Ticker

6/recent/ticker-posts

فن تعمیر کا شاہکار رنی کوٹ قلعہ پاکستان کا عظیم خزانہ تاریخی قلعہ کی دلچسپ معلومات

A masterpiece of architecture, Rani Kot Fort is a great treasure of Pakistan. Interesting information about the historical fort

پاکستان کا سب سے بڑا قلعہ رنی کوٹ جس کی دیوار دیوارِ چین سے مشابہت رکھتی ہے اور اسے دیوارِ سندھ بھی کہا جاتا ہےافسوس کہ ہم اس عظیم خزانے کے بارے جانتے ہی نہیں اس قلعے کو دیکھ کر آپکو جنگی مہارت اور دفاعی حکمت عملیوں کا اندازہ ہوگا کہ کیسے ایک بادشاہ اپنے ملک اور رعایا کی بقاء و سلامتی کے لیے سب کچھ کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہے

کراچی سے تقریباً 300 کلومیٹر کی دوری پر ضلع جامشورو کے پہاڑی صحرا میں موجود رنی کوٹ جسے ’عظیم دیوارِ سندھ ‘ بھی کہا جاتا ہے جامشورو شہر سے لگ بھگ 120 کلومیٹر نیچے چھوٹے سے شہر سن کے قریب واقع ہے رنی کوٹ کب،کیسے اور کیوں بنا اس بحث پر محققین ابھی تک ایک رائے پر متفق نہیں ہوپائے لیکن کچھہ مؤرخین کا ماننا ہے کہ رنی کوٹ ساسانیوں کے دور کا قلعہ ہے چند ماہرین اسے یونانیوں کی طرزِ تعمیر سے مشابہ قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ رنی کوٹ قلعہ 836 ہجری میں عرب گورنر عمران بن موسیٰ  نے تعمیر کروایا مشہور انگریز سیاح الیگزینڈر برنس نے کیا تھا جو 1831ء کو رنی کوٹ سے گزرے تھے لیکن موجودہ دور میں رنی کوٹ کو دنیا میں سب سے زیادہ پذیرائی دلانے کے لیے قوم پرست سیاست کے روح رواں ’جی ایم سید‘ کا بڑا ہاتھ ہے نامور محقق اور مؤرخ بدر ابڑو، ایم ایچ پنہور اور تاج صحرائی کے مطابق رنی کوٹ کی دیواروں کی لمبائی 30 فٹ اور چوڑائی 7 فٹ ہے جبکہ رنی کوٹ قلعہ 16 سے 30 کلومیٹر میں اندر پھیلا ہوا ہے رنی کوٹ کی بحالی پر حکومتِ سندھ کے ساتھ مل کر کام کرنے والی تنظیم ’انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ‘ (ای ایف ٹی) کے مطابق یہ قلعہ 32 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی دیواریں ساڑھے 7 کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہیں کچھ محققین کہتے ہیں کہ قلعہ برِصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے اس وقت بنا تھا جب سندھ ایران کی حدود میں شمار ہوتا تھا لیکن اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں

یہ بھی پڑھیں : چولستان جیپ ریلی میݙے مال دی پارت ہیوے

محقق مسٹر اے ڈبلیو ہوزنے 1856 میں ’سندھ گزیٹیئر‘ میں لکھا ہے کہ رنی کوٹ سندھ کے تالپور حکمرانوں نے اپنا قیمتی سامان محفوظ کرنے کی غرض سے بنوایا ہوگا سندھ کے نامور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ بھی کسی حد تک مسٹر اے ڈبلیو ہوز سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ قلعہ تالپر حکمرانوں کے وزیر نواب محمد خان لغاری نے بنوایا تھا رنی کوٹ پر تحقیق کرنے والے بدر ابڑو اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ قلعے کی تعمیر کسی ایک وقت میں مکمل نہیں ہوئی ہوگی بلکہ اس قلعے کی تعمیر ایک سے زائد حکمرانوں کے ادوار میں ہوئی ہوگی محققین کے مطابق رنی کوٹ کی تعمیر میں کم سے کم 3 سے 4 ہزار مزدوروں نے کئی ماہ تک کام کیا ہوگا اور اندازے کے مطابق اس وقت قلعے کی لاگت پر 12 لاکھ روپے خرچ کیے گئے ہوں گے جو آج کے حساب سے اربوں روپے بنتے ہیں۔

رنی کوٹ کے نام سے مشہور اس "عظیم دیوارِ سندھ" کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قلعے کے اندر "میری" اور "شیر گڑھ کوٹ" کے نام سے مزید 2 چھوٹے قلعے ہیں جو اس کو دنیا کے منفرد اور عظیم قلعے کی حیثیت دیتے ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ شیر گڑھ قلعہ زمین کی سطح سے کم سے کم ایک ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑ پر بنا ہوا ہے جہاں ہر کسی کا جانا ممکن نہیں اور یوں پہاڑ پر ہونے کی وجہ سے اس قلعے پر لوگ کم جاتے ہیں رنی کوٹ میں اندر موجود دوسرے ’میری کوٹ‘ کو مرکزی قلعے کی اہمیت حاصل ہے اور لوگوں کی توجہ سمیت ہر سیاح کی دلچسپی بھی اسی قلعے میں ہوتی ہے اس قلعے کے گرد ہی سندھ کے محکمہِ سیاحت و ثقافت نے گیسٹ ہاؤسز بھی بنوائے ہیں اتنے بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی دیوار پر کم و بیش 18واچ ٹاورز بھی ہیں جن سے متعلق مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ٹاورز کسی زمانے میں جنگ کی لڑائی اور حفاظت کے لیے استعمال ہوتے تھے رنی کوٹ میں داخل ہونے کے لیے ویسے تو 5 دروازے ’سن گیٹ، موہن گیٹ، آمری گیٹ، شاہ بر گیٹ اور ٹوری دھوڑو گیٹ‘ ہیں تاہم کوٹ میں داخل ہونے کے لیے زیادہ تر ‘سن گیٹ‘ کو استعمال کیا جاتا ہے جسے قلعے کا مرکزی دروازہ بھی مانا جاتا ہے قلعے کو دیکھنے کے لیے آنے والے 98 فیصد افراد بذریعہ سڑک اسی دروازے کے راستے قلعے میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ یہی دروازہ مرکزی شاہراہ سے آنے والے راستے پر موجود ہے رنی کوٹ کے اندر جہاں اونچے اونچے پہاڑ اور سرسبز کھیت ہیں وہیں قلعے کے اندر پانی کا چشمہ بھی موجود ہے جسے سندھی زبان میں ’پرین جو تڑ‘ کہا جاتا ہے اس چشمے میں پہاڑوں کی بلندی سے پانی آتا ہے جو سال کے تمام دن کبھی کم تو کبھی زیادہ مقدار میں آتا ہے یہ چشمہ قلعے کی ایک ایسی جگہ پر موجود ہیں جہاں چاروں طرف 1500 سے 2000 فٹ کی بلندی کے پہاڑ موجود ہیں اس چشمے کے حوالے سے بھی دلفریب داستانیں موجود ہیں کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس چشمے کے اندر پریاں یا پھر شاہی گھرانوں کی شہزادیاں آکر نہاتی تھیں جس وجہ سے اس کا نام ’پرین جو تڑ‘ پڑا، تاہم اس حوالے سے بھی کوئی مستند تاریخ نہیں ملتی محقق عبدالجبار جونیجو لکھتے ہیں کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے مطابق دنیا کا قدیم ترین قلعہ جیریکو شہر کا تھا جو 7 ہزار قبل مسیح میں بن کر تیار ہوا جس کی دیواریں 21 فٹ لمبی اور 15 فٹ چوڑی تھیں جبکہ اس قلعے کی دیواریں 9 فٹ تک اندر زمین میں دھنسیں ہوئی تھی جونیجو صاحب رنی کوٹ سمیت دیگر قلعوں کی طرزِ تعمیر اور فن کو مدِنظر رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رنی کوٹ اور دیوارِ چین بھی جیریکو شہر کے قلعے کی کڑی ہیں تاریخ کے لیے اہم ترین سمجھے جانے والی کتاب ’فتح نامہ‘ کے مطابق رنی کوٹ 1812 سے 1829 تک بن کر تیار ہوا جس کی تصدیق بعد میں اے ڈبلیو ہیوز نے بھی اپنی 1876ء میں چھپنے والی کتاب ’سندھ گزیٹیئر‘ میں کی۔ انگریز مؤرخ اور محقق ایچ ٹی لمبرک نے اپنی کتابوں ’سر چارلس نیپیئر اور سندھ، جان جیکب آف جیکب آباد‘ میں سندھ کی تاریخ و تہذیب کے بارے میں بہت سی اہم باتیں لکھی ہیں انہوں نے بھی ان کتابوں میں رنی کوٹ کا تذکرہ کیا ہے تاریخ کی دیگر اہم کتابوں میں بھی رنی کوٹ کا تذکرہ ملتا ہے رنی کوٹ کی کوئی مستند اور ایک تاریخ نہیں ملتی تاہم مؤرخین اور محققین کے اندازوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ قلعہ کم سے کم 300 سال پرانا ہے رنی کوٹ پر مستند اور صحیح تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں رنی کوٹ کو وہ مقام نہیں مل پایا جو دیوارِ چین سمیت دنیا کے دیگر قلعوں کے حصے میں آیا محکمہ ثقافت و سیاحت کی جانب سے رنی کوٹ پر 2017 میں پہلی بار  اسسٹنٹ کیوریٹر کو تعینات کیا گیا

محکمہ نوادرات نے غیور عباس کو انچارج رنی کوٹ تعینات کرنے کے ساتھ ہی انہیں تین ملازمین پر مشتمل دیگر عملہ بھی دیا غیور عباس نے بتایا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس تاریخی قلعے پر پاکستان بننے کے بعد صرف 1980 اور 1990 کی دہائی میں وفاقی حکومت نے دو بار سیمینار یا پروگرام منعقد کروائے اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں تاریخی مقامات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد سندھ حکومت نے 2014 میں پہلی بار رنی کوٹ پر توجہ دی اور یہاں کچھ تعمیراتی کام کا آغاز کیا 2017 میں ساڑھے 5 ہزار افراد رنی کوٹ دیکھنے آئے جبکہ بہتر سہولیات کی وجہ سے اگلے سال دوہزار اٹھارہ میں سیاحوں کی تعداد دگنی ہوگئی اور یہاں گزشتہ برس ساڑھے بارہ ہزار افراد آئے گیسٹ ہاؤس کا کرایہ انتہائی مناسب ہے اور وہ بارہ گھنٹوں کے ایک ہزار روپے وصول کرتے ہیں جبکہ کمرے چھ گھنٹوں کے لیے بھی کرائے پر دیے جاتے ہیں اور اس کا کرایہ محض پانچ سو روپے لیا جاتا ہے اب رنی کوٹ میں کینٹین بھی قائم کردی گئی ہے جس سے سیاحوں کو کھانے  پینے کی چیزوں کی پریشانی نہیں ہوگی، جبکہ جلد ہی یہاں ایک ہوٹل کا افتتاح بھی کیا جائے گا گیسٹ ہاؤسز میں فوری طبی امداد کے لیے بھی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں اس قلعے کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ اس قلعے کے اندر آبادی بھی موجود ہے اس قلعے کے اندر ’گبول‘ قبیلے کے افراد بسے ہوئے ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ وہ پچھلی سات نسلوں سے یہاں آباد ہیں اور انہیں اپنے آباؤ اجداد بتا کر گئے تھے کہ رنی کوٹ دو ہزار سال پرانا ہے قلعے میں رہنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ گزشتہ سات نسلوں سے اس قلعے کی زمین ان کی ملکیت رہی ہے اور ان کے پاس ان کے دستاویزات بھی موجود ہیں نوجوان کے مطابق وہ صرف قلعے کے اندر زرِخیز زمین اور اس جگہ کے مالک ہیں جہاں ان کے گھر بنے ہوئے ہیں باقی قلعے کی دیواریں،پہاڑیاں اور قلعے کے اندر موجود مزید دو قلعے کس کی ملکیت ہے انہیں اس کا علم نہیں ان کے مطابق مجموعی طور پر قلعہ میں ان کے چالیس گھر آباد ہیں جو 30 کلومیٹر کے رقبے کے اندر پھیلے ہوئے ہیں۔  انہیں یاد نہیں کہ کبھی ان کے ہاں پانی کا مسئلہ ہوا ہو انہیں سردیوں یا گرمیوں میں ہمیشہ پہاڑوں کے دامن سے آنے والا صاف پانی میسر ہوتا ہے البتہ کچھہ وقت کے لیے اس کی مقدار کم ضرور ہوجاتی ہے یہ معلوم  نہیں  پانی کہاں سے آتا ہے تاہم ان کی زندگی اس پانی کی وجہ سے ہی بہتر گزر رہی ہے کیونکہ جہاں وہ اس پانی کو پینے اور کھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں وہیں اس پانی سے فصل بھی اگاتے ہیں پہاڑوں سے نکلنے والا پانی استعمال کرنے سے ان کے گاؤں میں کبھی کوئی موذی مرض نہیں پھیلا







Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent