Ticker

6/recent/ticker-posts

عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ لے کر سر خرو ہو گئے

Imran Khan took a vote of confidence from the House

تحریر صابر مغل

 سینٹ الیکشن میں حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کی یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست کے بعد شروع ہونے والی سیاسی جنگ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کا بہت بڑا فیصلہ کیا جس میں وہ 178 ووٹ لے کر سرخرو ہوئے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو حکومت چلانا اور ایوان میں ان کا آنا کسی صورت مناسب نہ ہوتا وہ اخلاقی طور پر انتہائی پست پوزیشن پر ہوتے اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اپنی نشستوں پر ووٹ کو عزت دو کے بینرز رکھ اور لٹکا دیئے 2018 میں عمران خان کو 176 اراکین نے اعتماد کا ووٹ دیا تھا قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں شامل ہونے والے تمام اراکین پہنچ چکے تھے تلاوت کلام پاک کے بعد نعت اور پھر قومی ترانہ سے اجلاس کا باقاعدہ آغاز ہوا 5 منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں تاکہ اگر کسی نے آنا یا جانا ہے تو ایسا کر جائے جس کے بعد ایوان کے سبھی دروازے بند کر دیئے گئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے قرار داد پیش کی کہ یہ ایوان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد بحال کرتی ہے جیسا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 91کی شق(7) کے تحت ضروری ہے جس پر ایوان میں گھنٹیاں بجانے کے بعد حکومتی اراکین ایک جانب مخصوص جگہ پر اکٹھے ہوئے کیونکہ ایسے اجلاس میں شو آف ہینڈ یا خفیہ رائے شماری نہیں ہوتی بلکہ حکومتی اور اپوزیشن بنچوں کی تقسیم کے ذریعے ہوتی ہے اور گنتی کے بعد کامیابی یا ناکامی کا اعلان کر دیا جاتا ہے،اس ون پوائنٹ ایجنڈے میں صرف وزیر اعظم کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینا ہی رکھا گیا تھا جس میں پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اس موقع پر مولانا فضل الرحمان نے اسے بے معنی قرار دیتے ہوئے کہا کیونکہ وزیر اعظم خود سمری نہیں دے سکتے اور آئین کے تحت یہ صدر کا اختیار ہے لہٰذا ہم اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ اب اس کی اہمیت ہی نہیں رہی مہنگائی بے روزگاری اور لوگوں کو بے گھر کرنے والے اور کوئی منصوبہ بندی نہ رکھنے والے کو اب گھر واپس جانا ہوگا اب یہ سب ان کی حواس باختگی اوران کے ہاتھ سے نکل چکا اس وقت پاکستان میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں رہی اب عوام کے حقیقی نمائندے ہی حکومت کریں گے جبکہ آئین کے آرٹیکل 91 کی شق(7)کے مطابق وزیر اعظم صدر کی خوشنودی کے دوران اپنے عہدے پر فائز رہ سکتا ہے اور صدر اس وقت تک اپنے اختیارات کا استعمال نہیں کرے گا جب تک اسے اطمینان نہ ہو کہ وزیر اعظم اکثریت کھو چکے ہیں تاہم یہ اجلاس بھی وزیر اعظم کے اعلان کے بعد صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ہی طلب کیا تھا سینٹ الیکشن میں حکومتی امیدوار کو شکست جیسے بڑے جھٹکے کے بعد وزیر اعظم نے یہ بہت بڑا فیصلہ لیا جس بارے میں کہا جانے لگا کہ یہی فیصلہ انہیں کسی بند گلی تک بھی لے جا سکتا ہے حالانکہ عبدالحفیظ اور یوسف رضا گیلانی کے درمیان مقابلہ اور پھر گیلانی کی غیر متوقع جیت کے بعد اعتماد کا ووٹ لینا ضروری سمجھا گیا چاہے اس کے نتاءج کچھ بھی ہوتے ایک روز قبل وزیر اعظم ہاءوس مین حکومتی اتحادی پارلیمانی پارٹیوں کا اجلاس زیر صدارت عمران منعقد ہوا جس میں 179 میں سے 175 اراکین قومی اسمبلی نے شرکت نہ کی شرکت نہ کرنے والوں میں مونس الہٰی ،علی زیدی،عامر لیاقت،باسط خان اور غلام بی بی بھروانہ شامل تھیں جنہوں نے آج شامل ہونے کا وعدہ کیا تھا فیصل واوڈا کے استعفیٰ اور ڈسکہ کی نشست پر دوبارہ پولنگ کے باعث ایوان کی 341 نشستوں میں سے 179نشستیں ہیں اور اعتماد کے لئے کم از کم 172 اراکین کی ضرورت تھی اس اجلاس میں شامل ہونے والے تمام اراکین نے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دینے کی یقین دہانی کرائی عمران خان نے حکمران اتحادی پارٹیوں کے رہنماٶں سے الگ الگ ملاقاتیں بھی کیں عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ نتاٸج سے خوفزدہ نہیں جن اراکین کو کوئی اعتراض ہے وہ آگے آکر اپنے اختلاف کا اظہار کریں

یہ بھی پڑھیں : سینٹ انتخابات میں حکومت کوجھٹکا عمران خان کا بڑا فیصلہ

ماضی کے حکمرانوں کی پالیسیوں اور اقتدار میں آکر کرپشن کے باعث آج ملک بری حالت میں ہے اجلاس سے قبل وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے پنجاب ہاٶس میں خواتین اراکین اسمبلی کے اعزاز میں ظہرانہ دیا جبکہ شاہ محمود قریشی نے رات کو سب اراکین کو عشائیہ دیا وزیر دفاع پرویز خٹک نے اراکین کو متعلقہ قواعد و ضوابط اور آئین کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے یہ بھی باآور کرا دیا کہ ووٹ نہ دینے والے اراکین کو ڈی سیٹڈ کیا جا سکتا ہے عبدالحفیظ شیخ جو عالمی مالیاتی اداروں سے وسیع تعلقات کی بنا پر ہماری تقدیر کے مالک ہیں پر حکومت انتہائی پریشانی کے عالم میں ہے اسی وجہ سے اس بات پر بھی غور کیا جا رہا ہے کہ صدارتی آرڈننس کے ذریعے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی 2018 میں کامیابی پر وہ والی سیٹ کو ڈی سیٹ کر کے انہیں منتخب کروایا جائے ،موجودہ آئین کے تحت کسی بھی منتخب رکن کے حلف اٹھانے کے وقت پر پابندی نہیں ہے اسی ناکامی کے بعد عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید سے بھی قومی سلامتی سمیت دیگر امور کے حوالے سے بھی ملاقات کی جس پر مریم نواز کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ادارے اس کام سے دور رہیں شکست کے بعد عمران خان نے قوم سے تقریر میں اپوزیشن اور پاکستان الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نے پاکستان میں جمہوریت کو نقصان پہنچایا اسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے موقع دیا کیا 1500بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جا سکتا تھا آپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی؟کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے پیسے دے کر اوپر آنا جمہوریت ہے آپ نے ملک کا وقار مجروح کیا ہے اندازہ نہیں کہ الیکشن میں کتنا پیسہ چلا ہمیں پتا تھا کہ ریٹ لگ چکے ہیں اس ملک میں گذشتہ 70 سال سے پیسے کے بل بوتے پر سینیٹرز بن رہے ہیں اور جو کروڑوں روپے لگا کر سینٹ میں پہنچے گا اس سے کسی قومی مفاد کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے میں اپوزیشن سے بلیک میل نہیں ہوں گا نا این آر دوں گا میرے آنے پر ان جماعتوں کی کرپٹ قیادت کو خوف آ گیا جو کہ ہم نے کرپشن کے خلاف مہم چلائی اگر اراکین نے اعتماد کا اظہار نہ کیا تو میں اپوزیشن میں چلا جاٶں گا الیکشن کمشنر نے ایک اجلاس کے بعد عمران خان کے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہمیں کام کرنے دیا جائے اداروں پر کیچڑ نہ اچھالا جائے دوسری جانب ویڈیو سکینڈل پر الیکشن کمیشن کا پانچ رکنی بنچ پی ٹی آئی کے فرخ حبیب اور کنول شوذب کی درخواست پر 11 مارچ کو سماعت کرے گا

پاکستانی تاریخ میں کسی وزیر اعظم کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینا پہلی بار نہیں بلکہ یہ دوسری بار ہوا ہے 27 مئی 1993 کو میاں نواز شریف نے ایوان سے اعتماد کاووٹ لیا تھا اس سے 40 روز قبل صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت کو برطرف کر دیا تھا ایک روز قبل سپریم کورٹ نے انہیں بحال کیا تو انہوں نے ووٹ لیا قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل ایوان کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں اور مسلم لیگ کے کارکنوں کے درمیان صورتحال انتہائی کشیدہ رہی سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور مصدق ملک کی تو ہاتھا پائی تک ہوئی ایوان میں اپوزیشن نے اپبنی نشستوں پر ووٹ کو عزت دو کے بینرز رکھ دئیے ایوان میں جماعت اسلامی کے عبدالاکبر چترالی بھی موجود تھے بقول وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید وزیر اعظم عمران خان اب نئے سرے سے اپنی وزارت کا آغاز کریں گے تو ان پر یہ بھی لازم ہے اب وہ اقتدار کی اس چھپن چھپائی میں عوام کو بھی شامل کرے ان کی حالت پر بھی رحم کرے کیونکہ ان مقدس ایوانوں میں آج تک جتنے بھی شہسوار پہنچے انہوں نے خود کو تو سنوارا بہت کچھ بنایا مگر عوام کو ادھیڑا ان کا ستیاناس کیا ان کا جینا دوبھر کیا جب یہ لوگ اپنے اپنے مفادات کی وجہ سے ووٹ پارٹی کی بجائے کسی دوسری پارٹی کو دیتے ہیں تو کہتے ہیں یہ ضمیر کی آواز تھی لعنت ان کے ضمیر پر جو ایک دن جاگ جاتا ہے باقی ہمیشہ سویا رہتا ہے یہاں انتہائی بد قسمتی ہے کہ اپوزیشن کا بنیادی کام ان حکومتی اقدامات کی حوصلہ شکنی جو قومی مفادات اور عوام کے خلاف ہوں مگر جب مفادات ہی یکساں ہوں،دل ہی اندر سے ملتے ہوں تو عوام کس کھیت کی مولی ہے اور وہ باضمیر اراکین بھی ناقص پالیسی پر اپنی حکومت کو جھنجھوڑیں مگر ان کا ضمیر کہیں اور پرواز کر رہا ہوتا ہے،کاش کبھی سبھی ہمارے مہربانوں کا ضمیر ہمارے لئے بھی انگڑائی لے لے مگر کبھی نہیں وہ انہیں معزز بناتے ہیں ان کے لئے آواز بلند کرنا ان کے لئے گناہ کبیرہ ہے ۔


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent