Ticker

6/recent/ticker-posts

گیلانی کا گریبان بچونگڑے کے ہاتھ؟

Gilani's collar baby's hand?

تحریر جام ایم ڈی گانگا

سرائیکی زبان کی مشہور کہاوت ہے کہ ریاست کوں لگا بھاگ سُوریں سوڑیں پاتیاں.25اپریل کو ضلع بہاول پور کی تحصیل احمد پور شرقیہ شہر میں سابق ایم این اے مخدوم علی حسن گیلانی کے ساتھ سابق وائس چیئرمین بلدیہ احمد پور شرقیہ چودھری مزمل ندیم آرائیں نے سرے بازار اور سرے سڑک جس دیدہ دلیری سے جس طرح کی غنڈہ گردی کی ہے یقین کریں اس واقعے کے بعد احمد پور شرقیہ میں سخت اشتعال کی فضا ہے اس تازہ ترین آرائیں گیلانی کھڑاک کی جیسے ہی سوشل میڈیا پر رونمائی ہوئی پورے ملک میں عمومی اور سرائیکی وسیب میں خصوصی طور پر یکسر اس مسئلے کو ایک لسانی جھگڑا کے طور پر دیکھا یا پیش کیا جا رہا ہے ضلع رحیم یارخان میں جمال دین والی صادق آباد کا ضیاء الحق دور کا پرانا معاملہ ہو یا سابق وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الہی کے دور کا مخدوم احمد محمودکے ساتھ پیش آنے والا خان پور کا واقعہ ہو.روہی تھل کی زمینوں کو بوگس ریکارڈ اور جعل سازی کے ذریعے ہتھیانے کی داستانیں اور شراکت داریاں ہوں یا متروکہ املاک کی تقسیم میں ہونے والے گھپلوں کی گھپلہ سیریز یقین کریں یہی میرے پرامن وطن پاکستان میں فساد کی سب سے بڑی جڑ ہے قبضہ گیر اور حملے آور لوگ اور گروہ طاقت ور، شریر اور بڑے ظالم ہوتے ہیں.جعل ساز اور فراڈیئے بڑے مکار،شاطر اور فتنہ پرور ہوتے ہیں آپ کراچی سے سرائیکی وسیب تک ان معاملات کی غیر جانبدارنہ جانچ پڑتال کریں تو لوٹ مار کے اس حمام کے اندرونی مناظر اچھی طرح دکھائی دیں گے چولستان میں زمینوں کی قبضہ کہانیاں اور شراکت داریوں کے بارے میں آپ حقائق جان کر کانپ اور تڑپ اٹھیں گے اس پر پھر کبھی تفصیل سے بات ہوگی فی الوقت ہم احمد پور شرقیہ میں ایک پلاٹ پر ہونے والے قبضے کے معاملے،اس کے نتیجے میں ہونے والی غنڈی گردی اور مابعد اثرات و خدشات، خطرات کے حوالے سے بات کر رہے ہیں مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے جذبات اور کومنٹس دو معاشی و سیاسی گروپوں کے مذکورہ بالا مسئلے کو مزید گھمبیر بنانے اور بڑھاوا دیتے نظر آتے ہیں حالات کی سنگینی کا شاید ضلعی انتظامیہ کوئی اندازہ نہیں کر پا رہی احمد پور شرقیہ میں کسی وقت بھی آگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں خون کی نالیاں بہتی نظر آ سکتی ہیں یہ آگ اور خون پورے سرائیکی وسیب کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں.اُچ میں عقیدت مندوں کے ساتھ خاصی تعداد میں جنات جمع ہو چکے ہیں جنھیں اللہ کی ایک بندی اور اللہ کے بندے نے قابو کر رکھا اگر اگر یہ کسی طرح وہاں کڑے سے باہر نکل پڑے تو پھر کیا ہوگا اُدھر دوسری طرف آگے بھی کلاشنکوفوں کی صفائی اور بڑی تعداد میں بررود ذخیرہ کر لیا گیا ہے اللہ معاف کرے یہ ایک متوقع تلخ حقیقت ہے جس کے خدشے کا یہاں اظہار کیا گیا ہے اس کو ہرگز ہرگز مبالغہ آرائی نہ سمجھا جائے اس واقعے کے زمینی حقائق اور اس سازش کے تمام کرداروں کو بے نقاب کرکے عوام کو بتایا اور سمجھایا جائے

یہ بھی پڑھیں : سابق سی سی پی او عمر شیخ کی جبری ریٹائرمنٹ کیوں؟

چودھری مزمل ندیم آرائیں اور مخدوم علی حسن گیلانی میں سے کون حق پر اور سچا ہے اور کون جھوٹا ہے یہ حقیقت بھی اب کھل کر سب کے سامنے آ جائے گی سرکاری ایف آئی آر میں لڑائی جھگڑے کے بڑے کردار چودھری مزل آرائیں کو شامل نہ کرکے انتظامیہ نے کس کو اور کیا پیغام دیا ہے اس پر بھی غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ یہ سارا کوئی لانچنگ پروگرام ہے اس پراجیکٹ کے رائیٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کی سوچ اور ارادوں کو بھی باریک بینی سے دکھنا پڑے گا چار مرلہ کمرشل پلاٹ کا جھگڑا یہ جھگڑا اب کہاں تک طول پکڑے گا اور کیا رخ اختیار کرے گا اس بارے صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ پلاٹ کا معاملہ تو بہت جلد نمٹ جائے گا لیکن پلاٹ پر ہونے والے جھگڑے اور غنڈی گردی کی جو بنیاد رکھی گئی ہے وہ شاید ختم ہونے کی بجائے بڑھ جائے یزمان کے علاقے ٹبہ سیمجہ آباد میں غریب سرائیکی بولنے والے لوگوں کی زمینوں اور گھروں پر وہاں کے بااثر چودھریوں کے قبضے اور حملوں کی آہ و پکار کی بازگشت ابھی تک سنائی دے رہی ہے قبضہ گیروں سے تنگ عام لوگوں کی ایسی درجنوں نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں لوگ زخمی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں مگر ان کی اس طرح آواز نہیں اٹھتی جس طرح مخدوم علی حسن گیلانی کے معاملے کی اٹھی ہے سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود سے لیکر سابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی اور بلاول بھٹو زرداری تک سب بول اٹھے ہیں.اچھی بات ہے قبضہ گیری اور ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانا اچھی سوچ ہے مگر یہ آوازیں عام لوگوں اور غریب روہیلوں کےلیے بھی اٹھنی چاہئیں

یہ بھی پڑھیں: پاک فوج نےایس او پیزپرعملدرآمد کیلئےذمہ داری سنبھال لی

محترم قارئین کرام،مزید بات کرنے سے قبل میں آپ کے ساتھ کچھ جزوی معلوم حقائق شیئر کرنا چاہتا ہوں مجھے امید ہے کہ تفصیلات سے ہم سب کو بہت جلد وکیل سرائیکستان پاکستان سرائیکی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری محمد اکبر انصاری صاحب آگاہ کریں گے احمد پور پور کی زمین کے موجودہ مالک پیپلز پارٹی کے ڈویژنل جنرل سیکرٹری و سابق ایم این اے مخدوم علی حسن گیلانی ہیں.بتایا جاتا ہے کہ احمد پور کے پرنس سینما کی یہ زمین علی حسن گیلانی نے میر منظور حسین کے بیٹے اور بیٹیوں سے چنس سال پہلےخرید کی تھی اصل میں یہ متروکہ املاک تھی جسے میر منظور حسین نے 1947کے بعد حکومت پاکستان سے کلیم میں حاصل کیا تھا.دلی کے بعد یہ شخص یہاں پرنس سینما چلاتا رہا ہے. میر منظور کی وفات کے بعد کراچی میں رہائش پذیر اس کا بیٹا آکر اس جائیداد کا اکلوتا مالک بن گیا موجودہ فسادی کردار رانا اختر اس خاندان کا ملازم منشی تھا اُس کی مالک سے کسی بات پر ان بن ہوئی تو اس نے دلی محلہ تحصیلداراں میں رہائش پذیر میر منظور کی بیٹیوں کو تلاش کرکے اس قیمتی جائیداد سے متعلق آگاہ کیا اور ریکارڈ فراہم کیا.جنھوں نے پاکستان آ کر میر منظور حسین کے وارث ہونے اور تقسیم جائیداد کا باقاعدہ دعوی دائر کر دیا فیصلے کے بعد خواتین کے حصے کی جائیداد کی فروخت کا سودا رانا اختر نے مخدوم علی حسن گیلانی سے طے کروا کر قبضہ انہیں دے دیا

گیلانی کا گریبان بچونگڑے کے ہاتھ؟

بعد میں میر منظور کے بیٹے نے بھی اپنا حصہ مخدوم علی حسن گیلانی کو فروخت کر دیا.یوں اس جائیداد کا مالک اوچ شریف کا پیر مخدوم علی حسن گیلانی بن گیا چار مرلے والی کمرشل جگہ خالی پڑی رہی جبکہ باقی بڑے قطعہ زمین کی چار دیواری کرا لی گئی لگ بھگ دس سال بعد یہ حالیہ پھڈا منظر عام پرآیا ہے رانا اختر اس زمین کے چند مرلے کاایک پرانا اقرار نامہ بیع لے کر میدان میں نکل آیا ہے. یاد رہے کہ نہ وہ اس وقت زمین کا مالک ہے اور نہ ہی زمین اس کے قبضے میں ہے یہ وطن عزیز پاکستان کا بہت بڑا المیہ ہے کہ پٹواری بادشاہ کا قلم چل جائے تو وہ لوگوں کو ایک دوسرے کے سر قلم کرنے کی نوبت تک پہنچا دیتا ہے پٹواری کے اس منفی کردار کی اصلاح کب اور کون کرے گا ریکارڈ کی توڑ پھوڑ اور غلط اندراج خسرہ وغیرہ کی وجہ سے ہونے والے جھگڑوں کی بدولت ہمارے تھانوں کی رونقیں اور عدالتیں خاص طور پر وکلاء کے چیمبرز آباد ہیں یوں سمجھیں پٹواری بادشاہ مذکورہ بالا سمیت بہت سارے اور لوگوں کی روزی روٹی کا سامان پیدا کرنے اور گھر گھر فراہمی کا انتظام کرنے والا کل پرزا ہے شاید پٹواری کے اسی کردار کی وجہ سے ہی پٹواری کو پٹواری بادشاہ کہتے ہیں مجھے تو اپنے موضع دنیا پور گانگا تحصیل رحیم یار خان کا خسرہ توڑ پٹواری بادشاہ یاد آگیا ہے ڈپٹی کمشنر رحیم یارخان کو درخواست دینے کے کئی روز گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس کے خلاف کاروائی کا اغاز تک نہیں ہو سکا فائل درخواست اسسٹنٹ کمشنر رحیم یارخان کی الماریوں میں چھپ کے گہری نیند سو چکی ہے خیر چھوڑیں اس پر پھر بات ہوگی یہاں یہ بات اس لیے لکھی ہے کہ علی حسن گیلانی والے معاملے میں بھی پٹواری کے کردار کا بڑا چرچا ہے پولیس اور تحصیل ریونیو آفس کے کچھ لوگوں کے علاوہ سوتیلے بھائی ایم این اے سمیع الحسن گیلانی اور سابق ایم پی اے قاضی عدنان فرید کی پُرچَک اور صادق گڑھ پیلس تک دیگر سیاسی حریفوں کی محبتیں اور مہربانیاں کہاں کہاں اور کس کس رنگ و انداز میں شامل ہیں یہ سازشی سیاسی پہلو بھی آخر ہماری تاریک تاریخ کا حصہ پاترا اور دور جدید کاہائبرڈ بیج ہے یہ چودھری مزمل آرائیں کہاں سے اور کیسے درمیان میں آگیا ہے. رانا اختر نے اپنی صندوق میں پڑے سچے یا، جھوٹےاقرار نامہ بیع کا سودا چودھری مزمل سے کر لیا اور اسے وہی خالی پڑے قیمتی چار مرلے دیکھ دیئے قبضے کے سودے بڑے سستے اور کبھی کبھی تو نیلامی کے بھاؤ بھی مل جاتے ہیں قبضہ گروپس کی آمدنی کے بڑے ذرائع اور تیز رفتار ترقی کا راز بھی یہی ہوتا ہے.بس آگے آپ خود سمجھ دار سمجھ جائیں چودھری مزمل آرائیں اور مخدوم علی حسن گیلانی مسلم لیگ ن میں ایک ساتھ رہے ہیں یوں سمجھیں کہ ایک وقت یہی چودھری صاحب مخدوم صاحب کا چہیتا،لاڈلہ، پیارابچونگڑا تھا اب وہ معاشی کے ساتھ سیاسی طور پر پل بڑھ کر اتنا بڑا اور طاقت ور ہو چکا ہے کہ اسے مخدوم علی حسن جیسے نامور پیر، گدی نشین اور جاگیردار پر بھی کوئی ُُ ُتک ٗ ٗ نہیں پڑی یوں سرے سڑک اس بلونگڑے یا بچونگڑے کے ہاتھ مخدوم علی حسن گیلانی کے گریبان تک پہنچ چکے ہیں یہ تو وہ چیزیں ہیں جو منظر عام پر آئیں ہے اپنی گریبان پکڑے ہوئے چودھری کے سامنے مخدوم دونوں ہاتھ جوڑ کر بھرے مجمعے میں ایسا کھڑا ہے جیسے چوری کرتے ہوئےموقع پر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والا مزارع اپنے مالک کے سامنے کھڑا ہوتا ہے اس آرائیں گیلانی کھڑاک کے بعد پرانی دستاویزات جانچ پڑتال سے معلوم ہوا ہے کہ میر منظور حسین نے ایک کی بجائے بھائی بندی فارمولے کے تحت ملی بھگت کرکے دو کلیم منظور کروائے تھے. ایک بہاول پور میں احمد پور والا اور دوسرا کراچی میں ان لوگوں سے آج تک کسی نے نہیں پوچھا پوچھے بھی کون مل کر تو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے قبضہ گیروں نے روہی چولستان میں مختلف سکیموں کے تحت ہونے والی الاٹ منٹوں کی از سرے نو پڑتال کرکے دیکھ لیں وسیب واسیوں کے حقوق کے سوداگروں، تخت لاہور کے ایجنٹوں،دھرتی کے غداروں اور نام نہاد خدمت گاروں سمیت کئی شکلیں نظر آ جائیں گی بوگس اور اضافی کلیم اور بندر بانٹ الاٹ منٹیں منسوخ کرکے اصل حقداروں کو دی جائیں

یہ بھی پڑھیں : خواب کی تعبیر اچاردیکھںا

مخدوم علی حسن گیلانی آپ کے ساتھ ہونے والے بے دید لوگوں کے اس سلوک پر وسیب کے عوام کی غالب اکثریت کو بڑا دلی افسوس ہوا ہے لیکن وہ کیا کریں اور کیا کر سکتے ہیں یہ ناگ اور بچھو آپ جاگیرداروں وڈیروں کے اپنے پالے ہوئے تو ہیں سرائیکی دانشور مجاہد جتوئی کی بات کم ازکم اب تو سن لیں ُ ُاساڈیاں ترائے نسلاں خرچ تھی گئین انہاں مخدومیں، پیریں، وڈیریں اساڈی زبانوں نہ گالھ سنی اے نہ سمجھی اے. اچھا بھورل ماشاء اللہ ٗ ٗ. منور ضیاء ایڈوکیٹ لکھتے ہیں کہ ُ ُ اوچ واقعہ، سرائیکی قوم پرست صرف سرائیکی وسیب کے لیے آواز اٹھائیں مخدوم یا آباد کار دونوں سرائیکی وسیب کے یکساں دشمن ہیں ٗ

مخدوم علی حسن گیلانی ایک اچھے اور ملنسار انسان ہیں.سرائیکی وسیب کے جاگیرداروں اور وڈیروں کو اب  اپنی آنکھیں کھولنی چاہئیں. یہ واقعہ اور واقعے پر اپنے اور پرائے لوگوں کے جذبات،اظہار رائے اور کومنٹس کو عام نہ سمجھا جائے یہ وقت کے ساتھ آنے والی اندرونی تبدیلیوں کا اشارہ ہیں کس زعم میں نہ رہنا ورنہ لاوارث وسیب واسیوں کی طرح تم بھی خاموشی سے مارے جاؤ گئے.مکافات عمل اور حالات کی ستم ظریفی کی وجہ سے تمھارا وارث بھی کوئی نہیں بنے گا.اکثر جاگیردار وڈیرے یہ کیوں نہیں مانتے کہ اللہ بڑا ہے اگر کسی کی سمجھ میں بات آ جائے تو میں بس یہی کہوں گا کہ

ایں کنوں پہلے جو شکلاں بدلن

اپݨا راج بدلو  اپݨے  مزاج  بدلو

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent