World Journalism Day
تحریر یوسف تھیہم
محترم قارئین کرام،3 مئی کو دنیا بھر میں صحافت کا عالمی دن منایا گیا اس دن کو منانے کا مقصد صحافت سے وابستہ افراد کی خدمات کا معترف ہونا انکی حوصلہ افزائی کرنا اور انکے حقوق کا پرچار کرنا ہے اسلام آباد میں صحافتی تنظیموں اور ورکر نے اپنے حقوق کے لئے دھرنا دیا لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے صحافت اب سرمایہ داروں کے لئے کاروبار بن چکا ہے میں بیسویں صدی کی بات کررہا ہوں نہ کہ اس دور کی جب اللہ کا فرشتہ جبرائیل علیہ اسلام اپنے رب کا پیغام لیکر اسکے محبوب صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم تک پہنچاتا تھا اور اللہ کے محبوب اپنے رب کا پیغام بڑی تن دہی اور مشکلات کے باوجود اسکے بندوں تک پہنچاتے اور دین کا پیغام دیتے تھے اور لوگوں کو ہر معاملے سے آگاہ رکھتے تھے دراصل صحافت بھی آگاہ رکھنے پیغام پہنچانے اور باخبر رکھنے کا نام ہے کسی پیغام کو کسی نئی بات معلومات کو پوری ایمانداری کیساتھ عوام تک پہنچانا ہے تاکہ لوگوں کو آگاہ رکھا جاسکے صرف صحافی اکیلا ہی اس زمرے میں نہیں آتا بلکہ اسکے ساتھ اور اس سے جڑے تمام افراد جن میں کیمرہ مین ،اینالی ، ایڈیٹر،انجینئر،ڈرائیور،سب ایڈیٹر،ڈیسک ٹیم اور ہر وہ فرد جو خبر کو عوام تک پہنچانے کے لئے کسی ادارے کیساتھ جڑا ہوا ہے اور اپنا کردار ادا کررہا ہے اُن سبکو صحافت کے عالمی دن کے موقع پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں میں ورکنگ جرنلسٹ اور لکھاری ہوں مجھے اس بات کا زیادہ علم ہے کہ مجھے جیسے ہر صحافی کو خبر کی تلاش اور اسے عوام تک پہنچانے میں کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسلام آباد یا لاہور کے صحافیوں نے کبھی علاقائی صحافیوں کے حق میں نہ آواز اٹھائی نہ احتجاج کیا سب سے زیادہ مشکلات چھوٹے دور دراز اور پسماندہ علاقے کے صحافیوں کو ہوتی ہیں کسی وڈیرے ، جاگیردار ، وزیر ،ایم این اے ، ایم پی اے ، سرکاری آفیسر یا کسی بااثر شخص کے خلاف لب کشائی کرلے تو اسکی سزا اسے یا تو موت کی صورت میں ملتی ہے یا پھر جھوٹے مقدمات میں پھنسا دیا جاتا ہے وسائل اور تنخواہ سے محروم صحافی اپنی رہی سہی زندگی جیل میں گزارتا ہے یا مر جاتا ہے اور اسکے بچے یتیمی کی حالت میں گزربسر کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور یہ سب وہ اپنے ملک وقوم کو آگاہ رکھنے،ملکی وسائل کا غلط استعمال کرنے والوں اور کرپشن زدہ افراد کی حوصلہ شکنی کے لئے کررہا ہوتا ہے ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ علاقائی صحافی بغیر کسی تنخواہ کے کام کرے خود بھی کمائے اور ادارے کو بھی ماہانہ دے چاہے وہ رقم جائز طریقے سے کمائے یا ناجائز طریقے سے مقصد صرف پیسے کا حصول ہے اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان پڑھ اور انگوٹھا چھاپ صحافی جو خود کو بابائے صحافت کہلواتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے اور چند ہزار دیکر صحافی بن کر پڑھے لکھےصحافیوں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتے ہیں اب تو خود کو صحافی بتاتے ہوئے شرم سی محسوس ہوتی ہے ایک طرف بی اے پاس اور دوسری طرف انگوٹھا چھاپ پریس کانفرنس میں برابر بیٹھا ہو تو یقینا زیادتی کے مترادف ہے صرف صحافی ہی ایسا شخص ہے جس کے لئے کوئی رولز متعین نہیں ہیں کوئی بھی ان پڑھ کریمینل اور شوقین شخص چند ہزار اور چند اخبار لگوا کر صحافی بن جاتا ہے بھلا اسے صحافت کی الف ب کا بھی نہ پتہ ہو ایسے افراد نے صحافت اور صحافیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے میرے ورکنگ کلاس صحافیوں سے گزارش ہے کہ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی ضرور کریں اور ایسے اداروں کے مالکان کےلئے مجھے ایک جملہ یاد آگیا جو نان پروفیشنل اداروں کے کرتا دھرتا اور ہولی سولیوں کے منہ سے سننے کو ملتا ہے
آسی آواں گے تے کی دیو گے
تسی آئو گے تے کی لے کے آو گے
یہ بھی پڑھیں : ٹڈی دل کی سلامی اور ہمکلامی
دوسری جانب اگر بات کی جائے پروفیشنل اور ذمے داران صحافتی اداروں کی ان میں کام کرنے والے افراد کی تو میں سلیوٹ پیش کرتا ہوں ایسے اداروں اور افراد کو انتہائی ذمے داری سے سچ اور ذمے داریاں عوام تک پہنچا اور نبھا رہے ہیں یوم صحافت دراصل انہی لوگوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہےپاکستان صحافتی سرگرمیاں آزادانہ طریقے سے ادا کرنے والے ممالک کی فہرست میں 139 ویں نمبر پر ہے پاکستان کا شمار صحافیوں کے لئے خطرناک ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں ہر سال چار، پانچ صحافیوں کو سچ دیکھانے اور بولنے کیوجہ سے شہید کردیا جاتا ہے اور جب صحافی شہید ہوتا ہے تو حکومتی ایوانوں کی کھلی کھڑکیاں بھی بند کر دی جاتی ہیں ایسے میں ایک شعر یاد آگیا
بند کمروں کی سیاست میرا منشور نہیں
جوبھی کہوں گا سر بازار کہوں گا
تم رات کی سیاہی میں مجھے قتل کرو گے
میں صبح کی اخبار کی سرخی میں ملوں گا
صحافت کے عالمی دن کے موقع پر اگر صحافیوں کے حقوق کی بات کی جائے تو لاہور، کراچی، اسلام آباد ملتان اور دیگر بڑے شہروں کے صحافیوں کو کئی کئی ماہ تنخواہیں نہیں ملتی کئی صحافی اور ورکر تو تنخواہ کی بروقت عدم دستیابی کیوجہ سے جان کی بازی ہار چکے ہیں اور میڈیا مالکان کے کان میں جُوں تک نہیں رینگتی حکومت کو چاہئیے کہ صحافیوں اور اداروں کے متعلق رولز اور ریگولیشن طے کرے جو اداراہ صحافیوں کو بروقت تنخواہ نہ دے اسکے اشتہارات بند کر دئیے جائیں دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ علاقائی صحافیوں کے لئے تعلیم،ٹیسٹ اور انٹرویو کی شرط لازمی قرار دی جائے جو بندہ صحافتی معیار اور رولز پر پورا اترے اسے صحافی کا کارڈ جاری کیا جائے ۔ تیسرا اور اہم مطالبہ یہ ہے کہ صحافتی امور میں اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے صحافیوں کو سرکاری سطح پر "شہید" کا درجہ دیا جائے تا کہ ملک کے چوتھے ستون صحافت کا بول بالا ہو ملک و قوم اور معاشرہ حق سچ کیساتھ مثبت سمت کی جانب گامزن ہو آخر میں دعاگو ہوں کہ ربِ کریم شہید صحافیوں کے درجات بلند فرمائے اور انکے لواحقین کو صبروجمیل عطاء فرمائے ، آمین
0 Comments