Ticker

6/recent/ticker-posts

علمبر دار شریعت حضرت پیر مخدوم سید محمد محسن شاہ گیلانی

Sharia pioneer Hazrat Pir Makhdoom Syed Muhammad Mohsin Shah Geelani

یوں تو پوری دنیا میں اور خصوصاً برصغیر پاک و ہند میں ترویج و اشاعت اسلام کے لیے صوفیاء کرام کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا حضرت غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی، حضرت سید علی ہجویری داتا گنج بخش ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ، حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی حضرت خواجہ نور محمد مہاروی حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی کی خدمات کا کون انکار کر سکتا ہے انہی نفوس قدسیہ میں ایک نام حضرت پیر مخدوم سید محمد محسن شاہ گیلانی کا بھی ہے آپ ریاست بہاول پور کے مردم خیز علاقہ محسن آباد ترنڈہ محمد پناہ ضلع رحیم یار خان میں حضرت مخدوم سید محمد عالم شاہ گیلانی کے گھر 16 ذوالحج 1334ھ بمطابق 14 اکتوبر 1916ء کو پیدا ہوئے۔ آپ نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں علم و عمل کی صدیوں پرانی روایات زندہ و تابندہ تھیں چنانچہ اس جوہر قابل نے اس ماحول کے اثرات کو پوری طرح جذب کیا والد گرامی نے اپنے ہونہار فرزند کی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے کیا۔ ختم قرآن مجید کے بعد ابھی ابتدائی کتابیں شروع کیں کہ دس سال کی عمر میں سایہ پدری سے محروم ہو گئے یوں ایک یتیم، کمزورو نا تواں اور کم عمر بچہ امتحان گاہ میں آگیا، لیکن آپ نے جس جوان مردی، عزم وحوصلے اور استقلال سے اس امتحان میں سرخرو ہوئے اس پر کہنا پڑتا ہے۔


وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے 

علمبر دار شریعت حضرت پیر مخدوم سید محمد محسن شاہ گیلانی

آپ نے ابتدائی تعلیم جید عالم دین اور درویش منش انسان مولانا غلام رسول سے حاصل کی بعد ازاں جامع المعقول والمنقول اور مستند عالم دین مولانا سلطان محمود سے تکمیل ظاہری علوم کی باطنی علوم کے لیے مجدد وقت اعلیٰ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی کی خدمت میں حاضر ہو کر سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے سلوک کی منازل مرشد کی زیر نگرانی طے کرنے کے بعد خلافت سے سرفراز کیے گئے ۔ آپ انتہائی متقی، پرہیز گار، قائم الیل سخی اور رحم دل طبیعت کے مالک تھے آپ نے ہمیشہ لوگوں کو تزکیہ نفس، اصلاح باطن اور قلب کی پاکیزگی کا درس دیا۔ آپ نے خانقاہی نظام میں پیدا ہو جانے والی بدعات ورسوم کا قلع قمع کرنے ، ان میں نکھار، سدھار اور اخلاص پیدا کرنے کے لیے اپنا تمام وقت وقف کر دیا۔ اللہ تعالی نے آپ کو مقبولیت و محبوبیت کا ایسا بلند درجہ عطا فرمایا جہاں جید علمائے کرام ، مفتیان وقت ، متشدد مزاج علماء، جابر زمینداروں اور عوام الناس نے ایک دوسرے سے بڑھ کر عقیدت سے گردنیں جھکائیں ۔

 مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں 

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتا ہے

آپ آخری دور میں مرجعیت کے انتہائی بلند مقام پر فائز تھے۔ آپ کے پاس ہمہ وقت متوسلین اور معتقدین کا مجمع لگا رہتا تھا۔ اس پاکیزہ محفل کے تقدس اور اس کی مسرت آمیز روحانی فضا اور محبت نبوی کے کیف کا انداز وہی حضرات لگا سکتے ہیں جنہیں یہ محفلیں نصیب ہوئی ہیں آپ غلو کو سخت نا پسند فرماتے اور آج کل کے پیروں کی طرح اپنے گرد تقدس و احترام کا غیر شرعی حصار قائم نہ کرتے، دور دراز کے علاقوں سے لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ آپ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کو بدعتوں اور خلاف شرع رسوم و رواجات سے منع سختی سے فرماتے تھے نماز با جماعت کی ادائیگی میں پابندی فرماتے ،نماز عموماً خود پڑھاتے، آواز میں شیرینی اور درد و سوز تھا۔ آپ کی اقتداء میں خیر القرون کی نمازوں کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا۔ آپ نے کبھی بھی اپنے دروازے پر حاجب نہیں رکھا آپ طبقات ودرجات کی پابندیوں سے آزاد تھے کوئی اوقات مقرر نہ تھے جب بھی کوئی چاہتا آپ سے ملاقات کر سکتا تھا۔ ہر ایک کے ساتھ خندہ روئی سے پیش آتے ۔ آپ کریم النفس ، کشادہ جبیں اور پاکیزہ گفتار کے مالک تھے۔ محفل میں شائستگی متانت اور وقار کی فضا ہوتی۔ کسی ستم رسید و مصیبت زدہ، حادثے کا شکار یا شدید بیار کو دیکھ لیتے تو پریشان ہو جاتے جب تک اس کی مدد اور دستگیری نہ کرتے ، بے قرار رہتے۔ تعلقات کے سلسلے میں آپ انتہائی وسیع القلب تھے اور صرف انسانی رشتے کی بنیاد پر تعلقات استوار کرتے تھے اور پھر انہیں اس وضعداری اور شان کے ساتھ نبھاتے کہ اس کی مثال عموما کم نظر آتی ہے:۔

انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یارب رہنے والے ہیں


 آپ کے تعلقات نظریاتی اور فکری مخالفوں کے ساتھ بھی برابر قائم رہے۔ اگر دن مخلوق خدا کی ہمدردی اور غم سمیٹنے میں گزرتا تو رات رو رو کر بارگاہ الہی سے امداد

طلب کرنے میں بسر ہوتی۔ آپ صوفیاء کرام کی دردمندی، زہد و ورع ، عالی ہمتی اور خدمت خلق جیسے اوصاف حمیدہ کے امین تھے آپ مطالعہ کے رسیا تھے آپ کو کتابوں سے بے حد لگاؤ تھا قرآن وحدیث سے استفادہ میں آپ کو خاص ملکہ تھا فقہ کے اکثر مسائل آپ کی دسترس میں ہوتے انداز بیاں دلکش و دلنشیں ہوتا نکتہ سنجی اور خیال آفرینی میں بے مثال تھے کوئی چیز نظر سے گزرتی تو اس سے ایسے بار یک مسائل اخذ کر لیتے جن کی طرف عام آدمی کی توجہ ہی نہیں ہوتی دورانِ مطالعہ اگر کوئی ایسی بات آجاتی، جس پر کوئی تبصرہ ضروری ہوتا تو آپ انتہائی جامع اور خوش خط الفاظ میں اپنی تحقیق رقم کر دیتے آپ بنیادی طور پر مسلمانوں میں اتحاد واتفاق کے داعی اور علمبر دار تھے جہاں کہیں ایسے تبصرے ہوئے ہیں ان کو کسی مسلک کی عینک لگا کر نہیں بلہ تحقیق جستجو، راست فکری حق پرستی کی نظر سے دیکھنا چاہیے آپ ایک صوفی منش انسان تھے اس لیے اُمت مسلمہ میں اختلاف کے خلاء کو کم کرانے کے داعی اور علمبردار تھے

آپ کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ کسی نہ کسی طرح ان اختلاف کو کم کیا جائے۔ اس معاملے میں آپ کے نزدیک روحانی مراکز ہی مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں آپ نے کبھی بھی تعصب کا مظاہر نہیں کیا۔ ہمیشہ فروعی اختلاف ترک کرنے کی ترغیب دیتے، اور اس مقصد کے لیے کوشاں رہتے۔ جب کبھی بھی مسلمانوں کو اجتماعی مسائل کے لیے ضرورت پیش آئی تو دیدۂ بیدار کی حامل یہ شخصیت بلا پس و پیش میدانِ عمل میں آجاتی تحریک پاکستان کے حوالے سے بھی آپ کا کردار نمایاں رہا اور قیام پاکستان کے بعد اس کے استحکام کے لیے کوشاں رہے۔ قلب گداز اور چشم تر نے آپ کے اندر عاجزی، انکساری، فروتنی اور ہیچمدانی کی ایسی کیفیت پیدا کر دی تھی کہ آپ کو دیکھ کر قرونِ اولی کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ قدرت نے آپ کی طبیعت میں اس قدر اتباع شریعت کا جذبہ رکھا کہ آپ کو دیکھنے والا اجنبی شخص آپ کے بارے میں کچھ دریافت نہ کرتا اور آپ کا گرویدہ ہو جاتا


مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم

 تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے


آپ مرد مومن تھے حق گوئی اور راست بازی کی عملی تفسیر تھے

علمبر دار شریعت حضرت پیر مخدوم سید محمد محسن شاہ گیلانی

تحریر محمد عباس لاڑ

یوں تو آپ کی پوری زندگی کا ہر لمحہ یاد الہی، خدا خوفی، آخرت کی فکر اور اتباع سنت سے عبارت تھا مگر آخری ایام میں آپ کی نشست و برخاست اور زندگی کے ہر پہلو میں یہ چیزیں زیادہ جھلکتی تھیں تعویذ اور دم کے لیے روزانہ سینکڑوں لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ بڑے بڑے افسران اور صاحب ثروت لوگ اپنے دنیاوی امور کے لیے کئی کئی روز تک قیام کرتے آپ نے کبھی اس چیز کو جاہ و منصب کا ذریعہ نہ بنایا، بلکہ اس بہانے لوگوں کو مختصر اور مؤثر الفاظ میں تبلیغ فرماتے ۔ اسی تلقین کے طفیل کئی لوگوں نے اپنی زندگیاں سنواریں۔ آپ کی ذات فقر و درویشی کا پیکر اور عشق رسول کا مجسمہ تھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو مثالی صحت سے نوازا تھا لیکن کچھ عرصہ سے مرض قلب کی شکایت ہوگئی جو بلآخر جان لیوا ثابت ہوئی اللہ تعالی کا یہ مقبول بندہ 16محرم 1406ھ بمطابق یکم اکتوبر 1985ء کو واصل بحق ہوا

وے صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں

اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں

آپ کو اپنے گرامی مرتبت والد کے پہلو میں خانقاہ عالیہ قادریہ کانڈھ شریف ( کوٹلہ رحم علی شاہ ) تحصیل جتوئی ضلع مظفر گڑھ میں سپردخاک کیا گیا جہاں آپ کا مزار زیارت گاہ خلائق ہے

 آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

Post a Comment

0 Comments

click Here

Recent