Ticker

6/recent/ticker-posts

خواجہ فرید یونیورسٹی درس گاہ یا کرپشن کا گڑھ؟

Khwaja Farid University school or a stronghold of corruption?

تحریر جام ایم ڈی گانگا

وطن عزیز پاکستان میں کرپشن کو محبوب کا درجہ حاصل ہے خاص طور پر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس میں تو اس کی عزت و وقار، مقام و منزل بہت ہی زیادہ اور بلند ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے بارے میں کچھ سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے اس کے خلاف کوئی کچھ بھی کہے وہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتے نہ صرف یہی بلکہ محبوب سے نسبت رکھنے والی اور جڑی ہوئی ہر چیز کی عزت کا بھی خیال کرتے ہیں جس طرح کوئی دیوانہ و عاشق اپنے محبوب یا محبوبہ کے دوستوں یا سہیلیوں کا بھی خاص خیال کرتا ہے یہی مقام و مرتبہ پاکستان میں کرپشن کو حاصل ہے کرپشن کے ساتھ ساتھ اس کے سہولت کار بھی بڑے پیارے اور عزیز لگتے ہیں
محترم قارئین کرام، رحیم یارخان میں میگا سیوریج منصوبے میں کی جانے والی میگا کرپشن کے کئی مرئی و غیر مرئی قصے کہانیاں، محکمہ انہار منچن بند اور سِپرز فنڈز میں کی جانے والی بھاری کرپشن کے حقیقی قصے اور سچی کہانیاں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ رحیم یارخان میں نئی بننے والی خواجہ فرید آئی ٹی یونیورسٹی سے خوشبوئیں اور آوازیں آنے شروع ہو گئی تھیں جہاں پر اربوں روپے کے فنڈز سے یونیورسٹی میں نئی تعمیرات و تعیناتیوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا گذشتہ دنوں خواجہ فرید یونیورسٹی میں ایک نئی تعمیر شدہ بلڈنگ کا پورا بلاک گر گیا جس پر ہر طرف سے ناقص تعمیر و میٹریل، کمیشن خوری وغیرہ کی بہت ساری باتیں ایک بار پھر گونج اٹھیں اتنی زرودار طریقے سے اٹھیں کہ گرنے والے بلڈنگ کے شور سے کئی گنا زیادہ شور سنائی دیا اور ابھی تک دے رہا ہے سول سوسائٹی کے مختلف طبقات کی جانب سے کئی باتیں سننے کو مل رہی ہیں ان میں سے ایک دبدبے والی گونج دار اجتماعی آواز ڈسٹرکٹ بار رحیم یارخان کی ہے یہاں پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلمان طاہر کے اس فوری ورشن کو بتانا بھی ضروری سمجھتا ہوں موصوف کا کہنا ہے کہ بلڈنگ گری نہیں ہم نے اسے خود گرایا ہے اس بیان کے بعد یہ بات تو طے اور ثابت ہو چکی ہے کہ بلڈنگ گری ہے یا گرائی گئی ہے دونوں صورتوں میں اس کی وجہ ناقص ترین تعمیر اور اس کا خطرناک و نقصان دہ ہونا تسلیم کرکے اسے گرایا گیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی بڑا عقلمندی کا مظاہرہ کیا گیا ہے بہت بڑا احساس کیا گیا ہے جس کو کھلے دل سے تسلیم کرنا اور سراہا جانا چاہئیے بصورت دیگر اگر کرپشن اور ناقص طرز تعمیر کو چھپانے کے لیے بلڈنگ کو فنکشنل کر لیا جاتا تو پھر اس صورت میں مالی کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی ضرور ہوتا وی سی صاحب آپ نے مستقبل میں ملک وقوم کو ایک بڑے جانی نقصان سے بچایا ہے اس سوچ و عمل کا مظاہرہ کرنے پر میں آپ کو داد دینا چاہتا تھا مگر کسی اعلی سطحی ذمہ دار انکوائری سے قبل میں اسے سٹور کر رہا ہوں جس بلڈر نے گرنے والی یا گرائے جانے والی ناقص بلدنگ تعمیر کی ہے سُنا ہے کہ اس بلڈرز نے یونیورسٹی میں آدھ درجن کے قریب اور مزید بلڈنگز و تعلیمی بلاکس بھی تعمیر کیے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اُن منصوبہ جات کا آڈٹ اور تکنیکی جانج پڑتال از حد ضروری ہے اس بلڈر سے، کنسلٹنٹ سے، کام کی نگرانی کرنے والے یونیورسٹی اور ضلعی انتظامیہ کے ذمہ داران سے باقاعدہ سرٹیفیکیٹ اور بیان حلفی لے کر ریکارڈ میں رکھا جائے کل کلاں اگر دیگر بلڈنگز بھی کسی وقت اچانک گر پڑیں تو اس کی وجہ سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کے وہ ذمہ دار ہوں گے

یہ بھی پڑھیں : ظلمی سفر آخر پانی کا دفاع کس کے ذمے ہے؟

خواجہ فرید یونیورسٹی کے بانی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے جانے کے بعد یونیورسٹی سے مسلسل عجیب و غریب قسم کی چیخ و پکار، آہ و بکا، شور شرابہ، ایک محبوب کے جانے کے بعد دوسرے اور محبوب کر چرچے بڑھتے ہی چلے گئے اور بات یہاں تک آن پہنچی ہے جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں کہ محبوب عزیز ہوتا ہے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز بھی عزیز ہوتی ہے کرپشن صرف خواجہ فرید یونیورسٹی، ضلع رحیم یارخان، سرائیکی وسیب کا نہیں پورے پاکستان کا قومی مسئلہ ہے اس غیر آئینی کام کو مکمل غیر آئینی اور بھر پور تحفظ حاصل ہے دیوانے اور عاشقوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا کوئی مانے یا نہ مانے ویسے وطن عزیز پاکستان میں کرپشن اور بیورو کریٹ آپس میں بہن بھائی ہیں کوئی غیرت مند بھائی اپنی بہن کی عزت کے لیے کیا کچھ کر گزرتا ہے اس پر کچھ مزید لکھنے کی ضرورت نہیں ہے بس سمجھنے والوں کے لیے تو یہی ایک نقطہ کافی ہے جہاں تک سیاست دانوں کی بات ہے یہ آتے جاتے رہتے ہیں عمران خان کی حکومت کے سابق وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مخدوم خسرو بختیار کی جگہ موجودہ حکومت میں کس شخصیت کو یونیورسٹی میں ذمہ داریاں تفویض کی گئی ہیں ہیں مجھے نہیں معلوم ویسے کماؤ پتر ہر کسی کو اچھے لگتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ گھر میں ان کی مرضی ہی زیادہ چلتی ہے پھر محنتی، دیانت دار اور انتہائی فرمانبردار قسم کا بندہ یقین کریں والدین کے علاوہ بھی گھر کے تقریبا تمام افراد کو اچھا لگتا ہے مڈی اکٹھی کرکے دیانت داری سے طے شدہ شرائط اور طریقہ ہائے کار کا خیال کرتے ہوئے باقاعدگی سے تخت لاہور پہنچانا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے وائس چانسلر ڈاکٹر سلمان طاہر میں یہ ساری خصوصیات موجود ہیں ویسے اُن کا فیصل آبادی ہونا بھی بہت بڑی طاقت ہے خیر اس وقت میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا میرے ضلع رحیم یارخان میں دو بڑے آفیسر ایسے بھی جن کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ انہوں نے رحیم یارخان میں افسری کرنے کے لیے ہی شاید سرکاری ملازمت اختیارکی ہے اور کر رہے ہیں کئی ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او وغیرہ آئے اور آ کر چلے گئے مگر وہ دونوں صاحبان بدستور موجود ہیں نہ جانے اس کے پیچھے کیا راز ہے؟ اس پر کسی علیحدہ کالم میں ہی بات ہو سکتی ہے سپیشل لوگوں کے لیے سپیشل لائن کا اصول ہی رائج ہے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سلمان طاہر کو اگر میں خواجہ فرید یونیورسٹی کا ملک ریاض کہوں تو بے جا نہ ہوگا

یہ بھی پڑھیں : اوکاڑہ یونیورسٹی میں یونیسیف پاکستان کے اشتراک سے پولیو کے خاتمے کےلیے آگہی سیمینار

یونیورسٹی میں ہونے والی جملہ قسم کی کرپشن تعمیراتی، و غیر تعمیراتی کے علاوہ مالی، اخلاقی، دفاعی اور دیگر مرئی و غیر مرئی معاملات پر بہت سارے لوگوں کی خاموشی کا مطلب آپ یقینا سمجھ چکے ہوں گے بِکتے قلم سے لڑکھراتے منبر تک، دربان سے سلطان تک کس کس کا یہاں پر ذکر کروں شہر کے لوگو! ڈاکٹر سلمان طاہر کو اتنا کوسو اور اتنا ستاؤ جتنا وہ برداشت کر سکے اگر تنگ آکر اس نے زبان کھولی لی تو پھر بہت سارے نام نہاد شرفاء و جعلی معززین ننگے ہو جائیں گے.قلم کی حُرمت کے پردوں میں چُھپے کئی میراثیوں سے واسطہ پڑ جائے گا ویسے یہ نوبت آئے گی نہیں کیونکہ موصوف یہاں کے اکثر لوگوں کی اوقات، عادات و خصائل، دم خم، اندرونی و بیرونی حرکات و سکنات اور نفسیات وغیرہ کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں اگر بات کرپشن کے حوالے سے پ٤دہ نشین بڑے کرداروں تک بڑھ گئی اور لوگ ڈٹ گئے تو زیادہ سے زیادہ وائس چانسلر کو وقتی طور پر تبدیل کر دیا جائے جی ہاں یہ کوئی مبالغہ آرائی والی بات نہیں حقیقت ہے

یہ بھی پڑھیں : خواب میں پستول دیکھنے کی تعبیر

ڈسٹرکٹ بار رحیم یارخان نے سب سے پہلے وائس چانسلر خواجہ فرید یویورسٹی کے خلاف باقاعدہ پریس کانفرنس کی ہے اور اُسے اپنی طرف سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب دینے کے لیے چار دن کی مہلت دان کی گئی ہے یہاں پر میں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اس وقت تک بلڈنگ کے گرنے یا کسی دیگر حوالے سے وائس چانسلر کے خلاف باقاعدہ کوئی انکوائری اسٹینڈ نہیں کی گئی حکومتی سطح پر تو ابھی تک ایسے خاموشی چھائی ہوئی ہے کہ جیسے کچھ ہوا بھی نہیں ہے بات کماؤ پتر والی ہے یا فیصل آبادی نسبت والی؟ ڈسٹرکٹ بار کی آواز شہر کی حقیقی آواز ہے یا محض جھالو کا کردار؟ وقت اس کی حقیقت کو بھی بہت جلد کھول کے رکھ دے گا یونیورسٹی میں ہونے والی مختلف قسم کی ملازمتوں کی بھرتی میں کرپشن اور اقرباء پروری کا الزام کہاں تک درست ہے ٹرانسپورٹ کے لیے خریدے جانے والے تیل کے نامعلوم معاملات پہلی بار پیٹرول پمپ کے مالکان کی ہلکی سی ہلا چُلی سے سامنے آئے ہیں پٹرول پمپ مالک نے تو محض اپنے بلوں کی رکاوٹ کی وجہ سے معمولی سے بات سامنے لایا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ اس مد میں بھی خاصی محفوظ قسم کی کرپشن کی گئی ہے ہمارے جملہ سرکاری محکمہ جات کے دفاتر میں یہ بوگس بلنگ والا کام بلا خوف و خطر کیا جاتا ہے آخر اضافی و فرمائشی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بھی تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے یہ سارا دھندہ ملی بھگت سے چلتا ہے اور سب کے علم میں ہے اس مالی کرپشن کا تفصیلی آڈٹ کیا جانا از حد ضروری ہے اس کے لیے اگر تمام ٹرانسپورٹ کے مکمل روٹس اور شیڈول کو سامنے رکھ کر جان پڑتال کی گئی تو خاصا گھپلا سامنے آئے گا اس گھپلے میں خریدار کے ساتھ ساتھ فروخت کنندگان بھی پوری طرح ملوث ملیں گے کیونکہ ان کے فرضی بلنگ کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا مقامی ملازمین کو تعصب یا ذاتی پسند و ناپسند کی وجہ سے ملازمتوں سے نکال کر ان کی جگہ اپنے مخصوص نئے ملازمین کو ملازمتوں سے نوازنا اس دھرتی اور ضلع رحیم یارخان کے ساتھ سراسر ظلم و زیادتی ہے یہاں کے عوام پہلے ہی اس قسم کی حرکتوں کی وجہ سے تخت لاہور سے سخت نالاں ہیں شدید احساس محرومی کا شکار ہیں استحصال اور زیادتی سے بچنے کے لیے وہ اپنے تمام مسائل کا حل اپنے علحیدہ صوبہ سرائیکستان کے قیام میں ہی سـجھتے ہیں یہاں کے عوام ماضی کے معاملے میں اب بیدار ہو رہے ہیں اس لیے بالا دست طبقے کو اپنے طور اطوار تبدیل کرنے پڑیں گے بصورت دیگر کئی نئے مسائل جنم لیں گے اور عوامی مزاحمت کا سامنا بھی کرنا پڑے گا اگر ڈسٹرکٹ بار کسی قسم بارگینگ کی بجائے استقامت کے ساتھ یونیورسٹی کے معاملے میں عوامی موقف پر ڈٹی رہی تو عوام اس کے ساتھ جڑیں گے اس کا ساتھ دیں گے نہ جانے مجھے کیوں یہاں پر رحیم یارخان کے قابل فخر سُرخیل مرزا محمد امین ایڈوؤکیٹ، مزدور رہنما ربانی بلوچ، حیدر چغتائی اور ان کے دیگر ساتھیوں کا یہ نعرہ یاد آ رہا ہے اساڈا حق ایتھے رکھ اللہ کرے کہ یہاں بھی بات حق کی ہو حصے کی نہ ہو کیونکہ اس کے لیے ڈاکٹر سلمان طاہر کو طوفانی مہنگائی اور پھر اس واویلا کے ایام و دور میں نئی ڈائری لینی پڑے گی ڈسٹرکٹ بار نے واٹس چانسلر کو جواب دینے کے لیے چار دن کی مہلت اور وقت دیا اس کے بعد ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوگا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا میں یہ سوچ رہا ہوں کہ آئین و قانون کو جاننے سجھمنے والے ماہرین یعنی ہمارے وکلاء صاحبان کی خواجہ فرید یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے جواب طلبی کی آئینی و قانونی کیا حیثیت و مقام ہے؟ کیا اس حوالے سے کوئی رہنمائی فراہم کی کا سکتی ہے وائس چانسلر یا یونیورسٹی کے دیگر معاملات کے حوالے سے ایکشن و کارروائی وغیرہ کا مجاز اور اتھارٹی کون کون سی ہے اُن میں سے کسی نے اب تک کوئی نوٹس بھی لیا ہے یا نہیں اس لاپرواہی یا غفلت پر قانون کیا کہتا ہے. عام شہریوں کو جواب دہی کے لیے کہاں کہاں اور کس حد تک آواز اٹھانے، فریق بننے سمیت قانون کیا حق دیتا ہے بہرحال یونیورسٹی کے معاملے کو اب دبنا نہیں چاہئیے یہ ہمارے بچوں کے مستقبل اور زندگیوں کا سوال ہے رحیم یارخان کی خواجہ فرید یونیورسٹی کو مستقبل میں عظیم درس گاہ بنانا ہے یا کرپشن کا گڑھ؟ فرصت کے اوقات میں ذرا سوچئے گا ضرور تعلیم و تربیت، تعلیمی نصابی و غیر نصابی سرگرمیاں، رسمی و غیر رسمی تعلیم یہ سب حقیقتیں ہیں.

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent