Ticker

6/recent/ticker-posts

Mysterious disease 12 deaths in 12 days in the same family?

پراسرار بیماری ایک ہی خاندان میں 12 دنوں میں 12 اموات؟

ضلع رحیم یارخان کے علاقے تھانہ رکن پور موضع تاج پور پیر والا کی بستی لغاری میں گزشتہ بارہ روز کے دوران پراسرار بیماری کے باعث ایک ہی گھر کے آٹھ بچوں بچیوں سمیت بستی کے بارہ افراد ناگہانی موت کا شکار ہوچکے ہیں پراسرار بیماری کا شکار ہو کر جانبحق ہونے والوں کےاہلخانہ اور دیگر ورثاء نے بتایا کہ بچوں بچیوں کو تیز بخار کیساتھ شدید جسم درد ہونے لگتا ہے اس دوران مریض کے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے جس سے مریض بے ہوش ہوجاتا ہے اور چند گھنٹوں بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے پراسرار بیماری سے جانبحق ہونے والوں کی عمریں دو سال سے بچیس سال کے درمیان ہیں جانبحق ہونے والوں میں اٹھارہ سالہ دو جڑواں بہنیں بھی شامل ہیں پراسرار بیماری میں مبتلا سات سالہ بچہ اور ڈیڑھ سالہ بچی شیخ زید ہسپتال رحیم یارخان میں زیر علاج ہیں سوشل میڈیا اور میڈیا پر اس بیماری سے متاثرہ خاندان اور اموات کی خبریں آنے پر محکمہ صحت رحیم یار خان کے ڈاکٹروں کی ٹیم نے مرض کی تشخیص کے لیے ابتدائی لائحہ عمل اپناتے ہوئے پراسرار بیماری میں مبتلا بچوں بچیوں کے گھروں کا دورہ کیا جہاں پر انہوں نے گھر کے دوسرے صحت مند افراد کے خون اور زیر زمین پینے کے پانی کے نمونے حاصل کیے ان ڈاکٹرز حضرات کے مطابق خون اور پینے کے پانی کے نمونے جانچ کے لیے لیبارٹری ارسال کیے جارہے ہیں نمونوں کی مدد سے ملنے والی رپورٹ کے بعد ہی مرض کی درست تشخیص اور اسکے مؤثر علاج کی راہ ہموار ہوپائے گی چند دنوں کے دوران ایک بستی، ایک گھر اور خاندان میں درجن کے قریب اموات ہونے پر اہلیان علاقہ نہ صرف شدید تشویش میں مبتلا ہو چکے ہیں بلکہ ایک خوف کا شکار ہو چکے ہیں متاثرہ علاقے کے عوام نے صوبائی اور وفاقی وزیر صحت سے فوری نوٹس لیتے ہوئے مرض کی تشخیص اور مؤثر علاج کروانے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کیا ہے ان کا کہنا تھا کہ کہیں بیماری کا وائرس پھیل کر پورے علاقے کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے پراسرار بیماری میں مبتلا ہو کر جاں بحق ہونے والی فیملی کے دو بچے جنہیں شیخ زید ہسپتال شفٹ کیا گیا تھا زیر علاج دو بچوں میں سے ایک اور بچہ جان کی بازی ہار گیا پراسرار بیماری نے پورے علاقے میں کہرام مچا دیا اب ہلاک شدگان کی تعداد بارہ ہو گئی ہے ڈاکٹرز اور محکمہ ہیلتھ کی ٹیمیں بیماری کی درسے اور مکمل تشخیص کرنے میں ابھی تک ناکام دکھائی دے رہی ہیں ڈاکٹرز کی جانب سے اہل علاقہ اور جاں بحق افراد کے ورثا کو طفل تسلیاں کو سلسلہ جاری ہے دراصل یہ محکمہ صحت رحیم یار خان اور شیخ ذید ہسپتال کے ڈاکٹرز کی قابلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے جاں بحق افراد کی تفصیل درج ذیل ہے

1 سلمی بی بی دختر مقصود احمد بعمری 8 سال 2 عمیرہ بی بی دختر حسن بعمری 9 سال 3 اعجاز احمد ولد حسن 12 سال 4 زبیدہ بی بی زوجہ مقصود احمد بعمری 26 سال 5 مقصود احمد ولد نصیر احمد 25 سال 6 رابعہ بی بی زوجہ سجاد احمد 19 سال 7 عائشہ بی بی دختر محمد اسلم 7 سال 8 شہناز بی بی دختر محمد اسلم بعمری ڈیڑھ سال 9 بشرہ بی بی دختر محمد اسلم بعمری 18 سال 10 نذیرہ بی بی دختر محمد اسلم بعمری 16 سال اقوام لغاری سکنہ موضع تاج پور پیر والا 11 محمد آصف ولد محمد اسلم بعمری7 سالہ 12 شیخ زاید ہسپتال میں زیر علاج دو بچوں میں سے ایک اور کی ڈیتھ بھی ہو چکی ہے

یہ بھی پڑھیں : خواب میں ٹھوکر دیکھنے کی تعبیر

محترم قارئین کرام، محکمہ صحت رحیم یار خان کی کارکردگی اور ضلعی انتظامیہ کے خشک رویے یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے میں اپنے مشاہدے سے گزرنے والی ایک بات آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں تاکہ تلخ زمینی حقائق اور سرکاری اداروں کےآفیسران کے رویوں بارے کچھ آگاہی ہو سکے رکن پور سے ہیڈ حاجی پور کی طرف جاتے ہوئے بستی دھاندو موضع مانک کا ایک غریب خاندان گذشتہ کئی سالوں سے عجیب و غریب بیماری کا شکار ہے 14سال کی عمر کے بعد اس خاندان کے افراد کے دھڑ کا نچلا حصہ کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے پھر رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ مفلوج ہونے لگتا ہے بلاآخر وہ ہمیشہ کی معذوری کا شکار ہوکر زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں غریب لوگ جمع پونجی علاج پر خرچ کرکے آخر کار تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں کم و بیش اس بیماری کی وجہ سے اس خاندان کے دس سے زائد لوگ اب تک شکار ہو چکے ہیں کچھ مر چکے ہیں اور کچھ حیات ہیں اللہ تعالی کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے میرے کسان دوست ملک اللہ نواز مانک کو انہوں نے مجھے اس مسئلے پر آواز اٹھانے لکھنے اور کچھ کرنے کے لیے کہا تو میں ان کے ساتھ اس وقت کے عوامی ڈپٹی کمشنر جمیل احمد جمیل کے پاس گیا سارا مسئلہ اور نوعیت گوش گزار کی تو انہوں نے فوری طور پر رانا ریاست علی کے ذمے لگایا کہ وہ اپنی نگرانی میں محکمہ صحت کی ٹیم لے جا کر مریضوں کا تفصیلی معائنہ کروائیں تاکہ ان کے باقاعدہ علاج کے بارے میں آگے بڑھا جا سکے موصوف رانا ریاست صاحب بڑے بااخلاق اور ملنسار  گویا کُل پرزہ قسم کے آفیسر تھے ڈی سی آفس میں ریاست صاحب کی ایک ریاست تھی انہوں نے اگلے روز دس بجے رکن پور آنے کا ٹائم دیا ملک اللہ نواز مانک ان کا انتظار کرتے رہے نہ وہ آئے نہ محکمہ صحت کی کوئی ٹیم آئی فون کرنے پر دفتری مجبوری بتائی اور کہا کہ آپ کل میرے دفتر آجائیں یہاں سے ایک ساتھ چلیں گے ملک اللہ نواز مانک سخت سردی میں تقریبا 60 کلومیٹر کا سفر طے کرکے رکن پور سے رحیم یار خان شہر پہنچا مگر موصوف صادق آباد کے دورے پر نکلے ہوئے تھے اس طریقے سے میرے دوست نے بیماری کا شکار غریب خاندان کے لیے کئی چکر کاٹے مگر غریب کے حصے میں گھاٹے ہی گھاٹے رہے جمیل احمد جمیل کے بعد آنے والے ضلعے کے کپتان کو بھی یاد دلایا اور بتایا گیا کئی ڈپٹی کمشنرز بدل گئے مگر بات نہ بن سکی ملک اللہ نواز مانک دنیا چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ رانا ریاست علی صاحب بھی ضلع چھوڑ کر جا چکے ہیں مگر محکمہ صحت کی ٹیم ابھی تک رکن پور نہیں جا سکی ریسپانس اور کارکردگی کا یہ عالم ہے

اب بستی لغاری کے غریب لوگوں کے ساتھ حکمران، ضلعی انتظامیہ اور محکمہ صحت کیا سلوک کرتا ہے اس کا اندازہ بھی آنے والے دنوں میں ہو جائے گا سنا ہے کہ محکمہ صحت والوں نے مذکورہ بالا اموات کی وجہ ایک دماغی وائرس کو قرار دیا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہے کہ وائرس کیسے پیدا ہوا یا کہاں سے آیا گھر اور خاندان کے افراد میں کیسے پھیلا اس وائرس کے باقی لوگوں میں پھیلاؤ کے خطرات کس حد تک ہیں اس طرح کی کوئی مزید آگاہی فراہم نہیں کی گئی یہ تفصیل بھی ابھی تک سامنے نہیں آسکی کہ اس وائرس یا بیماری کے علاج، سدباب اور روک تھام کے لیے حکومت اور محکمہ صحت نے کیا اقدامات اٹھائے ہیں حفظ ماتقدم کے طور علاقے کے عوام کو بیماری اور وائرس سے بچاؤ کے لیے کیا کرنے کو کہا گیا ہے ایسی کوئی اطلاعات نہیں ہیں بحیثیت قلمکار میری تمام صحافی بھائیوں سے گزارش ہے کہ وہ مسئلے کے حتمی حل تک ہر دو کیسز بستی لغاری اور بستی دھاندو کا ہر دوسرے دن فالو اپ بھیجتے رہیں آپ جاگتے اور آواز اٹھاتے رہیں گے تو تب جاکر ان غریبوں کی کچھ سنی جائے گی

 یہ بھی پڑھیں : صحافت ایک مقدس پیشہ

محترم قارئین کرام، مذکورہ بالا بستی لغاری کے لوگ سابق وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور سابق صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے انتخابی حلقہ جات کے ووٹرز ہیں یکے بعد دیگرے 12 روز میں 12 اموات واقع ہو جانے کے باوجود الیکٹیبلز طبقے میں سے کسی کو بھی مدد تو دور کی بات ہے صرف تعزیت کے لیے جانے کی بھی توفیق نصیب نہیں ہے یہ طبقہ اور ان کے حواری بیماری اور وائرس کے خلاف اور غریبوں کے حق میں اس لیے آواز نہیں اٹھاتا کہ کہیں وائرس اُن کی آواز سن کر اُن کے پیچھے نہ آ جائے اللہ معاف کرے عوامی نمائندگی کے دعویدار آخر عوام کے لیے کب اور کیسے بولیں گے انہیں غریبوں کا احساس کب ہوگا یہ ہم سب عوام کے سوچنے کا سوال ہے علاقے کا ہر چوتھا شخص یرقان کا شکار ہے

تحریرجام ایم ڈی گانگا

پاکستان بھر میں ضلع رحیم یار خان کا دوسرا نمبر ہے پہلے نمبر پر بھی سرائیکی وسیب ہی کا ضلع ڈیرہ غازی خان ہے ذرا دیہی علاقوں میں پینے کے پانی کی پوزیشن تو چیک کروائی جائے کہنے کو تو ضلع میں اربوں روپے کے صحت کے منصوبوں پر کام جاری ہیں مگر اکثر جگہوں پر لوگ پانی کے نام پر زہر پی رہے ہیں اتنی لاپرواہی اور خاموشی کیوں آخر اس کا حل کب اور کون نکالے گا؟

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent