Ticker

6/recent/ticker-posts

The two incidents of martyrdom have different backgrounds, but the end is the same

شہادتوں کے دو واقعات پس منظر مختلف مگر انجام ایک

محترم قارئین کرام، آج آپ کے ساتھ شہادتوں کے دو ایسے واقعات شیئر کر رہا ہوں جن کا پس منظر، کلاس، محل وقوع وغیرہ یکسر مختلف ہیں مگر ان کاانجام ایک ہی ہے یعنی موت شہادت. ایک انتہائی بالائی سطح کا کیس ہے اور دوسرا بالکل نچلی سطح کا یہ عدم برداشت کی انتہا ہے وحشت اور جنگل کے قانون کی علامات ہیں

دہشت گردی انفرادی ہو یا، اجتماعی، لوکل ہو یا نیشنل اور انٹرنیشل دہشت گردی جس لیول اور جس رنگ کی بھی ہو ہر لحاظ سے قابل نفرت اور باعث مذمت ہے مجھے حضرت واصف علی واصف کا ایک فرمان یاد آ رہا ہے واقعات سے قبل وہ آپ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں ُ ُجس طرح موسم بدلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اسی طرح وقت کے بدلنے کا بھی ایک موسم ہوتا ہے حالات بدلتے رہتے ہیں حالات کےساتھ حالت بھی بدل جاتی ہے رات آجاۓ تو نیند بھی کہیں سے آہی جاتی ہے وہ انسان کامیاب ہوتا ہے جس نے ابتلا کی تاریکیوں میں امید کا چراغ روشن رکھا امید اس خوشی کا نام ہے جس کے انتظار میں غم کے ایام کٹ جاتے ہیں امید کسی واقعہ کا نام نہیں ،یہ صرف مزاج کی ایک حالت ہے

تحریر جام ایم ڈی گانگا

فطرت کے مہربان ہونے پر یقین کا نام امید ہے ٗ ٗ افسوس صد افسوس کہ ہمارے ہاں تو اندھیری رات ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اگر خوش قسمتی سے کبھی سورج یا چاند نکل بھی آتے ہیں تو وہ گرہنوں کا شکار ہو جاتے ہیں گرہن سورج گرہن ہو یا چاند گرہن لوگوں میں کئی قسم کے انجانے خوف میں مبتلا کر دینے کا باعث بنتے ہیں ایک زمین پر کتنے راج ہیں ایک دیس میں کہاں کہاں اور کس کس کا راج ہے یہاں ایسے لگتا ہے کہ خدا کی زمین پر خلقِ خدا جھوٹے بڑے خود ساختہ خداؤں کی زد اور ان کے شکجنے میں پھنسی ہوئی ہے پاکستان کے معروف اینکر و صحافی ارشد شریف کینیا کے شہر نیروبی میں حادثے کا شکار ہو کر وفات پا چکے ہیں اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے، آمین متضاد اطلاعات ہیں ایک اطلاع کے مطابق انہیں گولیاں ماری گئی ہیں جبکہ دوسری اطلاع کے مطابق حادثہ ہوا ہے

ارشد شریف کی شہادت، موت گولیوں سے ہوئی ہے یا کسی اور طریقے یا حادثے سے ساری بات ان کے حالات و واقعات اور معاملات کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھنے اور پرکھنے سے کھل سامنے آجائے گی بہرحال ارشد شریف کی اس ناگہانی موت کو وطن عزیز کے ہر طبقے نے گہرائی سے محسوس کیا ہے اور رنجیدہ ہے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ ارشد شریف کو کس نے اور کیوں وطن چھوڑنے پر مجبور کیا میں یہاں پر سرائیکی زبان کے معروف صوفی شاعر حضرت خواجہ محمد یار فریدیؒ کے ایک شعر کا صرف ایک مصرعہ ہی آپ کے گوش گزار کر سکتا ہوں اس سے زیادہ نہیں. ُ ُ اے چُپ دی جاہ ھے اِتھاں الا کُئی نی سگدا

قارئین کرام، ارشد شریف 22 فروری 1973ء کو کراچی میں پیدا ہوئے ان کے والد نیوی کمانڈر محمد شریف ٹی آئی (ایم) ٹی کے تھے ارشد شریف نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز 1993 میں زمانہ طالب علمی میں ایک فری لانسر صحافی کے طور پر کیا تھا انہوں نے گارڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن کرنے کے بعد قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کی ان کو تحقیقاتی صحافت میں مہارت حاصل تھی وہ ایک اچھے کھوجی قسم کے بے باک صحافی تھے انہوں نے قومی اور بین الاقوامی خبر رساں اداروں خاص طور پر برطانیہ کے لیے ملک میں بہت سے سیاسی واقعات کا احاطہ کیا ہے 23 مارچ 2019ء کو انہیں صحافتی خدمات پر صدر پاکستان نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا

بتایا جاتا ہے کہ ارشد شریف کے والد کمانڈر محمد شریف مئی 2011ء میں آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے ان کے چھوٹے بھائی میجر اشرف شریف اپنے والد کے جنازے میں شرکت کے لیے بنوں سے بغیر سیکیورٹی نکلے تو راستے میں دہشت گردوں نے انہیں شہید کر دیا یوں باپ بیٹے کی میتیں گھر سے اکٹھے نکلیں آج بوڑھی ماں اور اپنے بچوں اکلوتا سہارا پاکستان کی صحافت کا روشن ستارہ 49 سالہ ارشد شریف بھی شہید ہو چکا ہے

یہ بھی پڑھیں : خواب میں ترش چیز کھانے کی تعبیر

قارئین کرام،نیشنل اور انٹرنیشنل کے بعد اب لوکل سطح کےایک واقعے کی خبر ُ ُ رحیم یارخان شوہر سے جھگڑا کرنے والی بیوی کو پناہ دینے کی رنجش پر شوہر نے فائرنگ کرکے باپ بیٹے کو موت کے گھاٹ اتاردیا آلہ قتل سمیت موقع سے فرار پولیس نے مقتولین کی نعشیں قبضہ میں لے کرپوسٹ مارٹم کیلئے ہسپتال منتقل کردیں فرارہوجانے والے قاتل کی تلاش شروع تفصیل کے مطابق گزشتہ روز چک 59 این پی کے رہائشی شفیق کی بیوی جھگڑا کرنے کے بعد روٹھ کر اپنے نانا مقتول فقیر بخش کے گھر رہائش پذیر ہوگئی جس کاشوہر شفیق احمد کوشدید رنج تھا گزشتہ روز شفیق احمد آتشی اسلحہ سے مسلح ہوکر متقول60 سالہ فقیربخش کی گھر میں داخل ہوا اور بیوی کوپناہ دینے کی رنجش پرفائرنگ کرکے 60 سالہ فقیر بخش اوراس کے بیٹے 27 سالہ تنویر احمد کوموت کے گھاٹ اتار دیا اور خود آلہ قتل سمیت موقع سے فرارہوگیا اطلاع ملنے پر پولیس نے مقتولین باپ بیٹے کی نعشیں قبصے میں لے کرپوسٹ مارٹم کیلئے ہسپتال منتقل کرنے کے بعد فرار ہو جانے والے ملزم کی تلاش شروع کردی جس معاشرے اور ملک میں اوپر سے نیچے تک یا نیچے سے اوپر اس قسم کے حالات اور صورت حال ہو قوم اندھے جنونیوں اور فرعونوں کے نرغے میں ہو وہاں قانون کی حکمرانی، امن و امان کی پوزیشن اور اس کے مستقبل کے بارے میں کیا سوچا جا سکتا ہے لاقانونیت اور اندھی سینہ زوری کی وجہ سے ہر جگہ اور ہروقت ایک خوف طاری ہے لوکل، نیشنل اور انٹرنیشنل مافیاز کے سوا یہاں پر کون محفوظ ہے

یہ بھی پڑھیں : تذکرہ دو جج صاحبان کا

مافیاز کا نیٹ ورک اور مختلف قسم کے پھیلائے ہوئے پھندے بارودی سُرنگوں سے زیادہ خطرناک ہیں جس امید کا ذکر حضرت واصف علی واصف نے کیا ہے مظلوم و محکوم لوگوں کے پاس اپنے آپ کو دلاسہ دینے کے لیے، زندگی کے ایام آرام سے بسر کرنے کے لیے اس امید کے سوا اور ہے ہی کیا یہ موسم اور یہ حالات کب بدلیں گے آئین و قانون کی بالا دستی، بروقت اور بلاتفریق انصاف کی فراہمی کا خواب کب اور کیسے پورا ہوگا کب اور کون آگے بڑھے گا اس مرئی اور غیر مرئی دھشت گردی کو روکنے کے لیے دھشت گردی کی فضا میں پھیلائی ہوئی آلودگی بہت بڑا چیلنج ہے صرف یہی نہیں بلکہ مسلسل پھیلی ہوئی آلودگی اور چھائی ہوئی لاقانونیت کی وجہ یہاں سوچیں آلودہ، زبانیں آلودہ ہوچکی ہیں اور کردار بھی آلودہ ہو چکے ہیں قبضہ گیری کے راج کے لیے ہونے والی جنگیں، انا کے جھگڑے اور غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کب رکیں گے سچ تو یہ ہے کہ سچ بولنا اور لکھنا ہر دور میں جرم ہی سمجھا جاتا رہا ہے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ارشد شریف بھی اکثر اس جرم کا مرتکب ہوتا رہا ہے شاید اسی جرم کی پاداش میں اسے ملک چھوڑ کر باہر جانا پڑا دشمن ہو یا موت یہ ہروقت پیچھا کرتے اور طاق میں رہتے ہیں ارشد شریف شالا جنت جاہیں ہوونی آمین

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent