Ticker

6/recent/ticker-posts

قوموں کی ترقی میں نوجوان نسل کا کردار

The role of the young generation in the development of nations

تحریر سید ساجد علی شاہ

قوموں کی ترقی و تنزلی کی تقدیر نوجوان نسل کی اعلی کرداروں پر منحصر ہوا کرتی ہے انسانیت کے آغاز سے لے کر اب تک دنیا کے قوموں کی تنزلی و ترقی ،بربادی و تباہی کی داستانیں اُٹھا کر دیکھ لیجیے کہ پستی کی دلدل میں گری قوم اور اخلاقی گرواٹ کی مثال بننے والی قومیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ جب بھی نوجوان نسل گناہوں کے دلدل میں پھنس گئی بدکاریوں کی حدیں پار کردی اور غیر فطری طورپر جنسی ہوس کو پور ا کرنے کی وباء اپنے اوپر سوار کرلی تووہاں سے اُس قوم کا زوال شروع ہوا آج جب ملک، ریاست، شہر، بستی ،دیہات و کالونی سے کچھ افسوسناک خبریں، حقیقت کا لبادہ اوڑے دبے پائوں موصول ہوتی ہیں تو اُن برباد و ہلاک کی گئی اقوام کی داستانوں کو یاد کرکے دل خون کے آنسو رونے کا من کرتا ہے اور جسم میں پیدا ہونے والی جھرجھریاں یہ کہتی ہیں کہ ہم تباہی کے دہانے پہنچ چکے ہیں قارئین بحیثیت مسلم قوم اور پھر اس کی نوجوان نسل ہونے کے آج ہم کوکہاں ہونا تھا اور ہم جا کدھر کو رہے ہیں آپ خود اندازہ لگالیں کونسی برائی نہیں ہے اس کی نوجوان نسل میں ،جلد امیر بننے کے لالچ اور حرص میں اُٹھائے جانے والے غیرقانونی اقدامات کی وجہ سے نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد سلاخوں کے پیچھے پڑی سڑ رہی ہے جب ذمہ داریاں نہیں ہوتی، روشن مستقبل اور زندگی کا مقصد سامنے نہیں ہوتا تو وقت گذاری کے لئے لہو و لعب کے وہ سامان جس کو مغرب نے بڑی آسانی کے ساتھ پیش کردیا ہے اس میں رات دن ملوث ہورہے ہیں وہ نازیبا فلمیں دیکھنا ہو یا پھرعریانیت بھرے پیغامات کا تبادلہ ، گندی چیزوں کو دیکھ کر اپنی مردانگی ختم کررہی یہ نوجوان نسل ،جب اپنی ہوس کی بھوک مٹتے نہیں دیکھتی تو ایک جانب نشہ کا عادی بن کر ڈرگز کی عادی بنتی ہے تو وہیں اس نشہ کے حصول کے لئے اور جنسی ہوس مٹانے کے لئے غیر فطری طور پر قومِ لوط جن بدکاریوں کے لئے تباہ و برباد کردی گئی تھی اس ہوس کی عادی بنتی جارہی ہے اور اس کے عروج کے لئے سوشیل میڈیا کا سہارا لے رہاہے قوم کے سرپرستان، والدین، قوم کے رہنما سب پریشان ہیں اوراُلجھن کا شکار ہیں کہ کس کو اس تباہی کی وجہ مانیں، سوشل میڈیا کو کوسیں، اسمارٹ فون کو، انٹرنیٹ کے آسانی کے ساتھ فراہمی کو، تربیت کی کمی کو، دوست واحباب کے حلقہ کو، آخر کس کو وجہ مانیں؟ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ایک سولہ سترہ سال کے لڑکے کو نیٹ کی سہولیات کے ساتھ اسمارٹ فون کی کیا ضرورت ہے ؟ گھر میں سسٹم لایا ہے تو اس کو الگ سے کمرے کی ضرورت کیا ہے واقعی ہم قربِ قیامت کے دور سے گذررہے ہیں مگر ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ آج ہم اخلاقی گرواٹ کی ساری حدیں پار کرتے ہوئے آخری سطح پر پہنچ گئے ہیں بظاہر ہماری مسجدیں نمازیوں سے واقعی بھری ہیں، ہمارے چہرے بشرے بھی ماشاء اللہ ہیں مگر اندر کی دنیا بگڑ گئی ہے

یہ بھی پڑھیں : حکومتی سکیم کے مطابق گھر بنانے کے لیے آسان شرائط پر قرضہ کیسے حاصل کیا جائے؟ ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے طریقہ کار بتادیا

اس کے اندر دنیا کی لالچ ایک دوسرے کی کدورت ، بغض و عناد، رچ بس گئی ہے شہروں کے بازار مغربی تنگ لباسوں سے بھرے پڑے ہیں ٹی وی اشتہارات کو دیکھئے وہ ہوس اور جذبات کو اُبھارنے والے ، پھر اب نیٹ کی تیزی اور پھر اسمارٹ فون کی وبا نے بچے بچے کو وقت سے پہلے بالغ کردیا ہے اخلاقی جرائم کی انتہا ہوچکی ہےنئی نسل کی دینی نہج پر تربیت سے انحراف پوری قوم کے لئے بربادی کا ضامن بن سکتا ہے ۔بالغ بچے کو الگ کمرے میں کمپیوٹر سسٹم دے کر تنہائی بتانے نہ دیں تنہائی کا دوست شیطان ہوتا ہے منفی خیالات کے جنم لینے میں دیر نہیں لگتی وقت گذاری کے لئے اس وقت اشیاء کی کمی نہیں بلکہ نوجوان اور بچوں کے پاس وقت کی کمی ہے جب کہ اس سے زیادہ جرائم والی ٹائم پاس گیم، فلمیں بازاروں میں بڑی کم قیمت پر دستیاب ہیں تھوڑی دیر والی یہ فلمیں اور گیمز بچوں اورلڑکوں پر ایسا منفی اثر پیدا کرتے ہیں کہ یہ بچے اور لڑکے بلکہ نوجوان نسل والدین اور سرپرستان کی باغی ہو جاتے ہیں اپنے معاشرے میں آس پاس سماج میں دیکھئے کہ ایسے کتنے لڑکے ہیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر والدین سے جھگڑنے کے بعد گھر چھوڑکر بھاگ گئے بھائیوں سے لڑ بیٹھے، وقت سے پہلے عاشقی سر پر سوار ہوجاتی ہے جو ایام پڑھنے لکھنے کے ہوتے ہیں یہ صاحب عاشقی میں مجنوں کا ریکارڈ توڑنے کی سوچ رہے ہوتے ہیں دس نوجوانوں میں سے ہر چھٹا نوجوان لڑکی لڑکے پر آج عاشقی کا بھوت سوار ہے اگر یہ نہیں تو پھر ہوس کو مٹانے کے لئے کوئی اور راہیں ڈھونڈ رہاہوتا ہے ان ساری اقوام کو آئینہ دکھانے والی اُمت مسلمہ کی یہ نوجوان نسل پتہ ہے کیا کررہی ہے یہ نشہ میں بدمست ہوکر ہوس مٹانے کے لئے نئے نئے طریقے ڈھونڈرہی ہے ،میں والدین سے اور سرپرستان سے صاف صاف اس دورِ پرفتن سے ڈراتے ہوئے کوئی کہے نہ کہے میں ضرور کہوں گا اور صاف کہوں گاکہ زمانہ بدل گیا ہے اعتماد ،یقین کا زمانہ نہیں رہا خود بھی محفوظ رہیں اور اولاد کو بھی محفوظ رہیں یاد رکھیں آج کل یہ پرائیویسی نامی بھوت کا جادو نوجوان نسل پر سر چڑھ کر بول رہاہے اور اس نعرے کے آڑ میں وہ وہ سب کچھ کررہے ہیں جو پورے سماج ومعاشرہ کا سر نیچا کردیتا ہے ۔ انسان نسیان کا پتلا ہے غلطیاں اسی سے سرزد ہوتی ہیں غلطیوں پر ندامت کرکے اللہ سے رجوع کرنا یہ بہت بڑی صفت ہے بعض لوگ کسی کی غلطیاں دیکھنے کے بعد اس چکر میں رہتے ہیں کہ کس طرح اس کو معاشرہ اور سماج میں بدنام کیا جائے اگر ایسا کوئی کررہاہے تو صاف صاف سن لیں کہ آپ اللہ رب العزت کے ستاری والی صفت کے ساتھ چیلنج کررہے ہیں یاد رہے کہ اگر اللہ رب العزت صرف ایک سیکنڈ کے لئے بھی اپنی صفت ستاری ، یعنی گناہوں کی پردہ داری سے دست بردار ہوجائے تو نہ میں آپ کو منھ دکھانے کے لائق رہوں گا نہ آپ میرے، بلکہ دنیا کا کوئی بھی انسان ایک دوسرے کو چہرہ دکھانے کے لائق نہیں رہے گا یہ اللہ کی صفت ستاری کا نتیجہ ہے کہ اللہ ہر ایک کے گناہ اور عیوب کی پردہ داری کرتا ہے اور اس کو معافی کا موقع دیتا ہے

یہ بھی پڑھیں : خود کشی آخر کیوں؟


 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent