Ticker

6/recent/ticker-posts

سینٹ انتخابات میں حکومت کوجھٹکا عمران خان کا بڑا فیصلہ

Imran Khan's big decision to shock the government in the Senate elections

تحریر صابر مغل

سینٹ الیکشن کا دن شہر اقتدار میں بر سر اقتدار پارٹی کے لئے کسی ڈراٶنے خواب سے کم ثابت نہیں ہوا پاکستان میں ہمیشہ کرشمہ سازی کا ہی طوطی بولتا رہاہے پاکستان تحریک انصاف کو مصیبتوں کی ماری عوام نے بے پناہ پذیرائی بخشی مگر ان کی حکومت کا نصف حصہ گذرنے پر عوام بد حال ہو چکی یہی بد دعائیں شکست کی صورت مین سامنے آئیں اسے ہزیمت ملی اور بے پناہ ہزیمت ملی مگر لگتا ہے مالشے پھر بھی وزیر اعظم کو عوام سے مزید دور کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے سینٹ الیکشن کی شام بنی گالا کی فضائیں ہی شاید عمران خان کو کوئی اچھی سر گوشی کر جائیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ وہ نہیں جو آپ نے عوام سے کہا تھا جو وعدے کئے تھے الراقم کی اطلاع کے مطابق ہر وہ اچھی تجویز تحریر یا تعبیر عمران خان تک پہنچنے ہی نہیں دی جاتی انہیں ان کے درباریوں نے اس سحر میں جکڑ رکھا ہے جس سے وہ باہر نکل ہی نہ پائیں گے گذشتہ چند ماہ سے سینٹ الیکشن کی بہت گہما گہمی تھی عمران خان بھی اپنے امپورٹڈ وزیر خزانہ عبدالحفیظ کو اسلام آباد سے سینٹ کا ٹکٹ دے دیا ان کے مقابل پی ڈی ایم نے نے سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کولاکھڑا کیا گیلانی کی جیت سے آصف علی زرداری نے جہاں ایک طرف پی ٹی آئی کو شرمناک صورتحال سے دوچار کیا وہیں اس نے مسلم لیگ ن سے بھی یوسف رضا گیلانی کو اقتدار سے باہر نکالنے کا بدلہ چکا دیا یوسف رضا گیلانی کی جیت اور عبدالحفیظ کی شکست سے آنے والے دن حکومت کے لئے سخت ترین ثابت ہوں گے حکومت اس بہت بڑے نقصان نفسیاتی طور پر شدید دباٶ کا شکار ہو چکی ہے ماہرین کے مطابق سینٹ الیکشن میں زرداری کا بیانیہ کامیاب رہا کیونکہ انہوں نے مریم نواز اور مولانا فضل الرحمان کی جانب سے استعفوں کے آپشن کی سخت مخالفت کی تھی اب پی ڈی ایم کو آصف علی زرداری ہی فالو کریں گی احتجاج کے ساتھ ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ سپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد چیرمین سینٹ جس کے لئے صادق سنجرانی اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان بڑا جوڑ پڑے گا اس کے بعد عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد ان کی پلاننگ کا حصہ ہے آصف علی زرداری نے نتاٸج کے بعد تو یہاں تک کہ دیا کہ انہیں تو 20 ووٹ ملنے تھے کم ملے ہیں یہ بات بھی گردش میں رہی کہ تب تک گیلانی بطور امیدوار تیار نہیں تھے جب تک انہیں جیت کے لئے تمام صورتحال سے آگاہ نہیں کر دیا گیا مطلب سب کچھ پہلے ہی ہو چکا تھا اگر اب بھی حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور عوام کو بد حال سے بد حال کرنےکا یہی وطیرہ اپنائے رکھا تواسے ایسے اور بہت سی کرشمہ سازیاں نصیب ہوں گی جسے گھر میں شکست ہو جائے وہ کہیں اور کہاں کامیاب ہوگا اس کی کارکردگی کیا ہوگی 238 سینٹ انتخابات کوخفیہ بنانے کے لئے حکومت ایوان میں بل لائی ناکامی کی صورت میں 23 دسمبر کو سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا پہلی سماعت 4 جنوری کو ہوئی یہ سماعت چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ جسٹس شیر عالم،جسٹس عمر عطا بندیال،اعجاز الاحسن اور جسٹس یحیٰ نے کی 6 فروری کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ترمیمی بل پر دستخط بھی کر دئے اس آرڈننس کوالیکشن ترمیمی آرڈینس 180 کا نام دیا گیا الیکشن سے قبل سپریم کورٹ نے 4;47;1 سے 8صفحات پر مشتمل رائے دی جس کے مطابق آرٹیکل 218کے (3)کے تحت الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موقع پر دیانتدرانہ،منصفانہ اور شفاف انتخاب کو یقینی بنائے کمیشن جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر قانون بد نیتی پر مبنی ہو تو مسائل جنم لیتے ہیں ،مگر الیکشن کمیشن نے چیٸرمین الیکشن کمیشن سکندر سلطان کی سربراہی میں اجلاس کے بعد کہا پرانے طریقے سے ہی سینٹ انتخابات کرائے جائیں گے ایک تو انہیں سپریم کورٹ کا فیصلہ موصول نہیں ہوا دوسرا وقت نہیں کہ ووٹنگ کا طریقہ کار بدلا جا سکے حکومتی صفوں میں یہ یقین تھا کہ ان کے امیدوار کو 180 اور گیلانی کو 155ووٹ ملیں گے اس معرکہ کے لئے حریفوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا قومی اسمبلی میں 341 میں سے 340 ووٹ کاسٹ ہوئے جس میں حیرت انگیز طور پر حکومتی امیدوار 164 ووٹ ہی حاصل کر پائے جبکہ یوسف رضا گیلانی نے 189ووٹ حاصل کرتے ہوئے حکومتی ایوانوں میں صف ماتم بچھا دی ،17 حکومتی ممبران نے پر اسرار طریقے سے کام دکھا دیا اسی ایوان میں پی ٹی آئی کی ہی امیدوار فرزانہ کوثر نے 174 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی اس شاندار کامیابی پر اپوزیشن کے کارکنوں نے ملک بھر میں جشن منایا جبکہ پی ٹی آئی کے سپوٹرز کی حالت مایوس کن رہی ،ایسا کیوں ہوا یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں یہ کھلم کھلا ہارس ٹریڈنگ ہے کسی کی بھی ہار جیت سے ہمیں کوئی سرو کار نہیں مگر جب ہمارے ایوانوں میں ہی ضمیر فروش ہوں جو اب نہیں جنہوں نے مسلم لیگ،پیپلز پارٹی کو بھی اپنے مفادات کے تحت ڈسا تواس سے زیادہ شرم ناک بات اور کیا ہوگی

یہ بھی پڑھیں : چولستان جیپ ریلی اور ضلعی انتظامیہ

تاہم اس سنسی خیز معرکے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے انتہائی ڈرامائی فیصلہ کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ وہ ایسی نوٹوں والی شکست سے نہیں گھبراتے نہ ہی وہ چوہوں کی طرح حکومت کر سکتے ہیں جس کو اعتماد نہیں کھل کرا ظہارکرے اب قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا جا کا مقصد اپوزیشن کی پیسے کی سیاست کو بے نقاب کرنا ہے عہدہ اہم نہیں بلکہ نظام کی تبدیلی میرا مشن ہے میرے مءوقف کا تقویت ملی ،ان کی جانب سے یہ بہت بڑا فیصلہ اور اخلاقی مورال کی نشانی ہے ،غیر سرکاری نتاءج کے مطابق اہم منتخب اراکین میں سندھ سے پی پی پی کے تاج حیدر،سلیم مانڈوی والا،شیری رحمان ،پلوشہ خان،فاروق ایچ نائیک،جام مہتاب حسین ڈہر ،شہادت اعوان،پی ٹی آئی کے فیصل واڈا،سیف اللہ ابڑو،ایم کیو ایم پاکستان کے فیصل سبزواری،خالدہ اطیب، سندھ میں ایم کیو ایم کے منحرف ارکان کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو 4کی بجائے 5نشستوں پر کامیابی ملی ،پاکستان تحریک لبیک نے صرف ٹیکنو کریٹس کو ووٹ دیئے ،بلوچستان سے آزاد عبدالقادر، جے یو آئی (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری ،کامران مرتضیٰ باقی میں محمد قاسم ،منظور احمد ،سرفراز احمد بگٹی،احمد عمر احمد زئی،،نسیمہ احسان ،ثمینہ ممتاز ،سعید ہاشمی اور دنیش کمار،عوامی نیشنل پارٹی کے ارباب ،عمر فاروق، بلوچستان میں پی ٹی آئی کا ایک بھی ذاتی امیدوار نہیں تھا جبکہ حکومتی اتحاد نے آزاد امیدوار کی حمایت کے ساتھ 8نشستوں پر کامیابی حاصل کی ،خیبر پختونخواہ سے پی ٹی آئی کے شبلی فراز،لیاقت خان تراکئی ،فیصل سلیم رحمان،ذیشان خانزادہ محسن عزیز،ثانیہ نشتر،فلک ناز،دوست محمد محسود،گردیپ سنگھ ،اے این پی کے ہدایت اللہ ،جے یو آئی کے عطا الرحمان منتخب ہوئے ،سینٹ کی موجودہ صورتحال کے مطابق پی ٹی آئی 26نشستوں کے ساتھ پہلے نمبر پر،پیپلز پارٹی 20،مسلم لیگ (ن) 18،بلوچستان عوامی نیشنل پارٹی 12،جمیعت علمائے اسلام 5،ایم کیو ایم پاکستان 3،نیشنل پارٹی 2،اے این پی 2،پی کے میپ 2 اور مسلم لیگ (ق)،مسلم لیگ فنکشنل ،جماعت اسلامی ،بی این پی مینگل کے پاس1 ۔ 1جبکہ 6 آزاد ارکان ہیں سینٹ کے لئے پولنگ صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک جاری رہا حکومت کی جانب سے زین قریشی اور اپوزیشن کی طرف سے گوہر بلوچ پولنگ ایجنٹ تھے ووٹوں کی گنتی تین بار کی گئی، کیا عجب بات ہے ریاست پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ امور رہنے والے شہر یار آفریدی کو بھی نہیں پتا کہ سینٹ کا ووٹ کیسے ڈالنا ہے کئی ووٹ مسترد ہوئے یہ کوئی بلدیاتی الیکشن نہیں تھا کہ ووٹ کینسل ہو جاتے اصل میں یہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ انہیں لیڈر ہی ایسے ملے ہیں ،پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان اور زرتاج گل کے بھی ووٹ مسترد ہونے والوں میں شامل ہیں ،ان کے نمائندے ہی اتنے قابل ہیں، سینٹ میں پہلے فاٹا کی نشستیں بھی تھیں مگر اس کے خیبر پی کے میں انضمام کے بعدوہ چار سیٹیں ختم ہوگئیں 2018 میں منتخب ہونے والے باقی چار فاٹا سینٹرز2021 میں فارغ ہوجائیں گے،اس سینٹ 104 کی بجائے 100 ہوگا جس کے تحت ہر صوبہ سے 23 ۔ 23،اور وفاق سے4ممبران سینٹ کی زینت رہیں گے،ہر صوبہ کی 23 میں سے 14جنرل ،4ٹیکنوکریٹس یا علماء ،4خواتین اور ایک ایک اقلیتی ممبر ہو گا،سینٹ انتخابات کے لئے قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں الیکٹورل کالج ہوتی ہیں ،اس بار پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں مک مکا ہونے کے بعد سینیٹرز منتخب ہو گئے،جس میں 5 ۔ 5 پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن) جبکہ ایک سیٹ مسلم لیگ (ق) کے حصہ میں آئیں، پی ٹی آئی 2015 میں پہلی بار سینٹ کا حصہ بنی بلکہ 2018 میں 18سال بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کو اکثریت حاصل ہوئی ،یہ سب پیسے کا کھیل ہے ممبران کو بڑے بڑے ہوٹلز میں ٹھہرایا گیا،اسد عمر ،شاہ محمود قریشی ،شبلی فراز،فواد چوہدری۔ شفقت محمود،حماد اظہر ،علی زیدی اور معاونین خوصی شہزاد اکبر اور شہباز گل نے ;807368; میں پریس کانفرنس کے دوران الیکشن کمیشن پر خوب چڑھائی کی اور پارٹی لائن سے ہٹ کر ووٹ ڈالنے والوں کو بے ضمیر کہا،اسد عمر نے کہا کہ ووٹوں کی خریدو فروخت کا عمل گذشتہ 30 سال سے جاری ہے شاہ محمود قریشی نے دیگر وفاقی وزراء شبلی فراز،فواد چوہدری ،شیریں مزاری،حماد اظہر ،علی زیدی ،اسد عمر اور معاونین خصوصی شہزاد اکبر اور شہباز گل کے ہمراہ کہا کہ قوم مایوس نہ ہو جلد پتہ چل جائے گا کہ کون کہاں کھڑا ہے عمران خان کی جانب سے اعتماد کے ووٹ لینے کا فیصلہ بہادر انسان کی نشانی ہے ان کے خدشات درست ثابت ہوئے گیلانی جیتے نہیں بلکہ الیکشن چرایا گیا، بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے عمران خان اب استعفیٰ دیں اب چیٸرمین سینٹ بھی ہمارا ہی ہوگا، مریم نواز شریف نے کہاجعلی مینڈنٹ عوام کے نمائندوں نے عمران خان سے واپس لے لیا ہے،مولانا فضل الرحمان نے کہا عمران خان ضائع ہو چکے ہیں نئے انتخابات چاہتے ہیں وہ جعلی ہے جو اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھا،نبیل گبول نے تو رواں سال کو عام انتخاب کا سال قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایمگ نے حکومتی ارکان کو ووٹ نہیں دیئے ،جماعت اسلامی کے مولانا عبدالاکبرچترا الی نے بھی ووٹ کاسٹ نہیں کیاہمارے سیاستدان بہت باخبر ہیں مگر اقتدار کی راہداریوں کے حوالے سے عوام سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے عوام یہ بات ٹھیک طرح سے ذہن میں رکھے اور ہمیشہ وہ اپنا ہی مفاد اور اقتدار عزیز رکھتے ہیں ،اب عمران خان کل قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیں گے ۔


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent