Ticker

6/recent/ticker-posts

Punjab Police Bota Bandooqi and Ustad Elhi Bakhsh

پنجاب پولیس بوٹا بندوقی اور استاد الہی بخش

استاد الہی بخش صاحب کا تعلق رحیم یارخان کے علاقہ اسلامیہ کالونی سے ہے ان کی عمر اس وقت ستر سال کے قریب ہوگی یہ ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر ہیں اور کمال کی ادبی شخصیت ہیں آپکی کبھی ان سے ملاقات ہو تو ان سے ترنم میں خواجہ غلام فرید کی کافی ,,روہی وٹھڑی مینگھ ملھاراں سانول موڑمہاراں,, سننے کی فرمائش ضرور کیجیے گا آپکو ایسا لگے گا جیسے آپ استاد الہی بخش کی انگلی تھام کر ساون رت کی برستی برسات میں روہی گھوم رہے ہیں چند سال قبل ہی انہوں نے ریٹائرمنٹ لی ہے ان کی بیوی جگرکے عارضے میں مبتلا ہے اور بستر مرگ پر پڑی ہوئی ہے دو بیٹیاں ہیں جو ماں کی دیکھ بھال کی وجہ سے اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہیں استاد الہی بخش کو ریٹائرمنٹ سے جو رقم ملی تھی اس سے انہوں چھ مرلے کا ایک مکان خریدا اس مکان کے دو حصے کرکے درمیان میں دیوار کھڑی کردی ایک حصہ کرائے پر دے دیا تاکہ سانسوں کے سلسلے کو بحال رکھنے کیلیے دال روٹی کا سلسلہ جاری رہ سکے جبکہ دوسرے حصے میں انہوں نےخود رہائش اختیار کرلی چند روز قبل استاد الہی بخش نے مجھے اپنے گھر بلایا میں وہاں پنہچا تو وہ بہت دکھی تھے میں نے وجہ پوچھی تو بولے اسی لیے تو آپکو بلایا ہے تاکہ آپکو اپنا دکھ سنا سکوں

تحریر سید تحسین بخاری

انہوں نے بتایا کہ میں نے جس شخص کو مکان کرائے پر دے رکھا ہے اس کو محلے دار بوٹا بندوقی کہہ کر بلاتے ہیں یہ شخص پچھلے پانچ ماہ سے نا تو کرایہ دے رہا ہے نا ہی مکان خالی کر رہا ہے الٹا ایک جعلی اسٹامپ پیپر کے زریعے دعوی کر رہا ہے کہ یہ مکان اس نے مجھ سے خریدا ہے جبکہ یہ بالکل غلط ہے استاد الہی بخش نے بتایا کہ میں اس اسٹامپ پیپر کو عدالت سے بھی جعلی قرار دلوا چکا ہوں مگر میری کوئی نہیں سنتا محلے داروں سے کہتا لوں تو وہ بوٹا بندوقی سے ڈرتے ہیں اور الٹا مجھے ہی نصیحت کرنا شروع کردیتے ہیں کہ بوٹا ایک غنڈہ ٹائپ آدمی ہے اس کا ایک باقاعدہ گروپ ہے اس گروپ میں ایک وکیل ایک نام نہاد صحافی اور ایک پولیس ملازم بھی شامل ہے یہ گروپ انتہائی طاقتور ہے یہ گاڑیاں کرائے پر لیجا کر بیچ دیتے ہیں مکان کرائے پر لیکر قبضہ کرلیتے ہیں پلاٹوں پر قبضے کروانے کیلیے یہ لوگ کرائے پر بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ کوئ واویلا کرے تو اس پہ جھوٹے پرچے درج کروا دیتے ہیں اس لیے میں جس محلے دار سے بات کرتا ہوں وہ الٹا مجھے یہی کہتا ہے کہ استاد جی ان لوگوں سے دور ہی رہو تو بہتر ہے ورنہ یہ آپکو نقصان بھی پنہچا سکتے ہیں استاد الہی بخش اپنی روداد سناتے ہوئے رو پڑے اور روتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئے ! کیا اس ملک میں استاد کا یہی مقام ہے کہ وہ انصاف کیلیے در دبدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرے اور اسکی کوئی سننے والا ہی نا ہو میں نے استادجی سے بوٹا بندوقی کا نمبر لیا اور اسے کال کر کے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اس نے وجہ پوچھی تو میں نے استاد الہی بخش کا نام لیا کہ ان کے مکان والے ایشو پر بات کرنی ہے جس پر اس نے کہا کہ میں کل آپ سے آپ کے دفتر میں آکے ملوں گا میں استاد الہی بخش صاحب کو تسلی دیکر وہاں سے روانہ ہوگیا اگلے دن ٹھیک گیارہ بجے بوٹے نے مجھے کال کی اور میرے دفتر کا ایڈریس پوچھ کر میرے پاس آگیا اسے دیکھتے ہی مجھے ایسا لگا جیسے سلطان راہی میرے دفتر میں آگیا ہو چھ چار کی مونچھیں جنہیں وہ شاید ابھی تازہ تازہ تیل لگا کے آیا تھا پیروں میں تلے والا نوکدار کھسہ کاندھے پہ موٹی شال قد اتنا لمبا کہ اسے دروازے سے سر نیچا کرکے اندر آنا پڑا آگٹ یعنی کمربند قمیض ریڈلائن کراس کرکے نوگو ایریا کی جانب دائیں بائیں جھول رہا تھا دونوں مونچھوں کے سروں نے کسی کرپٹ سیاستدان کے بیان کی طرح یوٹرن سے ملتا جلتا وی ٹرن لے رکھا تھا بائیں ہاتھ کی چاروں انگلیوں میں اس نے قیمتی پتھروں یاقوت زمرد مرجان اور عقیق سے جڑی مندریاں ٹھونس رکھی تھیں اس کے ساتھ دو مشٹنڈے بھی تھے جو حلیے سے ایسا لگ رہے تھے جیسے ابھی ابھی کسی فلم کی شوٹنگ سے مار کھانے کا رول کرکے آئے ہوں گفتگو شروع ہوئی تو میں نے اسے کہا کہ آپ نے ایک غریب شریف آدمی کے مکان پر قبضہ کررکھا ہے کیوں؟

یہ بھی پڑھیں : خواب میں تہبند دیکھنے کی تعبیر

تو اس نے فورا اپنا خود ساختہ اسٹامپ پیپر میرے سامنے رکھ دیا جس پر میں نے اسے وہ عدالتی پیپر دکھایا جس میں عدالت اس اسٹامپ پیپر کو جعلی قرار دے چکی تھی اور ساتھ ہی وہ کرایہ نامہ بھی دکھایا تو اس نے وہ کاغذ میری طرف دھکیل دیا اور تکبرانہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا ,,تسی کی چاندے او,, میں نے کہا استاد الہی بخش ایک غریب آدمی ہے کم از کم ایک استاد کو تو معاف کردیں اور اسکا مکان اسے واپس کردیں جس پر وہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں سائیڈ والی مونچھ کو ,,وٹ,,تاؤ دیتے ہوئے بولا او چھڈو جی مرشد تسی کیڑے چکراں اچ پئے گئے او ساڈے ورگے بندیاں نال یاریاں رکھو موجاں ای موجاں کروا دیاں گے اس نےاپنی جیب سے کچھ پیسے نکالے اور میری طرف بڑھاتےہوئے بولا,,اے رکھ لو دفتر واسطے چنگی جئی ٹی وی شی وی لے لو ہورخدمت وی کراں گے,,

تو میں نے اسے سمجھایا کہ یہ پیسے مجھے دینے کی بجائے آپ استاد الہی بخش کو اسکا کرایہ ادا کردیں اور اسکا مکان بھی چھوڑدیں اس نے میری طرف بڑھایا ہاتھ پیچھے کھینچا اور کہا کہ فیر تواڈے توں جیڑاکجھ ہوندا اے کرلو میں نے کہا بوٹا جی کوشش تو کریں گے ایک استاد کو اس کا حق دلوانے کی باقی جو اللہ کو منظور بوٹا سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا چلا گیا میں نے اسی وقت استاد الہی بخش کو اپنے دفتر بلایا اور یہ کہانی سنائی تو وہ بیچارہ مزید پریشان ہوگیا میں نے اسے حوصلہ دیتے لوئے کہا آپ پریشان نا ہوں اللہ بہتری کرے گا

میں نے اسی وقت کاغذ منگوایا ڈی پی اورحیم یارخان کے نام ایک درخواست لکھی اور ڈی پی او اختر فاروق سے رابطہ کرکے ان کے پاس چلے گئے میرے علاوہ ان کے دفتر میں اور بھی کافی لوگ موجود تھے اختر فاروق صاحب باری باری وہاں پر موجود لوگوں سے ان کے مسائل دریافت کر رہے تھے کچھ دیر بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ بتائیں کیسے آنا ہوا؟ میں نے وہ درخواست ان کے سامنے رکھی اور بتایا کہ میرے ساتھ یہ استاد الہی بخش صاحب ہیں اور ریٹائرڈ ٹیچر ہیں یہ سنتے ہی ڈی پی او اختر فاروق ایک دم اپنی سیٹ سے کھڑے ہوگئے کمرے میں موجود تمام شخصیات کو بھی ان کے احترام میں اٹھنا پڑا کھڑے ہوکر ڈی پی او نے احتراما اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر سر کو تھوڑا جھکاتے ہوئے عاجزانہ انداز سے بولے سر کیا آپ استاد ہیں؟ جس پر استاد الہی بخش صاحب نے کہا جی سر میں استاد ہوں تو ڈی پی او صاحب فورا بولے کہ آپ مجھے سر نا کہیں سر تو آپ ہیں اور پھر انہوں نے استاد الہی بخش کو بلا کر اپنے قریب والی کرسی پر بٹھایا ان کیلیے چائے منگوائی جب انہوں نے چائے پی لی تو اختر فاروق صاحب انکی طرف دوبارہ متوجہ ہوئے اور انتہائی دھیمے لہجے کے ساتھ ان سے دریافت کیا بتائیے سر میں آپکی کیا خدمت کرسکتا ہوں استاد الہی بخش نے اپنا مسئلہ بتایا تو ڈی پی او نے اسی وقت متعلقہ ایس ایچ او کو اپنے آفس میں بلا لیا اور اسے سمجھایا کہ کل اس درخواست کے ملزم کو میرے پاس لے آؤ اور ہمیں اگلے دن دوبارہ آنے کا کہا ہم اگلے دن دوبارہ وہاں چلے گئے تو بوٹا ایک سیاسی شخصیت کو ساتھ لیکر وہاں آگیا

پنجاب پولیس بوٹا بندوقی اور استاد الہی بخش

ڈی پی او نے دریافت کیا تو بوٹے نے وہی جعلی اسٹامپ پپیر دکھایا جس پر ڈی پی او نے کہا کہ یہ اسٹامپ پیپر عدالت جعلی قرار دے چکی ہے اس کے علاوہ کوئی ثبوت ہے تو دکھاؤ جس پر وہ خاموش ہوگیا اور کوئی تسلی بخش جواب نا دے سکا تو بوٹے کے ساتھ آئی سیاسی شخصیت نے ڈی پی او سے کہا کہ سر میں اسے ذاتی طور پر جانتا ہوں یہ شریف آدمی ہے تو ڈی پی او صاحب نے اپنی فائل سے ایک کاغذ نکالا اور عمران خان کے سائفر کی طرح لہراتے ہوئے بولے کہ میں اس شریف آدمی کا ریکارڈ ہہلے ہی نکلوا کے بیٹھا ہوں ایک درجن سے زائد مقدمات ہیں اس پر تو وہ سیاسی شخصیت بھی سر نیچے کرکے بیٹھ گئی جس پر ڈی پی او نے کہا کہ ہم آج جس مقام پر ہیں اپنے استادوں کی وجہ سے ہیں دنیا بھرمیں استاد کو عزت و احترام سے نوازا جاتا ہے مگر ہم کیسے بے حس لوگ ہیں کہ استادوں کو بھی نہیں بخشتے

ڈی پی او نے کہا کہ آپ کے پاس دودن کا ٹائم ہے آپ ان کو مکمل کرایہ بھی اداکریں اور انکا مکان بھی انکے حوالے کردیں ورنہ ہم مکان کا قبضہ تو واگزار کروائیں گے ہی اس کے ساتھ ساتھ تمہارے خلاف کاروائی بھی کی جائے گی بوٹا دو دن کا ٹائم لیکر وہاں سے نکل گیا تو ڈی پی او نے استاد الہی بخش سے کہا سر ہم معذرت خواہ ہیں کہ آپکو تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا مگر کیا کریں ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے بعد ازاں استاد الہی بخش صاحب جانے کے لیے کھڑے ہوئے تو ڈی پی او صاحب بھی ان کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور تب تک نہیں بیٹھے جب تک استاد الہی بخش صاحب کمرے سے باہر نہیں نکل گئے

یہ بھی پڑھیں : دعاء

قارئین محترم ! ہم نے دوسرے ممالک کے تو استاد کے احترام کے بہت سے قصے سنے تھے کہ فلاں ملک میں استاد کو اتنا درجہ دیا جاتا ہے سوشل میڈیا پر بھی متعدد بار دوسرے ممالک اور پاکستان سے منسلک بہت سی تصویریں دیکھنے کو ملیں جن میں دوسرے ممالک کی طرف سے ایک استاد کو افسران کی طرف سے احترام کے ساتھ پیش آتے دکھایا گیا جبکہ پاکستان سے منسلک پولیس کسی استاد کو ہتھکڑیوں میں جکڑے پولیس کی تحویل میں دکھایا گیا جس پر تبصرے بھی ہوئے اور پولیس پر شدید تنقید بھی ہوئی کہ اس ملک میں کرپٹ لوگوں کو تو پولیس پروٹوکول دیتی ہے گرفتاری کے وقت انہیں ہتھکڑی تک نہیں لگائی جاتی جبکہ ایک استاد کو ہتھکڑیاں لگا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس ملک میں استاد کا کوئی احترام نہیں

مگر پنجاب پولیس کے باادب پولیس آفیسر اختر فاوق نے اس تاثر کو آج اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے اور اپنے عمل سے بتایا کہ کون کہتا ہے کہ اس ملک میں علم کا نور بکھیرنے والوں کی عزت نہیں ہے یہ تو ہمارے سر کا تاج اور ہماری آنکھوں کا نور ہیں

قارئین کرام آج پنجاب پولیس کے ایک فرزند اختر فاروق کی جانب سے ایک استاد کا اس درجہ احترام دیکھا تو میرا سینہ چوڑا ہوگیا میرا دل خوشی سے بھرگیا اور میری آنکھوں میں چمک آگئی اورمیراسر فخرسے بلند ہوگیا کہ میرے ملک میں جہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے عمل سے اپنے محکموں اور اپنے وطن کو داغدار کرنے کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے وہاں اختر فاروق جیسے باادب لوگ بھی موجود ہیں جو ناصرف اپنے محکمے بلکہ اپنے ملک کانام روشن کرنے کی جستجو میں ہمیشہ لگے رہتے ہیں ایسے لوگ ناصرف اپنے محکمے کے ماتھے کا جھومر ہیں بلکہ یہ ارض وطن کابھی خوبصورت چہرہ ہیں سلام ہے ایسے لوگوں کو

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent