Ticker

6/recent/ticker-posts

ہندو برادری کے وسیب زاد موہن بھگت کا شکوہ اور زمینی حقائق

Mohan Bhagat's complaint and ground realities of the Hindu community

محترم قارئین کرام، زمینی حقائق کے برعکس یکطرفہ بات کوئی بھی گروہ یا شخص کرے نہ صرف یہ کہ وہ اپیل نہیں کرتی دل کو نہیں لگتی بلکہ کئی نئے سوالات کو جنم دیتی ہے اور وہ سوالات معاشرے کے تمام طبقات کے لیے ہوتے ہیں اُن کی اثر پذیری بھی تقریبا سبھی پر یکساں ہوتی ہے اس اہم معاشرتی و سماجی مسئلے پر مزید بات کرنے سے قبل میں چاہتا ہوں کہ اپنے وسیب زاد جناب مومن بھگت اور دیگر صاحبان کا شکوہ آپ سب کے ساتھ شیئر کروں تاکہ مسئلے اور بات کو سمجھنے میں مدد مل سکے

 ُ ُ سرائیکی ہندو برادری کے خلاف مظالم پر خاموشی کیوں..؟ سرائیکی وسیب کی پہچان عالمی شہرت یافتہ لوک فنکار سئیں فقیرا بھگت کے جانشین دھرتی زاد موہن بھگت اور دیگر سرائیکی ہندو کمیونٹی کے سرکردہ حضرات کی جانب سے صادق آباد کی تین لاپتہ بچیوں کی بازیابی اورہندو بچیوں کے لاپتہ ہونے کے بڑھتے واقعات کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے بار بار کی جانے والی پرشکوہ اپیلوں کے باوجود وفاقی وپنجاب حکومت، متعلقہ حکام خصوصاً سابق گورنر پنجاب، پیپلزپارٹی رہنما مخدوم احمد، صاحبزادگان خواجگان کوٹ مٹھن شریف، سرائیکی سیاسی، سماجی، ادبی اور عوامی حلقوں کا متاثرہ خاندان کی مدد کیلئے آگے نہ آنا سوالیہ نشان ہے؟

اس سے قبل سہجہ سے بھی لاپتہ دو لڑکیوں کے متاثرہ خاندان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا سرائیکی ہندو کمیونٹی کی لڑکیوں کے لاپتہ ہونے والے واقعات سے سرائیکی وسیب سمیت پورے ملک کے عوام واقف ہیں تاریخ گواہ ہے کہ سرائیکی خطے میں آباد ہندو کمیونٹی بھی سرائیکی تہذیب وتمدن اور وسائل کی اتنا ہی وارث وامین ہے جتنا مسلم سرائیکی کمیونٹی، لیکن آج دھرتی زاد ہندو برادری شدید عدم تحفظ کا شکار ہے بچیوں کے لاپتہ ہونے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر سرائیکی وسیب کے سیاسی، سماجی اور عوامی حلقوں کی مسلسل خاموشی سے بھی ہندو برادری دلبرداشتہ ہے؟ شہر ہوں یا پھر روہی، چولستان،صدیوں سے آباد اقلیتی سرائیکی ہندو برادری کا تحفظ اکثریتی مسلم سرائیکی کمیونٹی سمیت حکومت کی ذمہ داری ہے

تحریر و کالم جام ایم ڈی گانگا

چیف جسٹس آف پاکستان، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ، پنجاب حکومت، متعلقہ حکام، پیپلزپارٹی رہنما مخدوم احمد محمود، سجادہ نشین کوٹ مٹھن شریف، سرائیکی سیاسی، ادبی، سماجی اور حلقوں سے اپیل ہے کہ ہندو کمیونٹی کی لاپتہ بچیوں کی بازیابی کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں عدم تحفظ کا شکار سرائیکی ہندو برادری سے اظہار یکجہتی، ان کے دکھوں کا مداوا اور لاپتہ بچیوں کی بازیابی کیلئے متحد ہوکر آواز اٹھانا سرائیکی قوم کی ذمہ داری ہے خدا را اپنوں سے مظالم اور ناانصافی کے خلاف میدان عمل میں آئیں بصورت دیگر تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی

محترم قارئین کرام، پہلی بات تو یہ ہے کہ موہن بھگت کا شکوہ بے جا ہے کہ مسلم سرائیکی وسیب زاد اپنے ہندو سرائیکی وسیب زاد کے لیے آواز نہیں اٹھاتے، بولتے نہیں ہیں ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے سہجہ کا معاملہ ہو یا صادق آباد کا یا پھر اس سے قبل کے اس قسم کے معاشرتی و سماجی مسائل ہمیشہ وسیب واسیوں نے حق و سچ کی آواز اٹھائی ہے اور اب بھی اٹھا رہے ہیں ذرا معاملے کو زمینی حقائق کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے یہ سماجی رویہ کہوں یا برائی معاشرہ میں خاصی پھیل چکی ہے اس میں ہندو مسلم کی کوئی تفریق نہیں ہے دیکھا گیا ہے کہ ایسے اکثر معاملات میں زبردستی یا اغواء نہیں بلکہ پیار و محبت اور جنون کے چکر میں معاشرتی بغاوت کا عنصر نمایاں اور واضح ہے جس نے ہمارے معاشرتی نظام کا حُلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا رواج یا واردات کافی عرصہ سے موجود ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب اس کی رفتار خاصی بڑھ چکی ہے یہاں پر ہم سب کو اپنی اپنی اس کمزوری کا بھی اعتراف کرنا پڑے گا کہ ماضی کے مقابلے میں ایسی حرکتیں کرنے والوں کو لعنت ملامت کرنے کا سلسلہ خاصا کمزور پڑ چکا ہے کون نہیں جانتا کہ مسلم کمیونٹی میں ہونے والے ایسے واقعات کے کرداروں کا رخ عدالتوں کی جانب ہوتا ہے جبکہ ایک فریق کے ہندو کمیونٹی سے تعلق کی وجہ سے ایسے کرداروں کا رخ کسی درگاہ کے سجادہ نشین یا کسی بڑے مدرسے کے بڑے مولانا کی طرف ہوتا ہے دونوں صورتوں میں والدین کی جانب سے لڑکے اور اس کے ورثاء کے خلاف زبردستی و اغواء وغیرہ کا مقدمہ درج کروایا جاتا ہے حالانکہ حقیقت حال کو وہ بھی جانتے ہیں دراصل ہم لوگ معاشرتی و سماجی زوال کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں ہمارے اندر ایمان کی قوت اور سچائی کی طاقت کمزور پڑ چکی ہے کوئی غیرت مند مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ کوئی کسی ہندو گھرانے کی لڑکی کو زبردستی اٹھائے زیادتی کرے، اغواء کرکے اس سے زبردستی نکاح کرے یہ کوئی اچھا عمل نہیں ہے اس کی ہرگز ہرگز حمائت نہیں کی جا سکتی جہاں تک عزت کا تعلق ہے سب کی عزت برابر ہے اسی طرح جہاں تک گناہ اور جرم کا تعلق ہے وہ بھی معاشرے کے تمام گروہوں اور افراد کے لیے یکساں ہے ہمارے نزدیک ہندو یا مسلم کسی بھی گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں وسیب کی بیٹیاں سانجھی ہیں اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکمرانوں کے علاوہ معاشرے کی سرکردہ و بااثر شخصیات کو اپنا اپنا کردار ضرور ادا کرنا چاہئیے بُرے کو بُرا اور غلط کو غلط کہنے کے رواج کو فروغ دیا جانا چاہئیے بصورت دیگر کوئی بھی اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھے اس برائی اور لعنت کے پر ہیں یہ بڑی تیزی سے سفر کرتی ہے

یہ بھی پڑھیں : تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی اور منشیات؟

میرے پیارے وسیب زاد موہن بھگت، پریتم داس تم ہمیں عزیز ہو کیا ماء دھرتی کی نسبت کو تم نے اتنا کمزور سمجھ لیا ہے ذرا شکوہ کرنے سے قبل زمینی حقائق پر تو نظر دوڑا لیتے یہ صرف تمہارا نہیں ہم سب کا مشترکہ معاشرتی و سماجی مسئلہ ہے کیا آپ نہیں جانتے کہ دراصل لوگوں کی اکثریت ایسے معاملات میں خاموشی کو ترجیج دیتی ہے معاملہ کو فریقین کا مسئلہ قرار دے کر کنارا کشی کی روش اختیار کر لیتی ہے جس کی کئی وجوہات ہیں.ایک دوسرے سے لاتعلقی کا یہ رویہ بھی کئی قسم کے معاشرتی مسائل اور خرابیوں کی اہم وجوہات میں سے ایک وجہ ہے کوئی کسی کے لیے آواز اٹھائے یا نہ اٹھائے، کوئی بولے یا نہ بولے یہ سچ ہے کہ عوام کی اکثریت گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والے جوڑوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتی اور انہیں اچھا نہیں سمجھتی ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی والدین و خاندان کی عزت کا خیال نہ کرنے والوں کو ہدایت دے انہیں معاشرے کا ناسور بننے سے بچائے اور دوسروں کو اُن کے شر اور حرکتوں سے محفوظ فرمائے آمین

آخر میں ہمارا مطالبہ ہے کہ صادق آباد کے لیلا رام کی تینوں بیٹیوں کو برآمد کرکے اعلی عدالت کے سامنے پیش کیا جائے آزادانہ ماحول میں ان کے بیانات قلم بند کیے جائیں آیا وہ گھر یا شہر سے اغواء کی گئی ہیں یا اپنے گھر سے اپنی مرضی سے گئی ہیں ان کے بیانات کی روشنی میں آئین و قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے اگر ہم غور سے مشاہدہ کریں تو آزادیِ نسواں کے قوانین نے بھی ہمارے معاشرے کے لیے کئی مسائل پیدا کیے ہیں اور بڑھائے ہیں حقوق کے نام پر بغاوت بھی اس سلسلے کی ایک کڑی لگتی ہے ایسے قوانین جو معاشرے کا فائدے کی بجائے زیادہ نقصان کرنے لگیں ان پر از سرے نو غور کی ضرورت ہے بچیوں کا ازخود مسلمان ہو جانے کے بعد نکاح کر لینا بھی ایک حساس معاملہ ہے یوں معاملہ یا مسئلہ معاشرتی کے ساتھ ساتھ مذہبی بھی ہو جاتا ہے بہرحال معاشرے کے تمام طبقات اور گروہوں کو اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا ہوگا تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات سے بچا جا سکے جہاں سے واپسی نا ممکن یا پھر مزید خطرناک ہو جاتی ہے معاشرے میں امن کی جگہ بگاڑ لے لیتا ہے

یہ بھی پڑھیں : انناس کا جوس بنانے کا طریقہ 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent