Ticker

6/recent/ticker-posts

مہنگائی کی چکی میں پستی عوام

People in the mill of inflation

تحریر سیدساجد علی شاہ
کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور دشمن کے قبضے سے اپنی شہ رگ کو چھڑوانا ہماری ذمہ داری ہے اب وقت آ گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں حکمرانوں کو اب آنکھیں کھول لینی چاہئیں۔ سفارتکاری اور ہر محاذ پر اقوام عالم کو باور کروانے کا وقت آ گیا ہے۔ یہی وقت ہے قائد اعظم محمد علی جناح کے پیغام پر عمل کرنے کا اور حکمرانوں کو سوچنے اور اصلاح کا, اب ذرا بات ہو جائے موجودہ حکومت کی تین سالہ کارکردگی کی شاہد میرا دوست ہے اور وہ ایک پرائیویٹ کمپنی میں 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم ہے اس کے چھ بچے ہیں چار سکول جاتے ہیں پانچواں تین سال  کا ہے اور چھٹا ابھی چھ ماہ کا  ہے 15 ہزار روپے کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے کہ 10 ہزار روپے میں کچن کے لیے دال سبزی کا سامان آتا ہے اور اوسطاً پانچ ہزار روپے بجلی اور گیس کا بل ادا ہوتا ہے۔ صرف دو فرائض کی ادائیگی میں تنخواہ ختم ہو جاتی ہے ابھی گھر کا کرایہ، دفتر آنے جانے کا کرایہ، ڈاکٹر دوائی کے اخراجات، خوشی غم پر دینا دلانا اور بچوں کے کپڑوں کھلونوں جیسی خواہشات کی تکمیل ادھوری ہے ان خراجات کے لیے رقم ادھار مانگ کرپوری کرتا ہے۔ محلے کے دکاندار کے پاس تین ماہ ادھار کا بل بن چکا ہے آج دوپہر کھانے کی بریک پر وہ اس سوچ میں گم تھا کہ دو سال قبل 10 ہزار روپے ماہانہ پر گزرا ہو جاتا تھا لیکن آج 15 ہزار روپے میں آدھے اخراجات پورے نہیں ہوتے ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ٹی وی پر خبر چلی کہ پاکستانی عوام کے لیے خوش خبری ہے جولائی 2020 سے فروری 2021 تک لارج مینوفیکچرنگ یونٹس کی پیداوار میں 7.9 فیصد اضافہ ہوا ہے پاکستان بیورو آف سٹیٹکس کے مطابق پچھلے پانچ ماہ میں یہ اضافہ مسلسل ہو رہا ہے جو کہ معاشی ترقی کی طرف اشارہ ہے۔ پچھلے سال جنوری 2020 کی نسبت جنوری 2021 میں یہ اضافہ تقریباً نو فیصد ہے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کمزور مالیاتی اداروں، بے جا حکومتی اخراجات اور کرپشن کی وجہ سے غربت اور مہنگائی کی شرح میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے ان حالات میں عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول دن بدن دشوار ہوتا جا رہا ہےبڑھتی ہوئی مہنگائی اورغربت شاید پاکستان کی تقدیر کاحصہ بن چکی ہے سیاسی اور قانونی بحرانوں کے بعد اب ملک میں بڑھتے ہوئے حالیہ اقتصادی بحران نے جو شدت اختیار کی ہے اس سے نمٹنا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہےسال کے آغاز پر حکومت نے بتایا تھا کہ رواں سال شرح نمو منفی ڈھائی فیصد رہے گی لیکن سات ماہ بعد ملک میں ہونے والے ترقی یافتہ کاموں کی بدولت یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ اس سال کے اختتام پر جی ڈی پی مثبت ہو سکتی ہے اکرم ان اعداد و شمار کو سمجھنے سے قاصر تھا اس نے معصومانہ انداز میں اپنے ساتھی سے پوچھا، ’کیا مہنگائی کم ہو گئی ہے، آٹا اور چینی سستے ہو گئے ہیں، بجلی کم ریٹ پر مل رہی ہے پیٹرول سستا ہو گیا ہے، سکول کی فیس کم ہو گئی ہے؟ ان تمام سوالات کے جوابات نفی میں تھے اس نے کہا کہ ’مجھے کیا مطلب کہ کون سے اشارے بہتر ہو رہے ہیں اور کس کی پیدوار بڑھ رہی ہے میرے لیے تو خوشخبری اس وقت ہوگی جب میرے اخراجات میری آمدن میں سے پورے ہونے لگیں گے اور مجھے ادھار نہیں لینا پڑے گا حکومت کی پہلی آئینی ذمہ داری یہ  ہوتی ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھے اور ان کو اس حد تک نہ بڑھنے دے کہ وہ غریب آدمی کی پہنچ سے باہر ہونے لگیں

یہ بھی پڑھیں : یونین کونسل ناڑ شیر علی خان


 مہنگائی کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو رہیں گزشتہ دنوں مہنگائی کے ایجنڈے پر وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس بلایا گیا تاکہ ان عوامل پر غور کیا جا سکے جو اشیاء کی قیمتوں کے بڑھنے کا باعث بن رہے ہیں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں بتایا گیا کہ حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کر لیا ہے جن کے نتیجے میں اشیاء کی قیمتیں کم ہو جائیں گی اور عوام کو ریلیف ملے گا عام آدمی خاص طور پر دیہاڑی دار طبقہ کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے انتہائی پریشان ہیں افسوس کی بات یہ ہے کہ معاشی پالیسی بنانے والوں میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جس کو معلوم ہو کہ بھوک اور مہنگائی کیا ہوتی ہے-معاشی ماہرین کے مطابق اس سال اشیاء کی قیمتوں میں جو غیر معمولی اضافہ ہوا ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوا ایک نان جو دس روپے کا فروخت ہو رہا تھا اب پندرہ روپے کا فروخت ہو رہا ہے گزشتہ سال کے مقابلے میں آٹے کی قیمت میں 60 فیصد اضافہ چینی میں 30 فیصد اضافہ مسور کی دال میں 25 فیصد اضافہ مونگ کی دال میں 40 فیصد اضافہ ماش کی دال میں 30 فیصد اضافہ اور کوکنگ آئل میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے جو انتہائی غیر معمولی ہے اور جس کی وجہ سے عوام کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہیں یہی حال سبزیوں کی قیمتوں کا ہے-پاکستان کے غریب عوام کی حالت اس مصرے کی طرح ہے "خون بیچ کر روٹی خرید لایا ہوں"حقیقت یہ ہے کہ پاکستان سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ معاشی نظام میں مہنگائی، غربت، بے روزگاری، محرومی اور ناانصافی اس نظام کی سرشت اور فطرت میں شامل ہے ریاستی نظام مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے مافیاز کے سامنے ریاست حکومت، عدلیہ، پولیس اور دیگر ریاستی ادارے سب بے بس نظر آرہے ہیں موجودہ حکومت ذخیرہ اندوزوں سپلائی میں تعطل پیدا کرنے والوں اور سمگلنگ میں ملوث عناصر کو قابو کر کے آئین اور قانون کے شکنجے میں نہیں لاسکی جو اس کی بے بسی ناکامی نااہلی اور بدانتظامی کا بہت بڑا ثبوت ہے پاکستان میں اگر زرعی شعبے کی جانب توجہ دی جاتی تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی  افسوس یہ ہے کہ حکومتوں نے اپنے مخصوص مفادات کے تابع زرعی شعبے کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے- ماہرین کے مطابق زرعی شعبے میں اس قدر صلاحیت اور اہلیت موجود ہے کہ ہم گرین انقلاب لا کر پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں تین سالوں سے حکومت اور وزراء مہنگائی کا ذمہ پچھلی حکومتوں پر ڈالتے نظر آرہے ہیں اور دوسری جانب جلد اچھے دن آنے کا لارا لگا کر عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا  ہے عوام پر آئی ایم ایف کی جانب سے گزشتہ 15 دنوں میں 15 سو ارب روپے سے زائد کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے شاید ابھی بھی حکومت کو پناہ گاہ کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آرہا قوم کو پناہ گاہیں اور لنگرخانے کا نہیں بلکہ مضبوط معاشی نظام چاہیے جو ان کو پریشانیوں سے نجات دے۔اگر حکمرانوں نے مہنگائی پر قابو نہ پایا گیا تو ملک میں باقی نظام کو لیکر چلنا کافی مشکل ہوگا جن قوموں نے ترقی کی ہے انہوں نے سب سے پہلے ملک میں مہنگائی کے نظام کو کنٹرول کیا ہےاس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ حکومت برسر اقتدار کے آنے کے بعد سے ہی مہنگائی پر قابو پانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے تاہم اس میں کوئی خاطر خواہ نتائج اب تک برآمد نہیں  ہوسکے، ناقص پالیسیوں کی بدولت 2020 میں تقریبا 20  کروڑ افراد سطح غربت سے نیچے جا چکے ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے جب کہ حکومت کے غیر دانشمندان اقدامات کی بدولت عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے اشیائے خوردو نوش کے ساتھ ساتھ پیٹرولیم مصنوعات میں بھی عوام سے ظلم کیا جا رہا ہے عوام کو ریلیف، ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور چوروں لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے سمیت تحریک انصاف کے تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں جس کے نتیجہ میں روزمرہ کی اشیاء اتنی بڑھ گئی ہیں کہ غریب آدمی ان تک پہنچ ہی نہیں سکتے عام آدمی پہلے ہی غربت اور تنگدستی کے ہاتھوں مجبور ہو کر بہت تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور تھے اوراب دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا گیا ہے اقتدار کی رنگینوں میں مگن حکمرانوں نے تبدیلی کے نام پر عوام کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے مہنگائی پر قابو پانا حکومت کے لیے اب بھی چیلنج سے کم نہیں، مافیاز کو کنٹرول کیا جائے اگر اس مہنگائی مافیا کو قابو نہ کیا گیا تو حکومت کو ایک اور بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا

یہ بھی پڑھیں : سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ سندھ میں نوکریاں

جب تک موجودہ سیاسی جمہوری انتخابی اور معاشی نظام تبدیل نہیں ہو جاتا اس وقت تک عوام کے مسائل حل نہیں ہوسکتے- سٹیٹس پر مبنی اس مضبوط اور مستحکم نظام کو تبدیل کرنے کیلئے لازم ہے کہ عوام بیدار باشعور اور منظم ہوں تاکہ عوامی طاقت سے موجودہ نظام کو ختم کرکے ایک ایسا پاکستانی نظام نافذ کیا جا سکے جو منصفانہ اور مساویانہ ہو اور جس میں پاکستان کے تمام شہریوں کو ان کے بنیادی حقوق مل سکیں اور وہ عزت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکیں-حکومت کی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ہرطرف نفسا نفسی کا عالم ہے یہ ناکام پالیسیاں ملک کو ترقی کی بجائے ناکام ریاست بنانے کی طرف لے کر جارہی ہیں اگر موجودہ حکمران جماعت نے آئے روز بجلی، گیس، پٹرولیم مصنوعات سمیت اشیائے ضروریہ کے نرخ بڑھانے کی روش کو ترک نہ کیا تو ملکی حالات مزید گھمبیر ہوجائیں گے اور جن کو حکومت وقت سنھبل نہ پائے گی
مہنگائی کی چکی میں پستی عوام

 

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent