Grasshopper's heartfelt greetings and greetings
تحریرجام ایم ڈی گانگا
پاکستان سمیت دینا بھر میں یکم میں یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہےشگاگو کے شہید محنت کش مزدوروں کی یاد میں شروع کیا جانے والا یہ دن محنت کی عظمت اپنے حقوق کے حصول اپنے روزگار کے تحفظ، محنتوں کشوں کے استحصال، ان کے ساتھ ظلم و بربریت ناانصافی اور لاقانونیت کے خلاف تجدید عہد، تجدید وفا کےعزم و اقرار کا دن ہے. محنت کشوں کے لیے جان کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھنے والوں کے کردار اور قربانیوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے. میں دس سال سے رحیم یار خان میں کامریڈ حیدر چغتائی کی دعوت پر کسانوں کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے وسیب دیس اور دنیا بھر کے مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ان کی ریلی اور پروگرم میں جاتا ہوں شہر سے یہ سوچ لیے واپس اپنے گاوں گانگا نگر آ رہا تھا کہ آج کرونا یوم مزدور اور گندم کی سرکاری جبری خریداری پالیسی پر کالم لکھوں گا. فیس بک پر ملتان کے سرخیل صحافی برادرم میر احمد کامران مگسی صاحب کی وال پر پوسٹ درج ذیل تحریر پڑھ رہا تھا کہ اسی دوران پاکستان کسان اتحاد ضلع رحیم یارخان یوتھ ونگ کے بیٹےجام محمد راشد مجنوں گانگا کا فون آیا بتایا کہ میانوالی قریشیاں گانگا نگر میں بڑی تعداد میں مکڑی یعنی ٹڈی دل آئی ہوئی ہے.میں نے اسے فورا چند تصاویر اور ویڈیو کلپس بنا کر سینڈ کرنے کا کہا تاکہ ضلعی انتظامہ کو فصلات کو نقصان پہنچانے والی اس وباء بارے آگاہ کیا جا سکے. مزید بات کرنے سے پہلے آپ ملتان کے نہتے مزدوروں کی ایک سچی داستان کی مختصر سی جھلک لفظوں کی شکل میں دیکھ لیں ُ ُ یہ 2جنوری 1978ء کا سیاہ دن تھا جب جنرل ضیا کالونی ٹیکسٹائل ملز (قائم شدہ 1946ء) کے مالک مغیث اے شیخ کی بیٹی کی شادی پر ملتان آیا ہوا تھادوسری طرف کالونی ٹیکسٹائل ملز کے مزدور تین مہینے کے بونس اور ایک مہینے کی اضافی تنخواہ کا مطالبہ کر رہے تھےمزدوروں کو خبر ملی کہ ان کے مطالبات کی جتنی رقم بنتی تھی اس سے دس گنا زیادہ رقم کے برابر جہیز مل مالک مغیث اے شیخ نے اپنی بیٹی کو دیا ہےانھوں نے کام بند کر دیا تھا اور اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کی کال دے دی تھی اس موقع پر جنرل ضیاءالحق اور مغیث اے شیخ کی ملاقات میں طے پایا کہ مزدوروں کی اس تحریک کو اگر آج نہ کچلا گیا تو ایسی تحریکیں اقتدار کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہیں بقول لال خان پیراملٹری فورسز کو گولی چلانے کا کھلا اختیار دیا گیا. ایک طرف مغیث اے شیخ کی بیٹی رخصت ہو رہی تھی تو دوسری طرف کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں گولیاں چل رہی تھیں. پیراملٹری فورسز کے فائرنگ سے قریب ڈیڑھ سو سے دو سو مزدور شہید اور چار سو کے قریب زخمی ہوئے(ہمارا مورخ جب بھی آزاد ہوگا تو دو سفاک فوجیوں مغیث اے شیخ اور جنرل ضیاء الحق کے اس فعل کو "بُجّا" دے کر ملتان کو "پاکستان کا شکاگو" لکھے گا ٗ ٗ
محترم قارئین کرام،، وقت کا تقاضا اور ضرورت ہے کہ ہم ایسے ایام مناتے ہوئے اپنے دیس، اپنے وسیب اور اپنے ارد گرد ہونے والے واقعات کو بھی اجاگر کریں جنھیں دانستہ اور غیر دانستہ مٹی ڈال کر چھپا دیا گیا ہوتا ہےبلکہ میں سـجھتا ہوں کہ یوم مزدوراں کو منانے کا مقصد بھی صحیح معنوں میں تب جا کر ہی پورا ہو سکتا ہے.مقامی مزدور تنظیمیں اور استحصال کا شکار طبقات اور قومیں یہ تہیہ کر لیں کہ آئندہ وہ اس سوچ کو آگے بڑھائیں گےیکم مئی کے دن ضلع رحیم یار خان میں ایک بار پھر ٹڈی دل کی موجودگی اور آزادانہ پرواز کی اطلاعات سے جہاں ضلعی انتظامیہ فورا متحرک دکھائی دی وہاں فصلات کے متوقع نقصان بارے کسانوں کے خدشات بھی سننے کو ملے آموں کے باغات گنے اور دیگر فصلات پر آکر بیٹھنے اور ٹخلیاں کرنے والی ٹڈی دل سے کپاس کاشت کرنے والے کسان کپاس کاشت کرنے نہ کرنے بارے سوچنے لگے ہیں جیسے ہی میں نے ٹڈل دل کی خبر اور ویڈیو ضلعی انتظامیہ اور میڈیا کے دوستوں کو شیئر کی آدھے گھنٹے کے اندر اندر مجھے ڈی سی آفس سے اسسٹنٹ کمشنر چودھری ریاست علی کا فون آیاشکریہ ادا کیا اور مزید تفصیلات پوچھیں اور کہا کہ گانگا صاحب ٹڈی کے یہ جو تازہ لشکر اور جھنڈ آئے ہیں یہ ہمارے ضلع کی پیداوار نہیں ہیں ضلع راجن ہور اور بلوچستان کے اضلاع کی طرف سے اڑ کر آئے ہیں
یہ بھی پڑھیں : نہری پانی چوری کی حقیقت،پانی چوری یا فروختگی؟
رحیم یار خان کی انتظامیہ جاگ رہی ہےجہاں سے بھی اطلاع ملے گی ہم نے اس کے تدارک کے لیے انتظامات مکمل کیے ہوئے ہیں بلاشبہ ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان علی شہزاد کی قیادت میں اس حوالے سے کام ہو رہا ہے علی شہزاد ڈاک پڑھ کر اور فون سن کر اپنے تئیں کام کرنے والے آفیسر ہیں محترم قارئین کرام اصل بات تو یہ کہ بیس دن پہلے سے پاکستان کسان اتحاد رحیم یارخان شاہ والی تحصیل روجھان ضلع راجن پور سندھ کے ضلع گھوٹکی اور بلوچستان کے کئی اضلاع کے صحرائی علاقوں میں ٹڈی دل کی انڈوں افزائش اور بچوں کے بارے میں نہ صرف آگاہ کیا بلکہ زور دے کر یہ مشورہ بھی دیتا رہا کہ انسداد ٹڈی دل کے لیے وفاق تینوں صوبوں کے ساتھ ملک کر مشترکہ مربوط اشتراکی مہم شروع کریںتب تب جا کر اسے کنٹرول کیا جا سکے گا اُس صوبے میں ہمارے ضلع میں نہیں دوسرے ضلع میں ہے جیسی باتیں سننے کو ملیں تھانوں کے بارڈرز پر حدود کے چکروں کے طرح حکمران اور انتظامیہ صوبوں اور ضلعوں کے چکر میں رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ رحیم یارخان کے ملحقہ اضلاع میں پرورش پانے والے ٹڈی دل جوان ہو کر پرواز کر کے یہاں آچکی ہے یہ قطعا مذاق نہیں ہے حسن اتفاق ہے یا قدرت کی جانب سے کوئی اشارہ ہے شاہ والی روجھان اور بلوچستان کے علاقوں سے پرواز کرکے آنے والی ٹڈی دل نے میرے ضلع رحیم یارخان میں سب سے پہلے سابق گورنر پنجاب ہر دلعزیز سیاستدان مخدوم سید احمد محمود کےعلاقےجمال دین والی شریف میں خاموش سلامی پیش کی اور وہاں چھپ چھپاتا ناشتہ کیابالکل اسی طرح جس طرح ماضی میں ضلع میں آنے والے آفیسران کیا کرتے تھےاٹھنے بیٹھنے چلنے پھرنے اور ملنے ملانے وغیرہ کے حوالے سے کرونا وائرس وباکی وجہ سے دنیا مجبورا ماضی میں چلی گئی ہےٹڈی دل کی ترتیب اور حسن اتفاق ملاحظہ فرمائیں حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے شہر جمال دین والی شریف سے یہاں کے سپیشل جہاز کی طرح رازدارانہ انداز میں آڑان بھرنے والی ٹڈی دل نے طاقت ور و صاحب اقتدار مخدوم وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے گاوں میانوالی قریشیاں میں دھوم دھڑکے سے اپنی حاضری اور سلامی پیش کی وہاں پرتکلف عصرانہ تناول فرمایا. ہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ جمال دین والی سے میاوالی قریشیاں دو والیوں کے درمیان سفر کے دوران ٹڈی دل نے گانگا نگر سے گزرتے ہوئے پاکستان کسان اتحاد کے ضلعی آفس اور راقم الحروف کے گھر کے اوپر اونچی پرواز کرتے ہوئے فاتحانہ چکر لگایا صوفی استخارہ فیم عامل علامہ حسین احمد سعیدی نے اسے یہ کہتے سنا کہ ایم ڈی گانگا اور کسان اتحاد ہمارے خلاف اس وقت سے شور شرابے کرتے چلے آ رہے ہیں جب ہم بچے تھے اڑنے کے قابل نہ تھے یہ انتظامیہ اور حکمرانوں کو ہمارے خلاف اکساتے رہے ہیں انہیں ہمیں مارنے کے مشورے دیتے رہے ہیں یہ کیوں بھول جاتے ہیں جسے اللہ رکھے اسے کون چکھےاب دل بھر کر ہمارے خلاف بیان بازی اور کالم نگاری کریں کسان دوست ایم پی ایز سردار ممتاز خان چانگ اور میاں شفیع محمد لاڑ کو بھی مطلع کر دیں تاکہ اب ہمارے خلاف اسمبلی میں آواز اٹھانے کی حسرت بھی باقی نہ رہ جائے سب سن لو ہمیں نہ تو کسی انتظامیہ کا خوف ہے اور نہ ہم یہاں کے عوامی نمائندوں سے ڈرتی ہیں ہمیں مارنے کا وقت گزر چکا ہے
0 Comments