Ticker

6/recent/ticker-posts

قافلہ حریت کے پاسبان

Guard of the Hurriyat caravan

کالم نگار، سید ساجد علی شاہ 
وطن عزیز کا استحکام کلمہ طیبہ سے وابستہ ہے اور پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا اور آج وطن عزیز کی سالمیت خطرے میں ہے ملک دشمن قوتیں پاکستان کے خلاف ناپاک عزائم رکھتی ہیں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں اس لئے ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم اپنے اتحاد کے ذریعے دشمن کے عزائم کو ناکام بنائیں جمعیت علماء اسلام وطن عزیز کی دینی و سیاسی بڑی جماعت ہے جس کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان ہیں گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمان سے اسلام آباد میں جمعیت علماء اسلام ضلع رحیم یارخان کے ایک وفد نے ملاقات کی رحیم یارخان سے آنے والے وفد کی قیادت جمعیت علماء اسلام تحصیل رحیم یارخان کے امیر و ضلعی مسئول وفاق المدارس العربیہ مولانا قاری عامر فاروق عباسی نے کی جبکہ وفد میں جے یو آئی کے مرکزی رہنماء قاری ظفر اقبال شریف، تحصیل خان پور کے امیر مولانا احمد الرحمن درخواستی ،میاں انس ظفر،ملک اعجاز ودیگر شامل تھے وفد سے ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمان کی جماعتی، نئی اسلامی طالبان حکومت، وفاق المدارس بورڈ اور موجودہ حکمرانوں کی کارکردگی سمیت دیگر امور پر تبادلہ خیال  کے علاوہ ضلع رحیم یار خان میں 21 نومبر کو ہونے والی عظیم الشان "ختم نبوت کانفرنس" پر بھی تفصیلی مشاورت کی گئی اس موقع پر مولانا صلاح الدین ایوبی اور سابق وزیر حمید اللہ جان بھی موجود تھے جمیعت علماء اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے وفد سے گفتگو میں افغانستان میں "نئی طالبان حکومت" تحریک اسلامی طالبان افغانستان کی 20 سالہ طویل جدوجہد کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے انہیں ہمہ قسم کے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نئی طالبان حکومت کے امیر مولوی بیبة اللہ اور ان کے تمام رفقاء کو اس عظیم کامیابی ہر مبارکباد ہیش کرتے ہیں جمعیت علماء اسلام نے روز اول ہی سے امریکا اور نیٹو افواج کے افغانستان پر حملے کو جارحیت اور تجاوز جب کہ طالبان کی مزاحمت کو جائز دفاع قرار دیا تھا مخلصانہ قربانیوں کے بعد اللہ تعالی کی مدد اور تائید سے طالبان نے اپنے وطن افغانستان کو عالمی قوتوں سے آزاد کرا دیا ہے ہم افغانستان کی عوام کو بالخصوص اور امت مسلمہ کو بالعموم مبارکباد کا مستحق قرار دیتے ہیں طالبان قیادت نے فتوحات حاصل کرنے کے بعد امن، خیر سگالی اور مفاہمت کی پالیسی کے ساتھ جس نئے نظام کا آغاز کیا ہے جمعیت علماء اسلام اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ہم یہ توقع رکھیں گے کہ اسی خلوص اور تدبر کے ساتھ بہتر حکمت عملی کے ذریعہ ایک پرامن اور مستحکم اسلامی افغانستان کی تشکیل میں کامیاب ہوں گے جمعیت علما اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وفاق المدارس العربیہ کے حوالے سے کہا کہ عالمی قوتیں ہمارے وفاق المدارس بورڈ کو توڑنا چاہتی ہیں اور اس حوالے سے متعدد کوششیں کرچکے ہیں دینی مدارس برطانوی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی جدوجہد کرچکے ہیں عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ وطن عزیز میں کیسا کھیل کیھلا جارہا ہے ہمارے ایمان پر کس طرح حملے کیے جا رہے ہیں ہمارے اخلاص کو جس طرح کچلا جا رہا ہے اور ہمیں جس طرح بے حیائی کی دلدل میں دھکیلا جا رہا ہے اس سے بچاو کی ایک ہی صورت نظر آ رہی  ہے کہ ہم صحیح معنوں میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں پہن لیں

یہ بھی پڑھیں : انسداد جبری مذہب بل, غیر اسلامی اور غیر آئینی

مولانا فضل الرحمان کا موجودہ حکومت کے حوالے سے کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ریاست مدینہ کا پر فریب نعرہ لگا کر برسراقتدار تو آگئی مگر سلیکٹیڈ و نااہل حکمرانوں نے عوام کو مہنگائی کے سوا کچھ نہیں دیا حکمران ناکام ہو چکے ہیں آفسوس کی بات یہ ہے کہ معاشی پالیسی بنانے والوں میں کوئی ایک بھی فرد ایسا نہیں ہے جس کو معلوم ہو کہ بھوک اور مہنگائی کیا ہوتی ہے پاکستان کے سرمایہ اور جاگیر دارانہ معاشی نظام میں مہنگائی، غربت،بے روزگای،محرومی اور ناانصافی اس نظام کی سرشست اور فطرت میں شامل ہے ریاستی نظام مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے مافیاز کے سامنے ریاست، حکومت، عدلیہ،پولیس سمیت دیگر ادارے سب بےبس نظر آرہے ہیں اور اب الیکشن کمشنر کو متنازع بنا رہے ہیں آزمودہ اور غیر متنازعہ انتخابی سسٹم کی بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات پہ اصرار قومی اداروں کو دانستہ تنازعات میں الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے پی ٹی آئی کی حکومت اپنے تین سالہ دور اقتدار میں ہمیشہ  قومی اداروں کی ساکھ پہ گھٹیا حملے کرتی چلے آرہی ہے موجودہ حکمرانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ واقعی بیرونی ایجنڈے پر کار فرما ہیں جس کا منہ بولتا ثبوت موجودہ جبری تبدیلی مذہب بل ہے مولانا فضل الرحمان نے جبری مذہب بل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل مکمل طور پر غیر اسلامی غیر آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق ہر فرد کو مذہب کے اختیار میں مکمل آزادی حاصل ہے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا سکتی حکومت یہ بل پارلیمنٹ میں لانے سے پہلے اس کے لئے لابنگ کررہی ہے ہم سمجھتے ہیں کہ دراصل بیرونی ایجنڈے پرکبھی ہمارے خاندانی نظام کی بربادی کے لیے گھریلو تشدد بل لایا جاتا ہے اور کبھی مذہب کا معاشرہ میں متحرک اورمؤثر کردارختم کرنے کے لیے وقف املاک بل لا کر مرضی کے قوانین وضع کیے جاتے ہیں اب تبدیلی مذہب کے عنوان سے اٹھارہ سال سے کم عمر افراد پر قبول اسلام روکنے کے لیے قانون سازی کی مہم جاری ہے جو درحقیقت اسلام مخالف قوانین کو پاکستانی اکثریتی مسلم آبادی پر مسلط کرنے کی منظم منصوبہ بندی ہے،ہمارے نزدیک یہ بل جبری تبدیلی مذہب کو روکنے کا بل نہیں ،بلکہ اسلام کو قبول کرنے سے جبراً روکنے کا بل ہے اسلام ہرعمرکے افرادکے قبول اسلام کا خیر مقدم کرتا ہے پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے اسلام ہی ہمارے وطن کی شناخت اور پہچان ہے ہم اس ملک کی شناخت کو دھندلانے اور اسلام کے تشخص کو مٹانے کی ہرسازش کو ناکام بنا دیں گے اور ایسے تمام غیرآئینی ہتھکنڈوں اور اسلام سے متصادم قانون سازی کی مخالفت کریں گے بعد ازاں وفد نے جمیعت علماء اسلام کے مرکزی جنرل سیکرٹری مولانا عبد الغفور حیدری اور جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ سے بھی ملاقات کی
قافلہ حریت کے پاسبان

انسان کی پیدائش کے دن سے لے کر اس کے اپنے پاوں ہر کھڑے ہونے تک اس کی کامیابیوں اور کامرانیوں میں اس کے والدین کا عظیم و ناقابل فراموش کردار کار فرما ہوتا ہے دوسری جانیب دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان اس عظیم باپ مفکر اسلام مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ تعالی کے عظیم بیٹے ہیں مولانا مفتی محمود نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی عظیم علمی اور سیاسی شخصیت کے مالک تھے ان کے لازوال علمی، دینی و سیاسی خدمات سے معمور تھی مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ تعالی کی سیاسی خدمات میں اولین چیز علماء کی سیاسی بیداری میں بنیادی کردار ہے آپ نے اتحادی سیاست میں جمعیت علماء اسلام کو اہم کردار کا حامل بنایا مشرقی پاکستان کی علیدگی کو روکنے کی بھی کوششیں کیں دینی و سیاسی تحریکات میں اہم کردار ادا کیا ملکی مسائل کے بارے میں حکمت عملی مرتب کی 1973ء کے آئین میں اسلامی شقیں شامل کرنے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا سیاست کی پرخار وادی میں مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ تعالی نے مخالفین کے نو قاتلانہ حملوں کا بھی سامنا کیا اور متعدد بار گرفتار بھی ہوئے مولانا مفتی محمود رحمتہ اللہ تعالی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمن ان کے جانیشن بنے، مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جمعیت علماء اسلام 1981ء میں تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) کا حصہ بنی اس وقت مولانا فضل الرحمن کی سیاسی عمر لگ بھگ ایک سال کے قریب تھی، یوں اگر یہ کہا جائے کہ مولانا فضل الرحمن کے سیاسی سفر کا آغاز انتہائی مشکل تھا تو بے جا غلط نہ ہوگا مارشل لاء سختی سے نافذ تھا اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی تھی سیاسی سرگرمیوں میں حصے لینے والے افراد گرفتار کر لیے جاتے، بڑی دینی شخصیات جیلوں میں تھیں،مولانا مفتی محمود نے اپنی وفات سے قبل تحریک بحالی جمہوریت میں شامل ہونے کا جو وعدہ کیا تھا وہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے والد گرامی مولانا مفتی محمود کے وعدے کا پاس کیا اور اس سلسلے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں ہمارے ملک کے باآثر اکثر سیاسی جماعتوں کے رہنما آمریت کی پیداوار سمجھے جاتے ہیں لیکن مولانا فضل الرحمن اپنی دھن کے پکے جمہوریت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس جدوجہد کی ہر کہانی کا "عنوان" بن جاتے ہیں اور مولانا جو کہتے ہیں وہ کر گزرتے ہیں آمریت کی پیداوار سیاستدان ان کے قدکاٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتے

یہ بھی پڑھیں : ڈی ایس پی کو رشوت کی پیشکش، ایس ایچ او حوالات پہنچ گیا

مولانا فضل الرحمن نے اپنے والد گرامی مولانا مفتی محمود کی سیاسی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستان ہیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی سیکولر جماعتوں کے ساتھ  سیاسی تعلقات و روابط بھی رکھے اور ان کے ساتھ اتحاد بھی بنائے اور بلوچستان میں مخلوط حکومتیں بھی بنائیں آج سے 44 سال قبل 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ مفتی محمود تھے جبکہ اب حزب اختلاف کی جماعتوں کے نئے اتحاد " پی ڈی ایم" کے سربراہ، جمعیت علماء اسلام پاکستان کے مرکزی امیر  مولانا فضل الرحمن ہیں،کسی بھی شعبے میں تمام لوگ برے نہیں ہوتے اور آج مولانا مفتی محمود کے فرزند ارجمند و جانشین مولانا فضل الرحمن نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنے والد کی طرح اسی انقلابی قافلہ حریت کا تسلسل ہیں ہمارے موجودہ سیاستدانوں کی کھیپ میں وہ سب سے بڑھ کر سیاست کی باریکیوں اور نزاکتوں کو سمجھتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ وہ جذبہ حریت اور قوت عمل سے بھی مالا مال ہیں، مولانا کی شخصیت میں ہوشمندی اور معاملہ فہمی کا ایسا توازن ہے کہ بیک وقت مختلف الخیال لوگوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent