For the people, 2019 is a year of deficit for the farmers

تحریر،جام ایم ڈی گانگا

،سال 2019ءاپنی کئی دلخراش یادوں کے ساتھ الوداع ہوا۔ 2019ءبھی عوام کے لئے بھاری ثابت ہوا۔ موجودہ حکومت نے اپنے دعوﺅں کے برعکس 2019ءکے دوران بھی عوام کو صرف مہنگائی‘ غربت اور بے روزگاری کا تحفہ دیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت گزشتہ سال ہر محاذ پر ناکام ثابت ہوئی جبکہ اب 2020ءکو معاشی ترقی اور خوشحالی کا سال قرار دیا جارہا ہے مگر تاحال معاشی پالیسی کے میدان میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں لائی جاسکی. درآمدات اور برآمدات کی پالیسیاں بھی سوچے سمجھے بغیر عالمی ساہو کاروں کی ہدایات کے تحت بنائی جا رہی ہیں. قومی اور عوامی مفاد میں حقیقی پلاننگ کا ابھی تک کوئی واضح روڈ میپ اور ٹھوس عملی کام دکھائی نہیں دے رہا. ہاں البتہ دعووں اور امیدوں کے پہاڑ اسارے اور دکھائے جا رہے ہیں. اللہ تعالی ملک وقوم کے لیے حکمرانوں کو بہتر فیصلے کرنے اور درست سمت میں چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

سال2019کسانوں کے لیے نقصان اور خسارے کا سال ثابت ہوا ہےحکمرانوں نے کسانوں کے ساتھ کیے وعدوں کو بھی پورا نہیں کیا.بجلی کے زرعی ٹیوب ویلز پر نئے پرانے ٹیکسوں کے ساتھ ساتھ کئی قسم کےجگا ٹیکس شامل کرکے کسانوں پر مزید معاشی بوجھ بڑھا دیا گیا ہے. کسانوں کو ریلیف کے نام پر فراڈ اور گھپلا ٹائپ کوپن سکیمیں متعارف کراکے قومی سرمایہ ضائع کیا جا رہا ہے. ایسی سکیموں کا زراعت اور کسانوں کو کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں ہی. گنے گندم سمیت کسانوں ان کی فصلات کے جائز ریٹس نہیں دیئے یا نہیں دلائے جا سکے اور نہ ہی کھادوں کے ریٹ کم ہوئے ہیں.میرے ضلع رحیم یار خان کابوڑھا کسان اپنے بیلنے پر بیٹھا یہ گنگناتا نظر آتا ہے. 
دیس دے چٹے کبوتر کالے کاں ماہیا
کسانیں دی کئی نی سنڑدا دھاں ماہیا

اب ہم ضلع رحیم یار خان کے حوالے سے سال2019کی کار گزاری کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں. کہ پرانے اور نئے پاکستان میں کیا فرق سامنے آیا ہے.غیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو رحیم یارخان میں بھی کوئی خاطر خواہ ترقیاتی کام اور منصوبے مکمل نہ ہوئے اگرچہ نئے بلدیاتی نظام کی منظوری کے ساتھ رحیم یارخان کو میونسپل کارپوریشن کا درجہ تو دے دیا گیا مگر کارپوریشن کے مطابق فنڈز، سہولیات اور مشینری فراہم نہیں کی گئی. عوام کا علیحدہ صوبے کے قیام کےمطالبے پر بھی ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی.حالانکہ سابقہ حکومت کے دور میں پنجاب اسمبلی سے متفقہ طور پر پاس ہونے والی صوبہ بہاول پور  اور صوبہ جنوبی پنجاب کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا. صاحب اقتدار جماعت میں معاہدے کے تحت شامل ہونے والے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے قائدین مخدوم خسرو بختیار، میر بلخ شیر خان مزاری، سردار نصر اللہ خان دریشک و دیگر اور تحریک انصاف کی قیادت عمران خان اور رہنماوں جہانگیر خان ترین، مخدوم شاہ محمود قریشی و دیگر کو شاید عوام سے کیا گیا یہ سب سے بڑا اور سب سے اہم وعدہ بھول گیا ہے. حکومت میں آنے کے بعد گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ ان کے کردار اور قول و فعل سے تو ایسے لگتا ہے کہ شاید یہ اپنا صوبہ اپنا اختیار کا نعرہ سچ اور حقیقت نہیں بلکہ محض الیکشن جیتنے کے لیے عوام کو لگایا جانے والا دلفریب و دلکش لارا تھا جو انتہائی کامیاب رہا. مقصد اور مطلب حل ہونے کے بعد ان کے رویوں آنے والی تبدیلی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے. سرائیکی وسیب کے لیے علیحدہ سول سیکرٹریٹ کے قیام کی تجویز اور سیاسی شور و غل شروع کرکے یوٹرن کی بنیاد رکھ دی گئی.وہ سول سیکرٹریٹ بھی ابھی تک کہیں منظر عام پر نہیں آیا۔ 
 اس کے علاوہ خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو ابوظہبی روڈ پر قائم تو کردیا گیا لیکن اس کے فیز ون کے پی سی ون کے مطابق کام ابھی تک مکمل نہیں ہوئے جن میں اکیڈمکس بلاکس کی تعمیر کے تکمیل کے مراحل‘ ایڈمن بلاک کی تعمیر‘ اسٹاف کالونی‘ طلباءو طالبات کے لئے ہاسٹلز ‘ کھیل کے میدان ‘ اڈیٹوریم ‘ شاپنگ کمپلیکس اور نئی بسوں کی خرید کے علاوہ فیز ٹو کے ترقیاتی کاموں کا فنڈز کی عدم دستیابی کے باعث شروع نہ ہونا بھی شامل ہے۔ یہ یونیورسٹی نہ صرف رحیم یارخان بلکہ سرائیکی وسیب کے طلباءو طالبات کے لئے ایک بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس کے آغاز سے ہی اس کے اندر مسائل نے سر اٹھالیا اور اب حالت یہ ہے کہ ایک طرف تو اسٹاف کو دینے کے لئے تنخواہیں نہیں ہیں اور اس کے لئے دوسری طرف طلباءو طالبات کی فیسوں میں 100 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے. اس کے علاوہ ضلع میں ایک بڑا پراجیکٹ خان پور کیڈٹ کالج کا ہے جو کہ گزشتہ 12سال سے منظور شدہ ہے اور اس کی تعمیر کا کام تو 2017ءسے شروع ہوچکا ہے لیکن ابھی تک اس کی تکمیل سست روی کا شکار ہے۔بے نظیر شہید بریج کے سنگ بنیاد کے وقت سابق وزیر اعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے تاریخی قصبہ چاچڑاں شریف کو ماڈل ویلیج بنانے کا جو اعلان کیا اور فنڈز دیئے تھے.نہ جانے وہ منصوبہ اور فنڈز کہاں گے. انہیں زمین کھا گئی یا ساتھ بہتا دریا نگل گیا ہے. دریائی کٹاؤ کی نظر ہو گئے ہیں یا سازشی عناصر کی نظر بد کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں.کس چنڈ سے گھنڈ کرکے غائب ہو گئے ہیں.اس کا کوئی اتا پتہ نہیں.اس بارے ریسکیو بھی خاموش ہے. ملاں، پیر فقیر قطب الاقطاب سب چپ ہیں.قبرستان کے مکینوں کی طرح چاچڑاں شریف کے مکین آرام فرما ہیں. نہ جانےاب یہاں کب دبے لفظوں کو طاقت و توانائی فراہم کرنے والا کوئی تحریکی خواجہ محمد ناصر رحمانی، مسعود اشعر صدیقی اور در محمد نیازی پیدا ہوگا.
 رحیم یارخان میں محمود اسٹیڈیم کی جگہ شیخ زید میڈیکل کالج و ہسپتال کو دینے کے بعد شہر میں کھیلوں کے میدان ناپید ہو کر رہ گئے۔ شہر میں کوئی نیا اسٹیڈیم نہ بن سکا۔ نوجوان نسل معاشرتی برائیوں کا شکار ہونے لگی ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ چھاﺅنی گراﺅنڈ کی جگہ عالمی معیار کے اسٹیڈیم کی تعمیر کے لئے مختص کی جائے تاکہ نوجوان نسل کو شہر کے اندر تفریحی سہولیات میسر آسکیں۔ اسی طرح ضلع رحیم یارخان میں قومی شاہراہ پر مسلم چوک آدم والی کے مقام پر مزدوروں کے سوشل سیکورٹی ہسپتال کی تعمیر کا منصوبہ گزشتہ 9 سال سے التواءکا شکار ہے، ہسپتال کی تعمیر کا کام چاردیواری سے آگے نہ بڑھ سکا، محنت کشوں مزدوروں کی علاج گاہ موجودہ حکومت میں ضلع رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والے وزراءکی نظروں سے بھی اوجھل، سینکڑوں رجسٹرڈ صنعتی اداروں سے ماہانہ دو کروڑ روپے کنٹری بیوشن کے حصول کے باوجود محنت کش طبقہ نیلی، پیلی گولیوں پر گزارہ کرنے پر مجبورہیں. وسائل کا رخ سرائیکی وسیب کی جانب موڑ دینے کے دعویدار حکمرانوں کے دعووں کی نفی کرتے میرے ضلع رحیم یار خان خطہ سرائیکستان میں ایسے کئی منصوبے ہیں جن میں سے کچھ عالم بے ہوشی کا شکار ہیں اور کچھ رینگ رینگ کر گھنٹوں کے بل رڑھتے چلتے اور رکتے دکھائی دیتے ہیں. اس کے علاوہ ضلع کا ایک اور اہم منصوبہ جہانگیر خان ترین کا خواب اور چودھری پرویز الہی کا اعلان کردہ منصوبہ جو کہ گزشتہ 9 سال سے تعمیر کے مراحل میں ہے وہ ہے رحیم یارخان انڈسٹریل اسٹیٹ اس کا سابق وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے دو بار افتتاح کیا مگر اس کے باوجود ابھی تک اس کے فیز ون میں ترقیاتی کام رکے ہوئے ہیں جبکہ فیز ٹو تو ابھی ایک خواب دکھائی دے رہا ہے۔ سی پیک منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی رحیم یارخان انڈسٹریل اسٹیٹ کی اہمیت کا اندازہ ہوگا جبکہ اس انڈسٹریل اسٹیٹ کو تو ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کا درجہ ملنا چاہیئے تاکہ ہمارے ضلع میں بہترین آم کی پیداوار اور کپاس کی پیداوار سے بننے والی مصنوعات کو برآمد کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ رحیم یارخان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کارگو فلائٹس کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کرسکی۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 2008ءمیں سابق وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے 158 ملین روپے کی خطیر گرانٹ سے شیخ زید ایئرپورٹ پر مینگو کولڈ سٹوریج ‘ گرینڈنگ اینڈ پیکنگ پلانٹ کا بھی سنگ بنیاد رکھا تھا۔ یہ منصوبہ بھی آج تک سرخ فیتے کی نذر ہوکر رہ گیا ہے بلکہ اب تو سنگ بنیاد کی لگائی گئی تختی بھی غائب ہوچکی ہے۔ اسی طرح بیرون ملک ابوظہبی جانے والی پی آئی اے کی فلائیٹس بند کردی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شیخ زید انٹرنیشنل ایئرپورٹ رحیم یارخان پر فیول ڈپو کا بھی کوئی انتظام نہ ہوسکا جس کی وجہ سے رحیم یارخان آنے والی فلائٹس کو اپنا واپسی کا فیول اپنے ہمراہ لے کر آنا پڑتا ہے اور مسافروں کا سامان پیچھے رہ جاتا ہے۔
اس دعا کے ساتھ نئے سال میں داخل ہونے جا رہے ہیں کہ یااللہ ہمارے حال پر رحم فرما.
حکمرانوں کو قومی وسائل کے منصفانہ تقسیم کی توفیق اور ہدایت عطا فرمائے. عوام کی بے حسی کو شعور اور جرات میں بدل دے. ظالم کے مقابلے میں سچ کا ساتھ دینے والا بنا دے.غاصبوں لٹیروں  ظالموں کی غلامی سے چھٹکارا اور صرف اپنی، اپنے محبوب رسول کریم کی اطاعت کرنے والا انسان اور بندہ بنا دے آمین