Ticker

6/recent/ticker-posts

نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور پنجاب کی تقسیم

New Local Government Act and Partition of Punjab

تحریر ڈاکٹر محمد ممتاز مونس
drmumtazmunis@gmail.com

 پورے ضلع کا ایک طاقتور لارڈ میئر یا ڈسٹرکٹ میئر بنا کر تمام نئے صوبے بنانے والی تحریکوں کو بے جان کر دیا گیا بڑے پیمانے پر عوام کو نمائندگی ملے گی اور جمہوریت مضبوط ہوگی۔
وطن عزیز میں سیاسی جماعتوں نے جب بھی اقتدار حاصل کیا جمہوریت کی نرسری یعنی بلدیاتی اداروں کو نا صرف تباہ و برباد کیا بلکہ انہیں کبھی پنپنے نہیں دیا۔ موجودہ حکومت پر بھی یہی الزام تھا کہ اس نے منتخب بلدیاتی اداروں کو نا صرف معطل کر دیا بلکہ ان کے فنڈز تک روک دئیے اور یوں یہ جمہوریت کی نرسری سسکیاں لینے لگی۔ وزیراعظم عمران خان بلدیاتی انتخابات کرانے کے روز اول سے ہی حامی تھے چونکہ 31دسمبر 2021ء سے موجودہ بلدیاتی اداروں کا مدت مکمل ہونے جا رہی ہے اس پر پنجاب کی صوبائی حکومت نے اب ایک باقاعدہ مسودہ تیار کر لیا ہے۔ سندھ حکومت کے بلدیاتی مسودہ کے بارے میں آج متحدہ قومی موومنٹ‘ مسلم لیگ(ن) اور دوسری جماعتیں سڑکوں پر ہیں اور وہ جان کی بازی لگا کر اسے مسترد کرنا چاہتے ہیں لیکن پنجاب کے بلدیاتی مسودہ کے بارے میں یہاں پر سب سے بڑی اپوزیشن مسلم لیگ(ن) ابھی تک خاموش ہے اس کی خاموشی کو اس بلدیاتی ایکٹ کے حق میں رضا مندی تصور کیا جائے توغلط نہ ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں : وزیراعلی بلوچستان کا نوٹس، ہدایت خلجی نامی شخص خواتین کی برہنہ ویڈیوز بنانے پر گرفتار

پنجاب کے موجودہ بلدیاتی ایکٹ کو اگر جنرل مشرف کے 2003ء کے ایکٹ سے ملایا جائے تو غلط نہ ہو گا بلکہ اندر کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ وہ ایکٹ ہے جو جنرل مشرف نے سب سے پہلے تیار کیا تھا لیکن اسے پوری طاقت ہونے کے باوجود نافذ نہ کر سکے‘ اس ایکٹ کے مندرجات کچھ  اس طرح ہیں کہ 11اضلاع کے لاڈ میئر اور 25اضلاع کے ڈسٹرکٹ میئر ہونگے 11اضلاع میں 9 ڈویژنل ہیڈ کوارٹر یعنی راولپنڈی‘ گوجرانوالہ‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ سرگودھا‘  ساہیوال‘ ملتان‘ ڈی جی خان‘ بہاول پور کے علاوہ دو بڑے صنعتی شہر یعنی گجرات اور سیالکوٹ میں لاڈ میئر ہونگے۔ شہر اور دیہی علاقوں میں یونین کونسل کی طرز پر چھوٹی چھوٹی محلہ کونسل اور گاؤں میں ویلیج کونسل ہونگی یہ سب کے سب لاڈ میئر یا ڈسٹرکٹ میئر کے ماتحت ہونگے اس طرح ایک ڈائریکٹ عوامی ووٹوں سے منتخب انتہائی طاقتور لاڈ میئر یا ڈسٹرکٹ میئر ہو گا جس کے بارے میں بڑے بڑے سیاسی زعماء ابھی سے خواب دیکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ واضح رہے کہ لارڈ میئر‘ ڈسٹرکٹ میئر‘ ویلیج کونسل اور محلہ کونسل سمیت تمام  جماعتی بنیادوں پر ڈائریکٹ عوام سے ووٹ لے کر منتخب ہونگے۔ ان منتخب نمائندوں کو کوئی حکومتی طاقت معطل نہیں کر سکے گی اور یہ پانچ سال اپنے اپنے ضلع کے بے تاج بادشاہ ہونگے۔  اس نظام کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ تحصیل کونسل‘ کارپوریشن‘ میونسپل کمیٹی اور ٹاؤن کمیٹیوں سمیت یونین کونسل کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اور پورے ضلع کے تمام شہری و دیہی علاقوں میں ایک ہی افسر مجاز ہو گا اور راقم کی نظر میں وہ اپنے ضلع کا  وزیر اعلیٰ یا گورنر ہو گا یعنی کہ جنرل مشرف کے دور میں پانچ اراکین قومی اسمبلی نے اسمبلیوں سے استعفیٰ دیکر ڈسٹرکٹ ناظم بنے اب تقریباً ہر ضلع میں سب سے طاقتور سیاسی شخصیت ڈسٹرکٹ میئر یا لاڈ میئر کا الیکشن لڑے گی چاہے اسے اسمبلی تو کیا وزارت سے ہی کیوں نہ استعفیٰ دینا پڑے۔ بڑے بڑے سیاسی قد رکھنے والے زعماء اس میدان میں اترتے نظر آ رہے ہیں۔ علاقائی احساس محرومی کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں صوبہ مانگنے والے اب شاید اس نظام کے بعد اس تحریک کو کمزور ہوتا دیکھ رہے ہیں کیونکہ صوبائی فنانس ایوارڈ کے بعد ہر ضلع کو اس کے حصے کے فنڈز مل جائیں گے تو یہ کسی بھی احساس محرومی والے خطے کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔
سیاسی رہنماؤں اور کارکنان نے نئے  لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی مخالفت کرنا تو دور کی بات انہوں نے صحیح معنوں میں اس ایکٹ کو جمہوریت کی نرسری اور پاکستان میں جمہوریت کو پنپنے کے لیے سنگ میل قرار دیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ بیوروکریسی‘ ڈسٹرکٹ میئر یا لاڈ میئر کے ماتحت ہو گی اور بہتر انداز میں جمہوریت کی خدمت ہو سکتی ہے۔ نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ اگر آئندہ پنجاب اسمبلی  کے اجلاس میں یا اس سے اگلے اجلاس میں پاس ہو گیا تو 120دن کے اندر اندر بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں۔ ذرائع کے مطابق اپریل 2022ء میں بلدیاتی الیکشن ہو سکتے ہیں اور یہ عمران خان حکومت کی سب سے بڑی کامیابی تصور ہو گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے (ق) لیگ سمیت تمام اتحادی اس پر رضا مند ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر عملدرآمد کب اور کیسے ہوتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے قریبی ذرائع کے مطابق وہ مجوزہ بلدیاتی انتخابات کے ہر صورت کروانا چاہتے ہیں انہوں نے اس سلسلے میں پنجاب حکومت کو سختی سے ہدایات جاری کی ہیں کہ یہ سارا کام وقت مقررہ پر ہو اور اس میں کسی بھی قسم کی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی۔ اس بلدیاتی نظام کے سلسلے میں جب اتحادی جماعت مسلم لیگ(ق) نے تحفظات کا اظہار کیا تو انہیں ہر صورت منا لیا گیا یہاں تک کہ 9ڈویژنل ہیڈ کوارٹر کے لاڈ میئر ہونے تھے لیکن ان کی فرمائش پر گجرات اور سیالکوٹ کو بھی ڈویژن کی طرز پر لاڈ میئر شپ دے دی گئی کیونکہ وزیر اعظم عمران خان یہ چاہتے ہیں کہ نیا لوکل گورنمنٹ نظام جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچے اور اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔

یہ بھی پڑھیں : علم ایک نعمت کیوں

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ان انتخابات کو الیکٹرک ووٹنگ مشین کے تحت کروانے کا اعلان کیا ہے لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق اپریل تک اس پر انتخابات ممکن نہیں الیکشن جس بھی طریقے سے ہوں ہوتے نظر آ رہے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ لاڈ میئر اور ڈسٹرکٹ میئر بننے کے خواہش مند سیاستدانوں  نے اپنے اپنے گروپ سے رابطے شروع کر دئیے ہیں سیاسی رہنماؤں سے خفیہ اور اعلانیہ میٹنگز کا آغاز کر دیا ہے لارڈ میئر اور ڈسٹرکٹ میئر کے امیدواروں نے دو درجن کے قریب اراکین قومی اسمبلی اور وزراء بھی شامل ہیں دیکھنا یہ  ہے کہ ان انتخابات میں کون اور کیسے کامیاب ہوتا ہے
New Local Government Act and Partition of Punjab


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent