Ticker

6/recent/ticker-posts

Wrong articles

غَلَطی ہائے مضامین

اردو زبان کو بگاڑنے میں اساتذہ، خطبا اور صحافیوں نے سب سے زیادہ کردار ادا کیا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اِن تین طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی اردو زبان کی اصلاح میں اَہَم کردار ادا کر سکتے ہیں

نشتر میڈیکل کالج کے سانحے پر ایک خاتون نے کالم لکھا کالم کا عنوان ہے ” انسانیت سوزی کے رنگ برنگے واقعات “ رنگ بہ رنگے کی اصطلاح صرف خوشی کے واقعات کے لیے استعمال کی جاتی ہے مگر محترمہ نے لاشوں کے سانحے پر بھی ” رنگ برنگے واقعات “ لکھ دیا، حیرت ہے دکھ اور افسوس بھی

وکٹوریہ : اکثر لوگ وکٹوریہ کو ” ہ “ کے ساتھ لکھتے ہیں بہاول پور کے لوگ ” وکٹوریہ ہسپتال “ لکھنے کے عادی ہو چکے ہیں قاعدہ یہ ہے کہ اگر انگریزی الفاظ کے آخر میں ایچ آتا ہو تب اردو میں ” ہ “ لگاتے ہیں، انگریزی الفاظ کے آخر میں ” اے “ آنے کی صورت میں الف استعمال کیا جاتا ہے،  وکٹوریا کے آخر میں ” اے “ آتا ہے، اس لیے اسے الف کے ساتھ لکھنا چاہیے اِسی طرح امریکا اور افریقا کے آخر میں بھی الف ہی لکھنا چاہیے

Wrong articles

تحریر حیات عبداللہ

دلبرداشتہ : کوئی بھی لفظ غلط املا کے ساتھ لکھا جائے تو معانی بھی بدل جاتے ہیں اخبارات میں اکثر یہ جملہ لکھا ہوتا ہے ” ایک لڑکی نے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر خود کشی کر لی “ یہاں ” دلبرداشتہ “ کا املا غلط لکھا گیا ہے املا غلط ہونے سے جملے کے معانی وہ نہیں رہے جن کا یہ جملہ متقاضی ہے” دلبر “ کا معنی ہے ” محبوب “ اور ” داشتہ “ کا مطلب ہے ” رکھی ہوئی چیز یا بے نکاحی عورت “ یہ غلط املا کی کرشمہ سازی ہے کہ لفظ کے معانی بالکل ہی تبدیل ہوگئے ہیں درست املا ” دل برداشتہ “ ہے میکش اکبرآبادی کی کتاب ” داستانِ شب “ جو 1979ء میں شائع ہوئی اس کے صفحہ نمبر 40 پر یہ شعر ” دل برداشتہ “ کے املا کے ساتھ موجود ہے

کہیں بیٹھے تو دل برداشتہ سے

فقیروں کا مکاں کوئی نہیں ہے

جانثار : شاید ہی کوئی اخبار یا رسالہ اِس لفظ کو درست املا کے ساتھ لکھتا ہو۔” جا “ فارسی زبان کا لفظ ہے اِس کے معانی ہیں، جگہ، مقام، ٹھکانا۔” جانا “ مصدر سے یہ صیغہ امر بھی ہے۔” جانثار “ کے معانی جگہ قربان کرنے کے ہوئے جب کہ جملے میں جان قربان کرنے کی بات ہوتی ہے صحیح لفظ ” جاں نثار “ ہے مگر بعض احباب نون غنہ کو حذف کر کے اسے ” جانثار “ بنا دیتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔معروف شاعر جاں نثار اختر بھی اپنا نام نون غنہ کے ساتھ لکھتے تھے، اُن کی شاعری کی کتب تارِ گریباں، پچھلے پہر، جاوداں، خاموش آواز اور نذرِ بتاں سمیت سب کتابوں پر ان کا نام نون غنہ کے ساتھ موجود ہے معلوم نہیں یہ کس قسم کی کاہلی ہے کہ حروف کو کھائے جا رہی ہے۔

خوردبین : خوردبین کیا ہے اِس کے متعلق اکثر لوگ اچھی طرح جانتے ہیں مگر یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اِس کا درست املا ” خوردبین “ نہیں بلکہ ” خردبین “ ہے۔” خرد “فارسی زبان کا لفظ ہے اس کے معانی ہیں چھوٹا، کم عمر وغیرہ۔” بین “ بھی فارسی زبان ہی کا لفظ ہے۔

یہ بھی پڑھیں :  شہادتوں کے دو واقعات پس منظر مختلف مگر انجام ایک

یہ مرکبات میں استعمال ہوتا ہے معنی ہے, دیکھنے والا، چناں چہ ” خردبین “ کا مطلب ہے” وہ آلہ جس کی مدد سے چھوٹی چیز کو دیکھا جائے“ اب ” خوردبین“ پر غور کریں ” خورد “ کا مطلب ہے کھانا جب کہ ” بین “ کا مطلب اوپر لکھا جا چکا ہے یقیناً آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ ” خردبین “ کو ” خوردبین“ لکھنے سے معانی کیا سے کیا ہوگئے ہیں۔

نکتہ ء نظر :- درست املا ” نقطہ ء نظر “ ہے اسے انگریزی میں  پوائنٹ آف وِیو کہتے ہیں۔پوائنٹ کا معنی ” نقطہ“ ہے، نکتہ نہیں۔

برائے مہربانی : چُھٹی کی درخواست پر اکثر یہ جملہ پڑھنے کو ملتا ہے کہ ” برائے مہربانی مجھے ایک یوم کی رخصت عنایت کی جائے“ برائے مہربانی کا مطلب ہے ” مہربانی کے لیے “ اب جملہ یوں ہوا کہ مہربانی کے لیے مجھے ایک یوم کی رخصت عنایت کی جائے۔درست لفظ ” براہِ مہربانی “ ہے

اِسّب گول : ” اِسّب گول تے کُجھ نہ پھرول “ مگر جناب ہم کچھ نہ کچھ ضرور پھرولیں گے، اس لیے کہ ” اِسّب گول “ یا ” اِسّب غول “ دونوں ہی غلط ہیں۔درست لفظ ” اَسپِ غول “ ہے۔” اَسپ “ فارسی زبان میں گھوڑے کو کہتے ہیں اور ” غول “ کا مطلب ہے ” کان “چوں کہ اِس کا پودا گھوڑے کے کان جیسا ہوتا ہے اس لیے اسے ” اَسپِِ غول “ کہا جانے لگا مگر یار لوگوں نے اسے اِسَب گول بنا کر رکھ دیا۔

وطیرہ : وطیرہ بے معنی لفظ ہے۔درست املا ” وتیرہ “ ہے۔اس کا مادہ ” وتر “ ہے اور معانی ہیں دستور، رَوِش، نہاد وغیرہ، امید اب آپ اِس لفظ کو درست املا کے سات لکھنے کا وتیرہ اپنائیں گے

قرضِ حسنہ :- ایک جملہ ملاحظہ کریں! اسلم نے اجمل سے قرضِ حسنہ لیا ہے۔ فقرے کے آخر میں ” لیا ہے “ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ” قرض “ اردو زبان میں مذکر ہے مونث نہیں۔اس لیے اردو زبان میں ” قرضِ حسنہ “ کی بجائے ” قرضِ حَسن “لکھنا اور بولنا چاہیے سنہری موقع یہ جملہ بھی دیکھیے! ”امتحان میں کامیابی کا یہ سنہری موقع ہے “لفظ موقع مذکر ہے چنانچہ اِس کے ساتھ سنہری کی بجائے سنہرا لکھنا اور بولنا چاہیے ناصر کاظمی کا شعر ملاحظہ کریں 

پتھرکااک سانپ سنہرا

 کالے پتھر سے لپٹا تھا

نوشی گیلانی نے بھی کہا تھا

کسی کے لمس کا یہ معجزہ ہے

بدن سارا سنہرا ہو گیا ہے

بھارت سے تعلق رکھنے والے شاعر سلیم صدیقی کا بھی ایک بہت پیارا شعر ہے۔

کاش! آجائے پلٹ کر وہ سنہرا دَور پھر

بھائی بھائی کے لیے منہ کا نوالا چھوڑ دے

یہ بھی پڑھیں : خواب میں تسلی دینے کی تعبیر

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent