Ticker

6/recent/ticker-posts

فرہاداحمدفگارسےمختصرنشست

A brief session with Farhad Ahmad Fagar

تحریر شبیر احمد ڈار

آزادکشمیر میں ادب کی صحیح معنوں میں خدمت کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے .آج ایک ایسی ادبی شخصیات سے آپ کو متعارف کروانے جا رہا جس کا نام پہلے بھی ملکی و بین الاقوامی اخبارات میں لکھا جا چکا تھا . ماہر لسانیات ،ادیب ، شاعر ، محقق ماہر تعلیم اور دیگر خوبیوں کے مالک جن میں مجھے ایک سچے محب اردو کی جھلک نظر آتی ہے آزادکشمیر کی  نام ور ادبی شخصیات میں شامل ایک اہم نام پروفیسر فرہاد احمد فگار ہے ان سے ایک نشست ہوئی جس میں ان سے ادبی گفتگو ہوئی ملاحظہ کریں
س :آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں پھر بھی اپنی زبانی قارئین کو تعارف کروا دیں ؟
ج: میرا نام فرہاد احمد جب کہ قلمی نام فرہاد احمد فگار ہے۔ سن دو ہزار کی بات ہے جب میں گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاور میں انجیئرنگ کا طالب علم تھا۔ اس وقت میرے ایک ہم جماعت جن کا تعلق ٹائیں ضلع پونچھ سے تھا سید فگار حسین شاہ گردیزی تھے جو بعد ازاں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔ بس اسی ہم جماعت دوست کے نام پر میں نے یہ نام رکھا جو میری پہچان بنا۔ میری پیدائش ازاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد کے محلہ تھوری یعنی لوئر چھتر میں ہوئی۔
س : آپ کے والد محترم بھی اردو ادب سے خاص لگاو رکھتے تھے یا وہ آپ کو کسی سائنسی شعبہ میں  دیکھنا چاہتے تھے ؟ 
ج: میں نے جب ہوش سنبھالا تو خود کو اپنی دادی جان کی گود میں پایا۔ میری سگی دادی امی میری پیدائش سے بہت پہلے ١٩٦٧میں انتقال کر گئی تھیں۔ یہ میرے دادا ابو کی چوتھی اہلیہ تھیں۔ میں سمجھتا ہوں جس طرح کی پرورش میری سوتیلی دادی جان نے ہماری کی ویسی کوئی سگی بھی نہیں کر سکتی۔ دادا ابو نمبردار فرمان علی اعوان کے ساتھ رہتے رہتے کتب سے رغبت پیدا ہوئی۔ دادا جان مرحوم میرے اور بڑے بھائی شہزاد احمد اعوان کے لیے بچوں کی کہانیاں اور رسائل لاتے رہتے تھے۔ تب پچیس پیسے اور پچاس پیسے میں ٹارزن۔ عمروعیار،سیمسن سینڈ ڈیلائلہ کی کہانیاں ، خوف ناک کہانیاں وغیرہ مل جاتیں .میرے پاس ان کہانیوں کا اچھا خاصا زخیرہ تھا۔میرے والد بہ اعتبار پیشہ ٹرک ڈرائیور تھے مجھے بہت فخر ہے کہ میں محنت کش کا بیٹا ہوں۔ میرے والد نے ہمیشہ ہماری جائز خواہشات کو پورا کیا۔ میرے والدین زیادہ پڑھے لکھے نہیں تاہم ان کی خواہش تھی کہ ان کی اولاد اچھی تعلیم حاصل کرے۔ مجھے پڑھنے اور لکھنے کا شوق میرے دادا ابو مرحوم کی طرف سے ملا۔میرے ابو کی خواہش تھی کہ میں تعلیم حاصل کروں ۔ابتدا میں جی سی ٹی پشاور گیا وہاں سے تعلیم نامکمل رہی۔بعدازاں کئی نشیب وفراز آئے ابو جان مایوس ہو گئے کہ شاید میں پڑھنا نہیں چاہتا لیکن اللہ نے ہمت عطا کی اور شوکت اقبال صاحب کی تحریک سے میں نمل تک چلا گیا جہاں سے الحمد اللہ اب ڈاکٹریٹ کر رہا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں : رحیم یارخان میں اسلامیہ یونیورسٹی کی میڈیا ورکشاپ 2

س : میٹرک کے بعد آپ کے دل میں شعبہ اردو سے لگاو کا شوق ابھرا کہ اسی شعبہ میں اپنی تعلیم کو مکمل کروں گا یا پھر یہ محب اردو بعد میں جاگی ؟ 
ج : میٹرک کے بعد میں سن دو ہزار میں میرا داخلہ ڈی۔اے۔ای سول میں ہوگیا۔ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی پشاور ایک بڑا ادارہ تھا۔ اس ادارے میں دو سال لگائے مگر اطمینان نہ تھا۔ میں نے اس ادارے کو الوداع کہا اس وقت کچھ نہیں سوچا ۔ایم اے اردو کی طرف اسکول دور سے آنا چاہتا تھا ۔ ہمارے ایک استاد مولوی ریاض صاحب سے دو تین مرتبہ اس کا ذکر کیا جس پر انھوں نے بہت حوصلہ شکنی کی ڈرایا کہ بہت مشکل ہے۔ تاہم اللہ کی مدد اور والدین کی دعاؤں نے مجھے سرخ رو کیا۔پی ایچ ڈی یا ایم فل کا کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ حتیٰ کہ پڑھانے کا خیال مجھے کبھی نہیں آیا بس اللہ نے عزت دی وگرنہ میری اوقات ہی کیا تھی اور کیا ہے۔
س: اردو ادب کی کس صنف میں آپ کو زیادہ دلچسپی ہے اور کیوں ؟
ج : اردو ادب کی سبھی اصناف اچھی ہیں تاہم مجھے غزل اور افسانہ زیادہ پسند ہے۔ غزل اردو کی مقبول ترین صنف ہے۔ اس میں بڑے بڑے شعرا ہوئے۔ افسانہ ایک ہی نشست میں پڑھا جا سکتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی ۔غلام عباس اور پریم چند کے افسانے پڑھ کر ہمیشہ اچھا لگتا ہے ۔ نئے لکھنے والوں میں حمزہ حسن شیخ کے افسانے بہت پسند آئے۔
س :مختلف کلام کے اصل بند اور اصل شاعر سے آپ نےہمیں آشنا کروایا اور مختلف ایسے الفاظ جو غلط لکھے جاتے تھے ان کا صحیح تلفظ بتایا آپ یہ کام کس طرز سے کرتے ہیں تاکہ نوجوان محقق بھی آپ کے نقش قدم پر چل کر تحقیق کر سکیں ؟
ج:  جی میں اکثر جب کسی شاعر کے شعر کو کسی دوسرے شاعر کے نام سے منسوب دیکھتا ہوں تو شدید دکھ ہوتا ہے۔ کسی بھی شاعر کا کل اثاثہ اس کے اشعار ہی ہوتے ہیں۔ بعض شعرا کو ان کا کوئی ایک شعر ہی زندہ رکھتا ہے۔ اگر ان سے وہ ایک شعر بھی چھین لیا جائے تو میرے نزدیک یہ ایک سنگین جرم ہے۔ اس وجہ سے میں نے ایک تہیہ کیا کہ جہاں تک میری بساط ہے ضرب المثل اشعار یا معروف مصرعوں کو ان کے حقیقی خالق کے نام سے قارئین تک پہنچاؤں ۔ اس مقصد کے لیے میری جستجو جاری رہتی ہے مختلف کلیات اور شعری مجموعوں کے علاوہ تحقیقی و تنقیدی کتب سے بھی مستفید ہوتا ہوں۔الحمد للہ میں اپنی مساعی میں کام یاب بھی ہوتا ہوں۔ اسی طرح اردو زبان مجھے بہت عزیز ہے یہی زبان ہے جو میرے لیے رزق کمانے کا ذریعہ ہے اور میری پہچان اسی میں مضمر ہے۔ جب کوئی غلط اردو لکھتا یا بولتا ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اردو کے ساتھ جو ناروا سلوک برتا جاتا ہے اس کے سدباب کے لیے میں نے اردو کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ میری خواہش ہے کہ کم از کم اردو پڑھانے یا پڑھنے والوں کی درستی ہو جائے۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں اردو کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جاتا ہے وہ نہیں ہونا چاہیے ۔ نااہل ترین لوگ اردو کے استاد بن جاتے ہیں جو قابلِ اصلاح بات ہے۔
س : کس ادبی شخصیت کا اثر آپ نے قبول کیا اورخود کو ان کی شخصیت میں ڈھالنا پسند کیا ؟ 
ج :میں نے شاید کسی کا اثر اس طرح قبول نہیں کیا۔ میرے پسندیدہ افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی مرحوم ہیں۔ اگر میں افسانہ لکھوں تو شاید ان کے اثر سے آزاد نہ ہو پاؤں۔ باقی میری تحریر نہایت سادہ اور عام فہم ہوتی ہے۔میرا مقصدِ تحریر طلبہ کی اصلاح ہے ۔
س :آپ پر لکھے گے مضامین کون کون سے ہیں اور کس میں آپ کواپنے متعلق اصلاح دیکھنے کو ملی ؟ 
ج :  مجھ پر کئی دوستوں نے لکھا۔ سید شہباز گردیزی۔ آصف اسحاق۔ محمد سفیر۔ رانا سجاد۔ پروفیسر حبیب گوہر۔ سید معراج جامی۔ محترم آصف ثاقب۔احمد وقار۔شبیر ڈار سمیت متعدد لوگوں نے لکھا۔ ظفر اقبال صاحب نے اپنے کئی کالمز میں تذکرہ کیا۔ محترم اطہر ہاشمی اور سرفراز سید نے اپنے کالمز میں ذکر کیا۔ رہی بات اصلاح کی تو سبھی نے میری محبت میں لکھا اور خوب لکھا۔
س :آپ معلم بھی ہیں اور کئ سال سے یہ فرائض سر انجام دےرہے اس لیے آپ سے پوچھنا چاہوں گا کیا آپ اردو کے نصاب سے مطمئن ہیں اور اگر نہیں تو اس کے محرکات کیا ہیں ؟ 
ج : اردو کے نصاب سے میں مطمئن کبھی نہیں رہا۔ ہمارا نظامِ تعلیم قابلِ اصلاح ہے۔ اس میں کئی طرح کی خرابیاں موجود ہیں۔ اردو کے نصاب کی اگر بات کروں تو ہماری تمام کلاسز میں گنتی کے چند شعرا پڑھائے جاتے ہیں۔دبستان لکھنؤ میں جیسے بس آتش ہی اکیلے شاعر ہوں۔ جرات۔انشا اور ناسخ جیسے شعرا کو یک سر نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ دہلی میں جن شعرا کو چھوٹی جماعتوں میں پڑھایا جاتا ہے ایم اے اردو میں بھی نہ صرف وہی شعر بلکہ غزلیات بھی وہی پڑھائی جاتی ہیں۔ جدید شعرا کا کوئی حصہ نہیں۔ اسی طرح نثر میں بھی چند نام ہیں جن سے طلبہ واقف ہیں وہی نام ہر جماعت میں پڑھائے جاتے ہیں۔ مضامین کی بات کریں تو کئی ایسے مضامین یا اسباق ہیں جن کا طلبہ سے کسی بھی طرح کا تعلق نہیں لیکن ان پر مسلط کر دیے گئے ہیں۔
س :آپ نے شاعری میں بھی طبع آزمائی کی ہے کیا شروع سے شاعری کی جانب میلان تھا یا پھر بدلتے حالات نے شاعر بننے پر مجبور کیا ؟ 
ج : میں نے لکھنا تو تقریباً سن دو ہزار میں شروع کیا لیکن کبھی شاعری کو سمجھ نہ پایا۔ جب ایم اے اردو میں گیا اور شعری شعور حاصل ہوا تو تب میری سست الوجودی کے سامنے شاعری مشکل لگنے لگی۔کبھی کبھار تک بندی کر لیتا ہوں۔ ویسے بھی میں جب اپنے ارد گرد نگاہ دوڑاتا ہوں تو بے شمار شعرا دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں نے شعر پر تحقیق کو ترجیح دی۔یہ سچ ہے کہ شاعری میری پہلی محبت ہے۔
س : موجودہ دور میں اردو کو آپ کس مقام پر دیکھتے ہیں اور کیسے اس کا مکمل نفاذ آپ ممکن سمجھتے ہیں ؟ 
ج : لمحۂ موجود میں اردو سے نا شناسائی اس کی ارزانی اور حادثاتی طور پر اردو کے اساتذہ کو دیکھ کر لگتا ہے کہ اردو کا مستقبل کچھ بھی نہیں لیکن کچھ سرپھرے عشاقِ اردو پر جب نظر پڑتی ہے تو حوصلہ ہوتا ہے۔ مجھ سمیت کئی دیگر اردو کے محافظ اس کی حفاظت پر مامور ہیں مجھے قوی امید ہے کہ یہ زبان آئندہ ترقی کی نئی منازل طے کرے گی

بہت شکریہ فرہاد احمد فگار صاحب یقینا آپ نے اردو ادب کے لیے جو خدمات سر انجام دیں وہ قابل ستائش ہیں اور امید ہے یہ ادبی سفر اسی طرح جاری و ساری رہے گا


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent