Ticker

6/recent/ticker-posts

مسلم لیگ ن کا بیانیہ اچانک کیوں تبدیل ہوا؟

Why did the narrative of Muslim League-N suddenly change?

Why did the narrative of Muslim League-N suddenly change?

تحریر صابر مغل

وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے پیدا ہونے والی صورتحال نے مقتدر حلقوں اور تمام اتحادی سیاسی رہنماؤں کو ہلا کر رکھ دیا مصدقہ ذرائع۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے حمزہ شہباز کو عبوری اور محدود وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کے بعد پیر یا منگل کو اس کے ہی خلاف متوقع فیصلہ آنے کے خدشہ کے پیش نظر سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان عام انتخابات کی جانب فوری بڑھنے اور بات چیت کے آغاز پر مشاورت کا سلسلہ شروع۔ 22 جولائی کو پنجاب اسمبلی میں سپریم کورٹ کے حکم پر ہی پرویز الہی اور حمزہ شہباز کے درمیان وزارت اعلیٰ پر مقابلہ ہوا ووٹ پرویز الہی کو اکثریتی ملنے پر ڈپٹی اسپیکر دوست مزاری نے اچانک چوہدری شجاعت حسین کا خط نکال کر ساتھ سپریم کورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مسلم لیگ ق کے تمام 10 ووٹ مسترد کرتے ہوئے حمزہ شہباز کی کامیابی کا اعلان کر دیا۔ ان آخری لمحات میں مسلم لیگ ق کے صاف شفاف سیاست کے شاہکار چوہدری شجاعت حسین کو ایسی ایسی شخصیات نے عمران خان کے خلاف قائل کیا کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہوگیا مگر چوہدری شجاعت حسین کے اس تاخیری خط کے سبب بہت سی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں جن کو کنٹرول کرنا بظاہر ناممکن دکھائی دیتا ہے
تمام اتحادی اور دیگر اہم حلقے کسی صورت نہیں چاہتے تھے کہ تخت پنجاب عمران خان کے ہاتھ میں جائے دوسری جانب پاکستان کی تباہ کن معاشی صورتحال اور بالخصوص شدید ترین اور تاریخی عوامی رد عمل نے سبھی کو سوچ تبدیل کرنے اور کسی درمیانی راستے پر چلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ سے دو چار روز قبل سابق صدر آصف علی زرداری کا چوہدری شجاعت حسین کے گھر آنا جانا بہت بڑی پالیسی کا حصہ تھا اجلاس میں تاخیر کے دوران یہ بات بھی محض شوشہ تھی کہ آصف زرداری اب میاں نواز شریف کا پیغام لے کر شجاعت حسین کے پاس پہنچے ہیں در حقیقت وہ کسی اور کے کہنے پر گئے تھے بظاہر یہ سارا کریڈٹ آصف زرداری کو ایک زرداری سب پر بھاری کے نام سے دیا جا رہا ہے مگر انتہائی اہم ذرائع کے مطابق اس میں ایک فیصد بھی حقیقت نہیں۔ یہ کریڈٹ بس اس وجہ سے تھا کہ کہیں اور انگلیاں نہ اٹھیں ۔ شجاعت حسین کی مجبوری کچھ اور تھی جس کا وہ اب دبے الفاظ میں اظہار بھی کر چکے ہیں۔ آصف زرداری جو اب واپس سندھ پہنچ چکے ہیں نے گذشتہ چند ماہ سے مسلم لیگ ن کے اتحادی ہونے کا بہت بڑا ثبوت دیا مگر اسی محبت میں اس نے مسلم لیگ ن کے بیانئیے کو تباہ کر کے رکھ دیا جس کو پاکستان کے بہت بڑے سیاسی چغادری سیاستدان بھی نہ سمجھ سکے اس وقت پی ڈی ایم میں سے صرف آصف زرداری واحد سیاسی رہنما ہیں جن کے تمام حلقوں سے تعلقات بہترین نہج پر ہیں۔پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان جو ایوان صدر کے خواب دیکھتے تھے اب صرف بیانات سے خود کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔۔اب بات چونکہ عام انتخابات کی جانب تیزی سے بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے اس دوران مسلم لیگ ن کے نزدیک اگر پنجاب عمران خان کے پاس گیا تو ان کی پوزیشن خطرناک حد تک خراب ہو سکتی ہے اس لیے اب فوری انتخابات ہی ان کے نزدیک بہترین حل ہے۔ پنجاب اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران معزز ججز کی جانب سے ریمارکس پر بہت کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے جس میں سب سے زیادہ کردار پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سردار دوست مزاری کا ہے جن کی نادانی اور جلد بازی سے فیور کے امکانات میں کمی نظر آ رہی ہے اب عدالت اعظمی اپنی ہی ججمنٹس کو کیسے تبدیل کر سکتی ہے یہی سب دے زیادہ پریشانی ہے بہرحال پاکستان جس بارے دنیا بھر میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں کسی وقت کچھ بھی ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ میاں نواز شریف بھی موجودہ سیاسی صورتحال پر اپنے کچھ فیصلوں۔ اپنے بھائی اور بھتیجے کی سیاست سے بہت دلبرداشتہ ہیں وہ بھی الیکشن کی جانب مائل ہو چکے ہیں ۔ اسی وجہ سے مریم نواز نے اپنے والد کی ہدایت پر ہی اپنے سیاسی بیانئیے کو نئے سرے سے ابھارنے کی جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے جس میں سب سے پہلا کام عدالتی فیصلہ آنے سے قبل ہی وہ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑی ہیں بیانیہ وہی ہو گا کہ ووٹ کو عزت دو۔۔۔ یہ کیسا ملک ہے جہاں کے سیاستدانوں کو اپنے اقتدار۔ اختیار اور مراعات کی تو فکر ہے مگر نہ وطن کا ہوش ہے نہ اس میں بسنے والی عوام جو ذلت آمیز حالات میں غوطے کھا رہے ہیں کی کچھ فکر ہے جس کے ذمہ داران بھی یہی طبقات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : سیاسی رکاوٹ یا مالیاتی


Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent