Ticker

6/recent/ticker-posts

با حجاب شیرنی مسکان خان کا نعرہ تکبیر

The slogan of the Muskan Khan lion with hijab is Takbir 

کالم نگار ڈاکٹر محمد ممتاز مونس

یوں تو بھارت کے بھیانک اور مکروہ چہرے کے کئی روپ ہیں لیکن اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر مظالم نے اس کا چہرہ پوری دنیا کے سامنے کالا کر دیا ہے۔ آئے روز مسلمانوں کا قتل عام‘ تشدد اور ان کی مساجد تک کو شہید کرنا معمول ہے۔ آر ایس ایس نے بڑی تعداد میں ہندوؤں سے اس بات کا بھی حلف لے لیا ہے کہ وہ مسلمانوں سے کوئی لین دین نہیں کریں گے انہیں کسی بھی صورت میں کوئی فائدہ پہنچانے کی بجائے جہاں موقع ملے نقصان پہنچائیں گے یہاں تک کہ مسلمان تاجر کی دکان سے خریداری تک نہیں کریں گے۔ کبھی گائے کی قربانی کرنے پر مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اور کبھی بابری مسجد جیسی عظیم اور تاریخی مسجد کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے باسیوں پر ظلم و بربریت‘ دہشت گردی اور گمنام قبرستانوں کے قبرستان صرف اس لیے ہیں کہ وہ بیچارے مسلمان ہیں اور ”ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے“ ان کا نعرہ ہے۔ بھارت کی ریاست کرناٹک کے ضلع اڈوپی کے علاقے شیوا موگا‘ہر یہار اور دوسرے علاقوں میں بیچارے نہتے مسلمانوں پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب مسلمان منڈیا کے مہاتما گاندھی کالج میں مسلمان بچیوں کو حجاب پہننے سے روک دیا گیا معاملہ ہائی کورٹ میں گیا لیکن وہاں پر انتہا پسند ہندو تنظیم آر ایس ایس کے غنڈوں نے اپنی عدالت لگا لی اور با حجاب مسلمان بچیوں کو کالج میں داخلے سے بزور بازو روکنا شروع کر دیا۔ باقاعدہ  زعفرانی کلر کی پگڑیاں اور پٹکے تقسیم کر کے ایک منظم سازش کے تحت میدان لگا لیا گیا اور جتھوں کی شکل میں جے شری رام کے نعرے لگانے شروع کر دئیے‘ اسی اثناء میں مسلمان بچیوں کے لیے جرات‘ ہمت اور بہادری کی علامت شیرنی مسکان خان اپنی سکوٹی پر سوار ہو کر کالج میں اپنی اسائنمنٹ جمع کرانے آئی تو آر ایس ایس کے غنڈوں نے جے شری رام کا نعرہ لگا کر اسے باقاعدہ للکار کر روکا لیکن اس باحجاب شیرنی نے جرات ایمانی کا کمال مظاہرہ کرتے ہوئے ڈرنے یا جھجھکنے کی بجائے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی بیٹی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پورے جتھے کو نعرہ تکبیر سے باقاعدہ ہاتھ بلند کر کے للکارا اور پوری امت مسلمہ کی غیرت کو کمسن شیرنی نے جھنجھوڑتے ہوئے بتایا کہ تم سو رہے ہو اور بھارت میں ایک نہتی معصوم شیرنی انڈین انتہا پسند غنڈوں کے جتھوں کا مقابلہ کر رہی ہے۔ دنیا کے نقشے پر موجود اسلامی ممالک ایک لمبی لسٹ موجود ہے اور نعرہ تکبیر جیسا مقدس اور متبرک نعرہ لگانے والوں کی تعداد لاکھوں اور کروڑوں میں نہیں بلکہ اربوں میں ہے‘ مسلمان ممالک کے سربراہان اس المناک واقعہ پر صرف اور صرف مذمت تک ہی محدود ہیں بلکہ چند ایک مذمت تک ہیں اور باقی مسلمان سربراہان مملکت نے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ قرارداد مذمت سے نہیں بلکہ ہندو بنیئے کی مرمت سے حل ہو گا اسی طرح صرف اور صرف سوشل میڈیا پر مذمت کرنا کافی نہیں پوری اُمت مسلمہ بالعموم اور تمام مسلم ممالک کے سربراہان کو عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ آج پھر اُمت مسلمہ کو ٹیپو سلطان‘  صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم کی ضرورت ہے۔

یوں شیرنی مسکان خان کے نام سے پوری دنیا کے سوشل میڈیا میں ٹاپ ٹرینڈ بن گیا اور ہندو اور مسلم طالب علموں کے درمیان ہونے والی باقاعدہ جنگ کو روکنے کے لیے تین دن کے لیے دفعہ 144 لگا کر کرناٹک کے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے پڑے مہاتما گاندھی کالج انتظامیہ کا کہنا ہے کہ حجاب یونیفارم کا حصہ نہیں طالبات صرف یونیفارم پہن سکتی ہیں جبکہ مسلمانوں کا موقف ہے کہ حجاب ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور شرم و حیا ہمارے ایمان کا حصہ‘ حجاب پہننا کسی صورت ترک نہیں کریں گے۔ دوسری طرف آر ایس ایس کے غنڈے جتھوں کی صورت میں دہشت گردی کی علامت بن کر پوری دنیا کو بھارت کا سیاہ ترین چہرہ دکھا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ محمد بن قاسم ہندوستان کی ایک بچی کے خط پر آ سکتا ہے تو آج کے اس سوشل میڈیا کے دور میں ہم اپنی اس شیرنی بیٹی کی آواز کہاں تک بلند کر سکتے ہیں۔ شیرنی  مسکان خان نے تو پوری اُمت مسلمہ کے ضمیر کو ناصرف جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ پوری دنیا کو یہ بتا دیا ہے کہ بھارت ایک ہندو انتہا پسند ریاست ہے جو صرف ہندوؤں کے لیے محفوظ ہے وہاں کسی اور مذہب کے ماننے والے کو رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

یہ بھی پڑھیں : خواب میں بھینسا دیکھنے کی تعبیر

کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ عورت کا زیب تن کیا ہوا لباس اس کے باپ‘ بھائی اور خاوند کی غیرت کا پتہ دیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی ایک باحجاب شیرنی اور ہمارے لیے ایک جرات‘ ہمت اور حوصلے کی علامت مسکان خان حجاب کے لیے آر ایس ایس کے مسلح غنڈہ جتھے سے مقابلہ کر سکتی ہے ان کے جے شری رام کے نعروں‘ حملے اور غنڈہ گردی کا مقابلہ نعرہ تکبیر اللہ اکبر لگا کر کر سکتی ہے  تو ہمارے اپنے معاشرے میں حجاب کے ساتھ ہماری ہی مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں کیا سلوک کر رہی ہیں۔ ضلع اڈوپی کے علاقے منڈیا کے مہاتما گاندھی کالج کی ایک معصوم طالبہ حجاب کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آر ایس ایس کے جتھے کا مقابلہ کر سکتی ہے تو قائداعظم یونیورسٹی‘ اسلامیہ یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کی بچیاں حجاب کے لیے اپنی ”نام نہاد روشن خیالی“ کا مقابلہ کیوں نہیں کر سکتیں۔ آج اُمت مسلمہ خصوصاً بالخصوص پاکستان کے ہر باپ‘ بھائی اور خاوند کو اپنے گھر کی خواتین کے حجاب پر بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ یہ چار دن کی دنیا فانی ہے سب کچھ یہیں رہ جانا ہے ساتھ ہمارے صرف ہمارا ایمان اور اعمال جانا ہے ہمیں اُس ابدی زندگی کے لیے اس عارضی زندگی کی ”روشن خیالی“ پر بھی سوچنا ہو گا اس سے پہلے کہ ہماری زندگی کی شام ہو جائے۔

یہ بھی پڑھیں : محسن راجن پور غازی امان اللہ

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent