Ticker

6/recent/ticker-posts

City son

 City son

شہر زاد

تحریر ناصر خاں ناصر
24 فروری 1960ء کو پاکستان کے نئے دارالحکومت کیلئے "اسلام آباد" کے نام کی منظوری دی گئی یہ نام عارف والا کے سکول ٹیچر قاضی عبدالرحمن' نے تجویز کیا تھا۔ صدر پاکستان نے اُنہیں اسلام آباد میں ایک کنال کا پلاٹ انعام میں دینے کا اعلان کیا جو انہیں یا ان کے خاندان کو آج تک نہیں ملا
قاضی عبدالرحمٰن 1908 میں بھٹے وڈ (امرتسر) میں پیدا ہوئے انہوں نے گورنمنٹ ہائی سکول امرتسر اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے تعلیم حاصل کی قیام پاکستان کے بعد عارف والا (ساہیوال) چلے آئے اور ضلع ساہیوال کے مختلف سکولوں میں معلمی کے فرائض انجام دیے.  سب سے طویل عرصہ ٹاؤن کمیٹی ہائی سکول عارف والا میں گزارا یہیں سے 1968 میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوئے قاضی صاحب جن دنوں اسلامیہ کالج لاہور میں زیرتعلیم تھے علامہ اقبال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن لڑ رہے تھے قاضی صاحب ان کے انتخابی جلوسوں میں شریک ہوتے تھے ایک روز جلوس مسجدوزیرخان کے پاس سے گزرا تو مسجد سے اذان کی آواز آنے پروہیں صفیں باندھ لی گئی قاضی عبدالرحمٰن کو امامت کے لیے کہا گیا قاضی صاحب ساری زندگی اس بات پر نازاں رہے کہ علامہ اقبال نے ان کی امامت میں نماز پڑھی تھی اس واقعے کو انہوں نے اردو ڈائجسٹ میں”ایک یادگار واقعہ“ کے عنوان سے بڑی تفصیل سے بیان کیا ۔لاہور کی محفلوں میں انھیں ایم ڈی تاثیر، ،ظفر علی خان،طغرائی امرتسری اورصوفی تبسم جیسی شخصیات سے ملاقات کا موقع ملا وہ ایک عمدہ نعت گو بھی تھے ان کا نعتیہ شعری مجموعہ ”ہوائے طیبہ“کے نام سے 1981 میں شائع ہوا ان کے صاحبزادے قاضی حبیب الرحمٰن بھی شاعر ہیں قاضی عبدالرحمن کا انتقال 25اپریل 1990 کو ہوا (ڈاکٹر افتخار شفیع) جب اسلام آباد بنایا گیا تو اس سارے علاقے میں گیدڑ بولتے تھے اور لوگ وہاں دن میں بھی جاتے ہوئے ڈرتے تھے کوئی بھی شخص ان جنگل بیابانوں میں رہنے کو تیار نہیں تھا ہر طرف خود رو بھنگ اور جنگل اگے تھے وہاں کی زمینیں اور پلاٹ بے حد سستے تھے جبکہ قریبی جڑواں شہر راولپنڈی میں پلاٹ اور گھر مہنگے تھے ہمارے خاندان نے بھی انہی دنوں بہاولپور سے اس علاقے میں نقل مکانی کی ٹھانی تو اسلام آباد کی جگہ راولپنڈی میں رہائش گاہ بنانے کا فیصلہ کیا
اسلام آباد تب تک بھی خالی خالی ہی تھا اسلام آباد کی ویران سڑکوں پر بسیں خالی چلا کرتی تھیں۔ انہی دنوں اسلام آباد کے سیکٹر کو رمنا کا نام دیا گیا تو جماعت اسلامی والوں نے اودھم مچا دیا کہ اس نام سے رام کی بو آتی ہے جس پر رمنا  تبدیل کر کے شالیمار نام رکھ دیا گیا سرکاری ملازموں سے یہ شہر بسایا گیا سی ڈی اے نے  سرکاری رہائش گاہیں بنائیں۔ جو سرکاری ملازمین کو مفت یا سستے کرائے پر دی جاتی تھیں بے شمار بنگالیوں کو بھی مرکزی حکومت میں نوکریاں دی گئیں اور شہر میں ہر طرف بنگالی  نظر آنے لگے۔ اس زمانے میں شہر میں پلاٹ بہت سستے تھے اسلام آباد میں صرف ایک فور سٹار ہوٹل ہوتا تھا جسکا نام شہرزاد تھا بہت سارے ملکوں کی ایمبیسیاں بھی راولپنڈی ہی میں تھیں کیونکہ اسلام آباد میں اندھیرا ہوتے ہی الو بولنے لگتے آب پارہ مارکیٹ شام کے چھ بجے بند ہو جاتی تھی

یہ بھی پڑھیں : کیا میں بھی پکارا جاوں گا

یہ بھی پڑھیں : خواب میں بے حیائی کو دیکھنے کی تعبیر

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent