Ticker

6/recent/ticker-posts

ضیاء شاہد بھی چل بسے

Zia Shahid also died

تحریر یوسف تھیہم

محترم قارئین کرام، ضیاء شاہد کا نام صحافتی حلقے میں "استاد" کے طور پر جانا جاتاہے ۔ 1945 ء میں پیدا ہونے والے ضیاء شاہد نے اپنی پوری زندگی بطور صحافی و لکھاری بے پناہ خدمات سر انجام دیں ۔بہاولنگر و ملتان سے ابتدائی تعلیم اور پنجاب یونیورسٹی سے اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ صحافت سے منسلک ہو گئے ۔ ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں جائنٹ ایڈیٹر کے طور پر ذمے داریاں ادا کیں اور روزنامہ پاکستان کے بانی ارکان میں شامل ہیں بعد ازاں انہوں نے بطور چیف ایڈیٹر خبریں اور پھر نیا اخبار کا آغاز کیا ۔ ضیاء شاہد نے درجن کے قریب تصانیف لکھی جن میں باتیں سیاست دانوں کی،صحافی کے سفر نامے ،میرا دوست نوازشریف ،سچا و کھرا لیڈر و دیگر قابل ذکر ہیں ۔ میں نے اپنے صحافتی کیرئیر میں ضیاء شاہد کے ادارے کے ساتھ کام تو نہیں کیا لیکن میں ان کی صحافتی جدوجہد سے متاثر ضرور تھا ۔2013ء میں علاقائی رپورٹر کی حیثیت سے روزنامہ اوصاف میں  لکھتا تھا تو خبریں ملتان کی جنوبی پنجاب میں ایک منفرد حیثیت تھی اور ضیاء شاہد کا نام گونجتا تھا ۔ میں نے اپنے صحافتی کیرئیر میں ضیاء شاہد کے متعلق زیادہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی اور نہ ہی میری ان سے کبھی تعارفی ملاقات ہوئی البتہ میں انکے کالم پڑھنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتا تھا ۔ تجسس ہوا ضیاء شاہد کے وفات کے بعد بڑے بڑے نام نمایاں ہوئے جنہوں نے تسلیم کیا کہ وہ بھی ضیاء شاہد کی وجہ سے آج سب کچھ ہیں اور درجنوں دوستوں نے تو فیس بک پر انہیں "استاد" کا لقب دیتے ہوئے انکی خدمات کو سراہا تو کسی نے انکا معترف ہونے کا دعوی کیا ۔ بلاشبہ ضیاء شاہد کا خلاء صحافتی حلقے میں کبھی بھی پُر نہیں کیا جاسکتا ۔بارہ اپریل کو میری بیٹی لاریب زینب کی سالگرہ تھی اور تیرہ اپریل کو کالم نگار خان خدایار چنڑ کے ہمراہ ہمارے دوست نامور کالم نگار چیئرمین نیشنل کالمسٹ کونسل تحسین بخاری کے اعزاز میں نامور شاعر و کالم نگار رازش لیاقت پوری کی جانب سے منعقدہ "تقریب تحسین" میں شرکت کے لئے جانا تھا تو مجھے بارہ اپریل کو بذریعہ وٹس ایپ اور فیس بک اطلاع ملی کہ ضیاء شاہد کا انتقال ہو گیا ہے جسکی تصدیق میں نے خان خدایارچنڑ سے کی چونکہ چنڑ صاحب ضیاء شاہد کے قریبی ساتھی تھے اور دریاۓ ستلج کی آواز بننے کے لئے چنڑ صاحب کی جانب سے منعقدہ تقریب میں ضیاء شاہد حاصل پور آئے

یہ بھی پڑھیں : عطیہ

اور ہیڈ اسلام کے مقام پر ایک عظیم الشان ریلی کی صورت میں دریائے ستلج پہنچ کر یہاں کے باسیوں کے حق میں بات کی انکا جوش، ولولہ اور وطن سے محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ ضیاء شاہد محب وطن اور حق گو بھی تھے ۔خبر غم کی کنفرمیشن کے بعد ایک لمحے کے لئے دکھ بھرے الفاظ میں آہ نکلی اور محسوس ہوا جیسے کوئی اپنا کھو گیا ہو ۔میرا ذاتی خیال تھا کہ صحافت کے روح رواں اور مجھ جیسے سینکڑوں عام صحافیوں کو لکھاری بنانے والے ضیاء شاہد کے ساتھ صحافت کا بھی جنازہ پڑھا دینا چاہئیے کیونکہ درجنوں اسیر صحافت اور نامور لکھاری اللہ کی جانب رخصت ہوچکے ہیں اور شاید الیکٹرانک میڈیا کی رفتار اس قدر زیادہ ہے کہ ہمارے بڑوں کے اندر وہ جذبات اور احساسات ختم ہو گئے ہیں جو 90ء اور 2000ء کی دہائی میں ہوا کرتے تھے اب کوئی سینئر کسی جونئیر کو سیکھا کر راضی نہیں ہے ۔کسی ادارے میں جگہ بنانے کے لئے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور نئے آنے والوں کے لئے رہنمائی کا فقدان ہے ۔چند اچھے لوگوں کیوجہ سے احساسات اور کچھ روایات باقی ہیں جو انکے ساتھ ہی ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہیں ۔ یقینا ضیاء شاہد کی وفات کے ساتھ کئی نام ادھورے ہوکر رہ جائیں گے ۔ضیاء شاہد نے اپنے ادارے میں سینکڑوں صحافیوں کو عام سے خاص بنایا اور انہیں اصول صحافت سیکھائے ان پر شفقت و رہنمائی کی جس بناء پر انکی وفات کے بعد ہر سو "استادضیاء شاہد"کی گونج تھی ۔ ضیاء شاہد نے صحافتی جدوجہد میں 7 ماہ جیل بھی کاٹی اسکے علاوہ انہیں صدر پاکستا

یہ بھی پڑھیں : پی ڈی ایم کے شوکاز نوٹس پر پیپلز پارٹی کا رد عمل


ن کی جانب سے اعلی سول اعزاز "ستارہ امتیاز" اور نواز شریف کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ۔ضیاء شاہد کا آخری کالم انکی رخصتی کی طرف اشارہ تھا جسمیں انہوں نے فلاح انسانیت کے لئے کام کرنے کا درس دیا ۔اپنے بیٹے امتنان شاہد کو اور اپنے ادارے کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہوئے دعائیں دی ۔ ضیاء شاہد اپنے ساتھ یادوں اور ملاقاتوں کا سمندر لے ڈوبے دعاگو ہوں اللہ رب العزت ضیاء شاہد کو جواررحمت میں جگہ عطاء فرمائے اور لواحقین کو صبرِجمیل عطاء فرمائے ،آمین

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent