Ticker

6/recent/ticker-posts

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ

Syedna Ali Al-Murtada, may Allah be pleased with him

تحریر، خالد محمود ضیاء

نبی اعظم شفیع المذنبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی پوری جماعت محبوب تھی جسکا اظہار آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مختلف اوقات میں کچھ کا خاص نام لے کر بیان و اظہار فرمایا جیسے غزوہ خیبر کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کل یہ پرچم ایک ایسے شخص دوں گا کہ جس کے ہاتھ پر اللہ پاک خیبر کو فتح کرادیں گے اور وہ شخص اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا" محب" اور "محبوب" ہوگا دوسرے دن لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے سب اس بات کی امید رکھتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرچم ان کو عطا فرمادین گے لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی بن ابی طالب کہاں ہیں تو لوگوں نے عرض کیا کہ انکی آنکھوں میں تکلیف ہے اس لیے وہ اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ انکو بلانے کے لیے کسی کو بھیجو تو آپ رضی اللہ عنہ کو بلا کرلایا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا جس سے وہ ایسے اچھے ہوگئے کہ گویا ان کو کوئی تکلیف تھی ہی نہیں اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پرچم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عنایت فرمایا یہ پرچم دینا اس بات کی نشانی تھی کہ آج لشکر کے سالار حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ فاطمہ بنت اسد نے آپکا نام حیدر رکھا اور والد نے علی نام رکھا آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالحسن تھی لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے "ابو تراب" پکارنے کی وجہ سے آپکی کنیت "ابو تراب" مشہور ہوگئی آپ رضی اللہ عنہ کا لقب اسد اللہ اور مرتضی تھا آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں آپ رضی اللہ عنہ والد اور والدہ دونوں جانب سے ہاشمی ہیں آپ رضی اللہ عنہ بچپن ہی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش اور آغوش تربیت میں رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو فرزند کی طرح پالا اور اپنی پیاری بیٹی سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے نکاح کرکے دامادی کا شرف بخشا خود حضرت علی رضی اللہ عنہ قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر مجھے فرمایا کہ وہی بندہ آپ سے محبت کریگا جو سچا مومن ہوگا اور وہی آپ سے بغض و عداوت کریگا جو پکا منافق ہوگا حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم انصار لوگ منافقین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک نے مجھے چار آدمیوں سے خاص محبت کرنے کا حکم دیا ہے لوگوں نے پوچھا وہ کون ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا کہ علی بھی انہیں میں سے ہیں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ علی مجھ میں سے ہیں اور ان میں سے ہوں اور وہ ہر ایمان والے کے ولی ہیں ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کے درمیان مواخات قائم فرمائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آنسوں بہاتے ہوئے آئے اورعرض کی کہ آپ نے میری مواخات قائم نہیں فرمائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میرے بھائی ہو دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور جگہ ارشاد فرمایا کہ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پرندہ کا بھنا ہوا گوشت تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی یا اللہ تو میرے پاس ایسے بندے کو بھیج دے جو تیری مخلوق میں تجھ کو سب سے زیادہ محبوب اور پیارا ہو اور وہ میرے ساتھ پرندے کے اس کھانے میں شریک ہوجائے تو اسی اثناء میں حضرت علی رضی اللہ عنہ آگئے

یہ بھی پڑھیں : رحمان کے راستے پر چلنے میں ہی دونوں جہانوں کی کامیابی ہے

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پرندہ کے بھنے ہوئے گوشت کے کھانے میں شریک ہو گئے ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر روانہ فرمایا جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ یا اللہ مجھے اس وقت موت نہ دینا جب تک تو مجھے علی کو نہ دکھا دے، خود حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں اور ان کے والدین سے محبت کی تو وہ قیامت کے دن میرے درجہ میں میرے ساتھ ہوگا اور جگہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں بیمار تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے تو میں کہہ رہا تھا کہ یا اللہ اگر میری موت کا وقت قریب ہے تو مجھ کو راحت عطا فرما دے اور اگر موت دور ہے تو مجھے فراخی کی زندگی عطا فرما اور اگر یہ بیماری تیری طرف سے آزمائش ہے تو مجھ کو صبر کی توفیق عطا فرما تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ یہ تو نے کیا کہا تو میں نے وہ دعا دہرا دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک مارا اور میرے لئے دعا فرمائی کہ یا اللہ اس کو عافیت عطا فرما تو حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد مجھے کبھی وہ تکلیف نہیں ہوئی اور جگہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہےکہ لوگوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کو شدید گرمی کے موسم میں سردی کے موسم کے کپڑے پہنے ہوئے دیکھتے ہیں اور سردی کے موسم میں گرمی کے کپڑے پہنے ہوئے دیکھتے ہیں اور پسینہ پونجھتا ہوا دیکھتے ہیں تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جوابا فرمایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ میرے لیے دعا فرمائی کہ یا اللہ گرمی اور سردی کو اس سے دور رکھ تو اس کے بعد سے نہ تو میں نے آج تک گرمی کی شدت محسوس کی اور نہ ہی سردی کی اور غدیر خم کے نزول اور قیام کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ یا اللہ میں جسکا دوست ہوں تو یہ علی بھی اس کے دوست ہیں یا اللہ جو علی سے دوستی رکھے تو اس سے دوستی فرما اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن کا قاضی بناکر بھیجنے لگے تو میں نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نو عمر ہوں مجھے قضاء کا تجربہ اور مکمل علم نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا کہ اللہ پاک آپ کے دل کی رہنما ئی فرمائے گا اور زبان کو مضبوط رکھے گا اور فرمایا جب بھی کوئی فیصلہ آئے تو ایک آدمی کی بات سن کر کبھی فیصلہ نہ کرنا جب تک کہ دوسرے کی بات نہ سن لو یہ طریقہ تیرے لیے مفید اور کار آمد ثابت ہو گا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا اور تعلیم کے بعد مجھے کسی فیصلہ کرنے کے بارے میں شک وشبہ پیدا نہیں ہوا ایک اور موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ اللہ علی پر رحم فرمائے اور فرمایا یااللہ علی جہاں کہیں بھی ہوں حق اس کے ساتھ رہے حضرت صہیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ پہلی امتوں میں سب سے زیادہ شقی اور بد بخت کون تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قوم ثمود کا وہ آدمی بدبخت تھا جس نے اس اونٹنی کو مار ڈالا جو اللہ نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعا سے بطورمعجزہ پتھر کی چٹان سے پیدا فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تونے درست جواب دیا پھر فرمایا کہ اچھا بعد کے لوگوں میں سب سے زیادہ شقی اور بدبخت کون ہوگا اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ مجھے اسکا علم نہیں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر کے اگلے حصہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا وہ شخص انتہائی بد بخت اور شقی ہوگا جو تلوار سے تیری اس جگہ پر ضرب لگائے گا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے اے عراق والو میں چاہتا ہوں کہ تم میں سے کوئی شقی اور بد بخت ترین اٹھے اور میری اس داڑھی کو رنگ دے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تیس سال بعد بالکل اسی طرح آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی، 5سال تک مسند خلافت پر فائز رہے 63 سال کی عمر میں 17 رمضان المبارک سن 40 ھ میں کوفہ میں فجر کی نماز کے وقت معمول کے مطابق الصلوۃ، الصلوۃ کہتے ہوئے مسجد کی طرف جارہے تھے کہ راستہ میں شقی ترین بد بخت ابن ملجم نے چھپ کر آپ رضی اللہ عنہ کی پیشانی مبارک پر اچانک تلوار سے حملہ کردیا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ جام شہادت نوش فرما گئے جبکہ قاتل بھاگنے لگا تو لوگوں نے تعاقب کرکے قاتل کو پکڑ لیا اور اس کو قتل کر دیا گیا،غیظ و غضب سے بھرے لوگوں نے ابن ملجم کی لاش کو جلا دیا یوں قاتل واصل جہنم ہوگیا آپ رضی اللہ عنہ بڑے زاہد، تہجد گزار، پرہیز گار، شب بیدار تھے، روتے روتے رات گزارتے، آپ رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سچی محبت و عقیدت نصیب فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent