Ticker

6/recent/ticker-posts

آپو اپنی پے گئی جے

Has fallen on its own

تحریرمیاں حبیب
صیح کہتے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں  اور پاکستانی سیاست تو ویسے ہی بڑی بے رحم ہے مطلب کے بغیر کوئی سلام بھی نہیں لیتا حال ہی میں لاہور میں ہونے والے ضمنی انتخابات  نے بہت کچھ آشکار کر دیا ہے ان انتخابات میں  حکومت اپنی غلطی کی وجہ سے یا جان بوجھ کر  الیکشن سے باہر ہوئی  لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومتی امیدوار کے بغیر الیکشن کا رنگ جم نہیں پایا پھیکا پھیکا سا الیکشن تھا اپوزیشن بمقابلہ اپوزیشن تھی نہ حکومت پر مداخلت کا کوئی الزام لگ سکا نہ اداروں کی مداخلت  کا رونا رویا گیا پولیس اور انتظامیہ بھی شریف بنی رہی چارو ناچار میدان میں موجود اتحادی جماعتوں کو ایک دوسرے پر الزام لگا کر کام چلانا پڑا کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ حکومت شکست کے داغ سے بچنے کے لیے انتخابی عمل سے آؤٹ ہوئی ہمیں حکومتی امیدوار جمشید اقبال چیمہ کی وفاداری پر شک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انہوں نے اپنی سیاست کا آغاز تحریک انصاف سے کیا  اور آج تک اسی جماعت کے ساتھ وفاداری نبھا رہے ہیں وہ اچھے بھلے  وزیراعظم کے مشیر تھے کہ الیکشن کے  لیے وہاں سے بھی مستعفی ہوئے  الیکشن بھی نہ لڑ سکے اس لیے  ان کے بارے میں یہ سوچناکہ انہوں نے جان بوجھ کر اپنے کاغذات مسترد کروائے ہوں گے درست نہیں البتہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر یہ کہیں فیصلےکے نتیجے میں بھی ہوا ہے تو یہ حکومت کی زبردست چال ہے ویسے بھی یہ نشست  مسلم لیگ نون کی  تھی اگر حکومت یہ نشست جیت بھی جاتی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا تھا لیکن حکومت نے الیکشن سے باہر ہوکر سیاسی طور پر اتنا کچھ حاصل کر لیا ہے کہ انہوں نے اپنے باقی مدت اقتدار کو محفوظ کر لیا ہے

یہ بھی پڑھیں : عیاشی سے لطف اندوزی کے بعد مرد کے ٹکڑے کردیے،سفاک خاتون گرفتار

اس فیصلے کے ذریعے  انہوں نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان ایک نئی محاذ آرائی پیدا کر کے انھیں آپس میں الجھا دیا ہے  پی ڈی ایم  جو کہ احتجاج کی نئی راہیں تلاش کر رہی تھی اب ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی پر اتری ہوئی ہے پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری نے لاہور میں بیٹھ کر اپنے ٹارگٹ کا اعلان کر دیا ہے وہ اگلے انتخابات میں  پنجاب سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیےمسلم لیگ ن  کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں انھیں پتہ ہے کہ پنجاب سے حصہ وصول کیے بغیر وہ وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتے اس لیے انہوں نے ذہنی طور پر ن لیگ سے راہیں جدا کرلی ہیں وہ قومی سیاست میں اب صرف ن لیگ کو دباؤ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں وہ کسی ایسی سیاسی چال کا حصہ نہیں بنیں گے جس کا فائدہ ن لیگ کو پہنچتا ہو اوپر سے اس ضمنی الیکشن میں دونوں جماعتوں کے قائدین نے ایک دوسرے پر اس قسم کے الزامات عائد کیے ہیں کہ اگر وہاں سے واپسی ہوتی ہے تو دونوں کی سیاست متاثر ہو گی پیپلزپارٹی نے جیسے تیسے بھی ووٹ حاصل کیے ہیں 5ہزار سے 32 ہزار ووٹوں تک پہنچنا بہت بڑی کامیابی ہے یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی ہار کر بھی جشن منا رہی ہے اس الیکشن نے پیپلزپارٹی میں ایک نئی روح پھونک دی ہے پارٹی کے ورکر متحرک ہو گئے ہیں  انہیں امید ہوگئی ہے کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں یہ بھی دلچسپ امر ہے کہ حکومت الیکشن نہ لڑکرخوش ہے مسلم لیگ ن اپنی سیٹ جیت  کر خوش ہے اور پیپلز پارٹی الیکشن ہار کر بھی شادیانے بجا رہی ہے لیکن انتخابات نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ میلہ تحریک انصاف کے ساتھ ہی جچتا ہے تحریک انصاف کے بغیر انتخابات میں صرف 18 فیصد ووٹ پڑے ہیں اس کا مطلب ہے کہ لوگوں نے اس الیکشن سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے آپ کو یاد ہوگا 2013 کے انتخابات سے قبل بھی لوگوں کی انتخابات میں دلچسپی بہت کم رہ گئی تھی 1993 سے 2007 تک جب پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان مقابلہ تھا اور دونوں میں سے ایک کے چناو مقصود ہوتا تھا ان انتخابات میں ووٹ کاسٹ ہونے کا تناسب کم سے کم ترہوتا جا رہاتھا یہ تحریک انصاف ہی تھی کہ جس نے لوگوں  کو سیاسی سسٹم کی طرف دوبارہ راغب کیا لوگوں کی انتخابی عمل میں دلچسپی بڑھائی یہ عمل اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ اگر تحریک انصاف بھی لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اتری تو لوگوں کا اس سیاسی نظام سے اعتماد اٹھ جائے گا
اگلے انتخابات میں اگر ووٹ کم پڑتے ہیں تو عوام کی پاکستان کے سیاسی نظام پر بداعتمادی ہو گی اگر تحریک انصاف لوگوں کی ہوپ برقرار رکھنے میں کامیاب رہی تو اگلے انتخابات میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رہے گی ورنہ کچھ اور سوچنا پڑے گا یہاں یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ کیا تحریک انصاف اور تحریک لبیک کو ضمنی الیکشن سے باہر رکھ کر پیپلزپارٹی کی استعداد چیک کرنے کا موقع تو فراہم نہیں کیا گیا اب تک کے سیاسی حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے تو سہولتیں پیدا کی جا سکتی ہیں لیکن ن لیگ کی دال نہیں گل پا رہی لہذا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی سیاست اب نئی راہیں اختیار کرنے والی ہیں حقیقت یہ ہے کہ اب ساری سیاسی جماعتوں نے اگلے انتخابات کی تیاریاں شروع کر دی ہیں ہر ایک کو آپو اپنی پڑ گئی ہے اس لیے اب کسی سیاسی تحریک کا کوئی امکان نہیں سیاسی پرندوں نے نئے سفر کی تیاریاں شروع کردی ہیں

یہ بھی پڑھیں : نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور پنجاب کی تقسیم

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent