State of Madinah Pakistan and contempt of humanity
تحریر حاجی فضل محمود انجم
ہم غریبوں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے
ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہو
گذشتہ دنوں پشاور کے نزدیک ایک دینی مدرسے پر دہشتگردانہ حملہ ہوا اور بہت سے طالب علم اس حملے کے نتیجے میں جام شہادت نوش کر گئے۔ان طلبہ کی نعشوں کو تدفین کیلیےء منتقل کرنے کی ایک تصویر سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی جس میں ایک والد اپنے طالب علم بچے کو کپڑے کی گٹھڑی میں ڈال کر اپنی پیٹھ پر لے جاتے ہوےء دیکھایا گیا ہے۔ عام لوگوں کی نظر میں یہ ایک عام سی تصویر ہے کیونکہ انہیں نہیں پتہ ! اس دکھ کا ۔جس سے بچے کو اٹھا کے لے جانے والا اس کا والد دوچار ہے۔تکلیف اور دکھ کا احساس اسی کو ہوتا ہے جو اس تکلیف یا دکھ سے دوچار ہوتا ہے۔اپنے معصوم اور بے گناہ بچے کے لاشے کو اپنی پیٹھ پہ لاد کر لے جانے کی تکلیف مجھے یا تجھے یا اس بے غیرت معاشرے کو یا اہل اقتدار کو قطعا" نہیں ہو سکتی کیونکہ مرا ہے تو اس کا بچہ مرا ہے۔ تمہارا نہیں مرا ۔اندازہ کرو اس والد کا جو اپنی غربت اور بے چارگی کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے لخت جگر کو اس مدرسے میں محض اسلیےء لایا ہوگا کہ یہاں پہ اسے مفت میں روٹی تو ملتی رہے گی۔جو اسے اس کا والد غربت کی وجہ سے گھر میں رکھ کر نہیں دے سکتا۔لیکن اسے کیا پتہ تھا؟ کہ جہاں وہ اپنے بچے کو محض اسلیے چھوڑ کر جا رہا ہے کہ وہ یہاں بھوکا نہیں مرے گا۔اسے قطعا"یہ احساس نہیں ہوگا کہ اس کے لخت جگر نے مرنا یہاں بھی ہے۔ چلو بھوک سے نہیں مرے گا۔ بارود سےمرے گا
یہ بھی پڑھیں : ختم نبوت کانفرنس چناب نگر
خدارا بتاؤ ان لوگوں کو ! ۔جو اہل اقتدار ہیں۔جو سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوےء ہیں ۔ جو اس دنیا میں فرعون بنے ہوٸے ہیں۔جنہیں نہیں پتہ کہ انسانیت کی قدر کیا ہوتی ہے؟جو غریب کے بچوں کو مرتے ہوٸے دیکھتے ہیں تو ان کے دل پہ کوئی اثر نہیں ہوتاکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ غریب کا بچہ ہے کسی اہل زر کا نہیں۔اور غریب کی کونسی عزت ہے؟جو اس کیلٸے پریشان ہوا جاٸے اور ہاں اگر پریشان ہوٸے بھی تو چند ٹکے اس غریب کی ہتھیلی پہ رکھ کے سمجھ لیتے ہیں کہ مرنے کا مداوا ہو گیا۔ مجھے افسوس اس حکومت پہ ہے کہ یہ تصویر دیکھ کر اس کی انتظامی صلاحیت کا پول کھل گیا۔کیا انہیں یہ بھول گیا؟کہ حضرت عمر فاروق نے ایک دفعہ کہا تھا کہ دریاےء فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو روز قیامت پوچھ گچھ مجھ سے ہوگی۔وہ انتظامیہ کہاں مر گئی تھی؟جو شہید بچے کو اچھے طریقے سے اسے اسکے گھر تک نہ منتقل کر سکی۔وہ تبدیلی کے دعوے کدھر گئے؟وہ عوامی ہمدردی کے اعلانات کہاں گئے؟ اور وہ ریاست مدینہ بنانے والے کہاں مر گئے؟ جنہیں کندھے پہ بچے کی لاش کو لے جانا نظر نہ آسکا۔ یا انہوں نے خود ہی کبوتر کی طرح اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں
اس سے زیادہ افسوس مجھے اس معاشرے پر ہے جس کے سامنے یہ واقعہ رونما ہوا اور ان کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی۔اس بے غیرت معاشرے نے کیسے یہ برداشت کر لیا؟کیا وہ احساسات سے عاری ہو چکے تھے؟یا ان کے ضمیر مردہ ہو گئے تھے یا ان کا انسانیت والا مادہ ختم ہو چکا تھا کہ انہیں احساس تک نہ ہوا۔ایسا منظر دیکھ کر قیامت کیوں نہ آئی؟آجانا چاہیۓ تھا قیامت کو ! کیونکہ اس سے بڑا سانحہ اور کوئی ہو نہیں سکتا۔اس بچے کو لیکر جاتے ہوےء والد کا دل جو آنسو بہا رہا ہو گا۔وہ دنیا دیکھے نہ دیکھے میرا اللہ تو دیکھ رہا تھا۔اس کی آہیں اور اس کے درد کی ٹیسیں میرے اللہ تک تو یقینا"پہنچ رہی تھیں۔چنانچہ اب انتظار کرو ! میرے رب کی پکڑ کا۔کیونکہ جب کوئی دنیا والا نوٹس نہیں لیتا تو پھر میرا اللہ نوٹس لیتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کا لیا ہوا نوٹس بڑا سخت ہوتا ہے۔ہزاروں مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ جب اللہ نے نوٹس لیا تو سب کچھ ملیا میٹ کر دیا۔انسانیت کی تذلیل اس سے زیادہ اور ہو نہیں سکتی کہ اسے مرنے کے بعد کسی کا کندھا بھی نصیب نہ ہو۔اور میرا اللہ اپنی مخلوق کی تحقیر کسی صورت برداشت نہیں کرتا کیونکہ اللہ کو اپنی یہ مخلوق بہت پسند ہے۔
پروردگار عالم کی سب سے اشرف اور افضل مخلوق اور خلقت کا سرسبز و شاداب پُھول انسان ہے، اور صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جسے خالقِ کائنات نے اپنے ہاتھوں سے بنایا اس کے علاوہ تمام مخلوقات کو لفظ ’’ کُنْ ‘‘ سے وجود بخشا۔ﷲ رب العزت نے انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدمؑ کی تخلیق کی اور ان کی عظمت و رفعت کا۔انسان کی قدر و قیمت اور حُرمت کا اندازہ یہاں سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔کسی شخص کا بغیر کسی وجہِ شرعی کے ایک فرد کے قتل کرنے کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔دینِ فطرت میں مومن کی تکریم صرف اس کی حیات تک محدود نہیں ہے بلک مرنے کے بعد بھی اس کی تکریم و تعظیم لازم ہے ایسا ہرگز نہیں ہے کہ مرنے کے بعد اس کی حُرمت کو پامال کرنا جائز قرار دیا گیا ہو اسلام مومن کی عزت و آبرو کی حفاظت کا حکم دیتا ہے۔ سیرتِ طیّبہ کے روشن پہلو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین بھی آپؐ کی اتباع میں ایسا ہی کیا کرتے تھے
0 Comments