Ticker

6/recent/ticker-posts

وسیب کا فنکارکرشن لعل بھیل رخصت ہوا

Wasib's artist Lal Bheel passed away

تحریرجام ایم ڈی گانگا

گانگا دھرتی واسیں کیتے میں نہ بولاں
دھرتی واسیں کیتے میں کیوں نہ بولاں

خطہ سرائیکستان بائی پاس روڈ بھیل نگر کا رہائشی رحیم یار خان کا منفرد انداز و آواز کا مالک فنکار گلوکار کرشن لعل بھیل 7مئی2020کو لگ بھگ 55سال کی عمر میں اس جہان فانی سے وسیب کے بہت سارے دوسرے غریب ومستحق فنکاروں ادیبوں شاعروں کی طرح نامساعد حالات، معاشی ناہمواریوں اور بیماریوں سے لڑتے لڑتے بلاآخر زندگی کی بازی ہار کر اس جہان سے جا چکا ہےوہ گردوں کی بیماری کا شکار تھے. غربت کی وجہ اپنا مناسب علاج کروانے کی پوزیشن میں بھی نہ تھے حکومت اور حکومتی اداروں کو وہ خود اور اس کے ورثاء التجائیں اور اپیلیں کرتے رہےخطے کے لوگوں کے لیے بے لوث بے دھڑک اور بلاتفریق لکھنے اور آواز اٹھانے والے مرد مجاہد درویش صحافی جناب ظہور احمد دھریجہ،جام جاوید اقبال ٹانوری سمیت ہندو کمیونٹی کے سماجی سوچ کے حامل نوجوانوں رمیش جے پال، وکرم دیپال سمیت کئی لوگوں نے آواز اٹھائی مگر کہیں سے کوئی شنوائی نہ ہو سکی علاقے کے جاگیردار وڈیروں صنعت کاروں اور سرمایہ داروں میں سے کسی کو بھی علاج کے سلسلے میں آ گے بڑھنے کی توفیق نہ مل سکی100کے لگ بھگ فنکار شاگرد بھی اپنے استاد کے لیے کچھ نہ کر سکے سماجی بے حسی کے اس دور میں ایک غریب شخص کا وقت کیسے گزرتا ہے یہ تلخ حقیقت تو صرف وہی جانتے ہیں جن کے ساتھ بیتتی ہےوہ ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والا وسیب واسی انسان اور ایک اچھا فنکار تھاشوبز گلوکاری کی دنیا میں رحیم یارخان کی پہچان اور نام روشن کرنے والوں میں سے ایک تھا
ضلع رحیم یارخان کے علاقے یوسف کالونی چک 112نزد وائر لیس پل رحیم یارخان سرائیکی وسیب کی قدیم ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے لعل ناتھ بھیل کے ہاں پیدا ہونے والے،گرو سکھ دیو جی بھیل کے چگوٹے بھائی،کرشن لعل بھیل نے اپنی گائیگی کے ذریعے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ ضلع رحیم یارخان اور سرائیکی وسیب کا نام پورے ملک اور دنیا میں روشن کرنے والے فنکاروں میں سے ایک ہیں سرائیکی مارواڑی اور سندھی زبان میں صوفیانہ کلام اور لوک گیت گانے والا یہ فنکار اپنا ایک منفرد سٹائل رکھتا تھاپنجابی،بلوچی اردو سمیت کئی زبانوں میں گیت گا چکا ہےلیکن اس کی پہچان سرائیکی اور مارواڑی گلوکار کی حیثیت سے ہی تھی ضلع اور وسیب میں ہونے والی ثقافتی و تفریحی سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا تھا وہ رحیم یار خان کا روہی میلہ ہو یا فلاور شو تقریبات ہوں وہ بہاول پور جیب ریلی کے پروگرام ہوں یا روہی چولستان میں ہونے والے دیگر ثقافتی و تفریحی پروگرامات کرشن لعل بھیل ان کی رونق بننے کے لیے اپنی پوری ٹیم سمیت موجود ہوتے تھے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے وسیبی فنکاروں کو وسیب میں ہونے والے پروگراموں میں لاہور کراچی سےآنے والے فنکاروں کے مقابلے میں عشر عشیر معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا اس کے باوجود بھی خطے کے یہ فنکار اپنی دھرتی پر ہونے والے پروگراموں کو اپنا سمجھ کر لالچ کیے بغیر پرفارم کرنے کے لیے ہمیشہ خوش دلی کے ساتھ موجود ہوتے ہیں.کرشن لعل بھیل نے دوبئی مسقط، متحدہ عرب امارات، آذربائیجان،ترکمستان ترکی انگلینڈ، سمیت کئی دیگر یورپین ممالک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور درجنوں مختلف قسم کے ایوارڈ حاصل کیےمذہب دھرم اور عقیدے سے ہٹ کر کرشن لعل بھیل خوش دل،صابر و شاکر،ملنسار اور عاجزی جیسی بڑی صفات رکھنے والا فنکار تھااپنی مادری زبان مارواڑی کی طرح سرائیکی زبان سے بھی انتہا کی محبت کرنے والا تھا. وہ اپنے آپ کو دھرتی جایا سجھتے تھےوسیب کی مٹی سے محبت، وسیب کے رنگوں اور ثقافت سے انس ان کی رگ رگ میں سمایا ہوا تھا یہ مارواڑی خاندان حضرت خواجہ فرید ؒ کی روہی کے عاشق سمجھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صوفیانہ کلام کی گائیگی کی وجہ سے یہ مسلمانوں کے مذہبی خاص طور صوفیائے کرام کے پروگراموں عرس کےتہواروں  میں شرکت کرتے ہیں

یہ بھی پڑھیں : ٹڈی دل کی پیش قدمی اور متوقع غذائی بحران

محترم قارئین کرام،کرشن لعل بھیل کی وفات سے میرا رحیم یار، خان میرا سرائیکی وسیب اور میرا پیارا دیس ایک دھرتی واس جنیوئن فنکار سے محروم ہو گیا ہے مجھے یقین ہے کہ وہ فن سے اپنی سچی محبت اور منفرد کام کی بدولت موسیقی و گائیگی کی دنیا و تاریخ میں وہ اچھے لفظوں سے لکھے اور یاد کیے جائیں گے کرشن لعل بھیل نے پسماندگان میں ایک بیوہ ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہےآج مجھے ایک صحافی دوست کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان علی شہزاد نے حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان کو فنکاروں کو دئیے جانے والے سول ایوارڈ کے لیے رحیم یار خان سے کرشن لعل بھیل کی فائل بھیجی ہوئی ہے ارباب اختیار کا فیصلہ آنا باقی ہےآیا فیصلہ کرنے والی کمیٹی کرشن لعل بھیل کا نام منظورکرتی ہے یا نامنظور ڈپٹی کمشنر کا ایک حقدار کو حق دلانے کے لیے متعلقہ حکام بالا کو لکھنا فائل تیار کرکے بھیجنا بھی قابل ستائش عمل ہےکرشن لعل بھیل اب ہم میں نہیں رہےحکمران اور متعلقہ حکومتی ادارے دھرتی کے اس بیمار فنکار کے علاج معالجہ کے لیے تو کچھ نہیں کر سکےاللہ کرے کہ اب انہیں اس کے حق کا احساس ہو جائے چلو ان کی زندگی میں ان کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکا تو کم ازکم اب اس کے مرنے کے بعد ڈپٹی کمشنر کی جانب سے سول ایواڈ کے لیے بھیجی جانے والی درخواست اور فائل کو منظور کرکے اس کے فن اور خدمات کا اعتراف کر کے اس کے پسماندگان کے لیے تسکین اور ریلیف کا سامان مہیا کیا جا سکتا ہے فیروزہ تحیصل لیاقت پور ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے نامور گائیگ و گلوکار فقیرا بھگت کو بھی غالبا بعد از وفات گیارہ سال بعد سرکاری ایوارڈ سے نوازا گیا تھااس کے لیے باقاعدہ خطے کے عوام نے تحریک کی صورت میں آواز اٹھائی تھی تب کر انہیں صدارتی تمغہ امتیاز کا حق دیا گیا تھاحکمران کرشن لعل بھیل کے ساتھ کیا کرتے ہیں اس کا فیصلہ بہت جلد آنے والا وقت ہی کر دے گایہاں اگر میں اپنے جائز حق سے محروم احمد پور شرقیہ ضلع بہاول پور کے عظیم گائیگ گلوکار بھائیوں کی جوڑی جمیل پروانہ نصیر مستانہ کا ذکر نہ کروں تو یہ زیادتی ہوگی اور بھی بہت سارے فنکار ہیں جو ابھی تک نظر انداز کیے جا رہے ہیں کیونکہ سرائیکی خطے کے فنکاروں کی پشت سیاسی شفارش سے محروم ہوتی ہے. بیورو کریسی میں ان کی  رسائی کوسوں دور کی بات ہے کچھ کم پڑھے لکھے ہونے کی وجہ سے اور کچھ ترقی کے کامیاب زینے خوشامد کے فن دے نا آشنا ہونے کی وجہ سے روہی کی ریت کی طرح اڑتے اور بکھرتے رہتے ہیں .کرشن لعل کا فنکار برداری میں نام عزت و مقام اور احترام کا اندازہ یہاں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ خطہ سرائیکستان پاکستان کی نامور گلوکارہ محترم ثریا ملتانیکر کی گلوکارہ صاحبزادی سابق انچارچ پی ٹی وی ملتان سنٹر محترمہ پروفیسر راحت بانو ملتانیکر نے لاہور سے مجھے کرشن لعل بھیل کی اپنے ساتھ ایک یاد گاری تصویر کے ہمراہ ان سے محبت، ان کے بچوں اور خاندان سے غمگساری،  دکھ کی سانجھ جدائی کے غم اور افسوس کا جس انداز میں اظہار کیا ہے وہ اس بات اور حقیقت کا مظہر ہے کہ کرشن لعل یقینا لوگوں کے دلوں میں بسنے والا انسان تھا کرشن لعل سرائیکی موسیقی کا ایک لعل اور ہیرا تھا میرا وسیب میرا دیس ایک اچھے اور بھر پور ثقافتی فنکار سے محروم ہو گیا ہے محترمہ راحت ملتانیکر کا کرشن لعل کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیشن کرنا یقینا طرفین کی مثبت سوچ، باہمی لگن و احترام کا ثبوت ہے

یہ بھی پڑھیں : تعلیمی نظام کو درپیش مسائل کو مجموعی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے،پروفیسر زکریاذاکر

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent