپنا سرائیکی صوبہ حاصل کر سکیں گے یقینا آنے والے الیکشن سرائیکی پاکستانیوں کو یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ وہ صرف اس پارٹی کو سپورٹ کریں جو انہیں سرائیکی صوبے کی شکل میں ایک قومی شناخت دے سکے۔
سرائیکی صوبہ کروڑوں لوگوں کا خواب


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent