A review of government claims and educational facilities
تحریر،جام ایم ڈی گانگا
محترم قارئین کرام، ضلع رحیم یارخان کا شمار سرکاری زبان میں جنوبی پنجاب اور عوامی زبان میں خطہ سرائیکستان کے ترقی یافتہ ضلع میں ہوتا ہے. سرائیکی وسیب کے پسماندہ اضلاع میں تعلیمی سہولیات کی کیفیت، موجودہ حقائق اور پوزیشن کیا ہے. اس کا اندازہ ترقی یافتہ ضلع رحیم یار خان میں تعلیمی سہولیات اور حالات کو پڑھنے اور جاننے کے بعد باآسانی لگایاجاسکتا ہے.حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والے ایم این ایز، ایم پی ایز، وزیروں مشیروں کے دعوے، اشتہار بازیاں، ان کے قصیدہ خوانوں کی قصیدہ خوانیاں سننے کے بعد ایسے لگتا ہے کہ شاید کوئی انقلاب آگیا ہے. سننے اور پڑھنے کی حد تک تو ان کی ساری باتیں بالکل ٹھیک لگتی ہیں. مگر جب آپ موقع پر جا کر حالات اور حقائق کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیتے ہیں تو یقین کریں. ان حضرات کی جانب سے تعمیر کی گئی جھوٹ کی دیواریں خود بخود گرانے لگتی ہیں.حقیقت زیادہ دیر چھپ نہیں سکتی. یہ پرنٹ اور الیکٹر ک میڈیا کی اجارہ داری کا دور نہیں رہا. اور نہ ہی اس طرح کی دباؤ اور سنسر شپ سچ کے راستوں کو روک سکتی ہے کیونکہ یہ سوشل میڈیا کا تیز ترین دور، بے باک اور بے لگام دور ہے. اچھائی ہو یا برائی، ظلم و زیادتی ہو یاخدمت گزاری،سچ ہو یا جھوٹ اس کا پردہ چاک دنوں میں نہیں اب تو گھنٹوں اور منٹوں میں ہو جاتا ہے. خواہش اور شدید کوشش کے باوجود بھی طاقتور سے طاقتور بھی اسے نہیں روک سکتا. خیر یہ ایک علیحدہ بحث ہے. ویسے تو آپ کو ہر شعبے میں حالات دعووں کے برعکس ہی ملیں گے. سردست ہم شعبہ تعلیم پر بات کر رہے ہیں.ضلع رحیم یار خان کے سرکاری تعلیمی ادارے جہاں غریبوں اور مڈل کلاس عوام کے بچے پڑھتے ہیں وہ کن حالات سے دوچار یاکسمپرسی کا شکار ہیں
آج میں صوبے کے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت کے محل اور مخدوم سیکرٹریٹ میانوالی قریشیاں کی دیواروں سے ملحقہ گورنمنٹ ہائی سکول کی حالت زار بیان نہیں کروں کروں گا اور نہ ہی ان مخادیم صاحبان کے بنائے گئے گرلز کالج گانگا نگر چک 64این پی کے گونا گون مسائل پر بات کروں گا کیونکہ مخادیم صاحبان نہ صرف سخت ناراض ہوتے ہیں بلکہ اسے اپنی بے عزتی اوراپنا گلہ سمجھتے ہوئے مسائل کو اجاگر کرنے والے کو اپنا مخالف اور دشمن سمجھتے ہیں. اسے ڈائریکٹ یا ان ڈائریکٹ انتقام کا نشانہ بناتے ہیں. میانوالی قریشیاں کا منظور شدہ کالج یہاں سے سہجہ شفٹ کروانے پر راقم الحروف نے ایک کالم لکھا تھا. وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور میرے درمیان کیا بات ہوئی تھی.اس پر ایک کالم بھی لکھا تھا. پھر کیا ہوا بس ابھی آگے نہ پوچھیں اس پر پھر کبھی تفصیل سے ایک ایک کردار کی بات کریں گے.آج ہم ضلع کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے گورنمنٹ خواجہ فرید کالج کے حالات پر مبنی سوشل ورکر صحافی میاں محمدجمیل اظہر کی ایک تعلیمی رپورٹ آپ کے ساتھ شیئر کرتے ہیں.ضلع کے باقی اداروں کے حال کا اندازہ لگانے کے بعد وسیب کے باقی اضلاع کا اندازہ بھی لگا لیجئے گا. ترقی اور وسائل کا رخ موڑے جانے کے باوجود کیا حالات ہیں. سرائیکی وسیب کو وزارت اعلی اور وزارت خزانہ جیسی اہم وزارتیں ملنے کے بعد کہاں کیسی اور کتنی تبدیلی آئی ہے. عوام کو موقع پر تعلیم اور صحت کی حقیقی سہولیات کہاں تک دستیاب اور میسر ہیں. مزید بات سے قبل لیجئے پہلے یہ رپورٹ پڑھ لیں تاکہ بات کو سمجھنے میں آسانی رہے
”ضلع رحیم یارخان کے 19 گورنمنٹ بوائز اور گرلز کالجز کے طلبا وطالبات اساتذہ کی کمی اور دیگر بنیادی تعلیمی‘ رہائشی‘ ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہتر نتائج فراہم کرنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار اور منتخب عوامی نمائندوں نے بھی مسلسل چپ سادھ رکھی ہے۔ محکمہ تعلیم حکومت پنجاب کے زیر انتظام ضلع رحیم یارخان میں 8 گورنمنٹ بوائز کالج جبکہ 11 گورنمنٹ گرلز کالج کام کررہے ہیں جن میں 5 پوسٹ گریجوایٹ کالج بھی شامل ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں تقریباً 25 ہزار طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ ان کالجز میں اساتذہ کی کمی سے بات شروع کی جائےتوضلع رحیم یارخان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے خواجہ فرید گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج میں اساتذہ کی کل99 سیٹیں ہیں لیکن اس وقت84 لیکچررز تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جبکہ 15 سیٹیں خالی ہیں اور عارضی سی ٹی آئیز سے کام چلایا جارہا ہے۔ طلباءکی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر کالج میں مزید 40اساتذہ کی اشد ضرورت ہے یا پھر 40سی ٹی آئیز فراہم کئے جائیں اور دیگر گورنمنٹ بوائز اور گرلز ڈگری کالجز رحیم یار خان‘ صادق آباد‘ خان پور اور لیاقت پور میں بھی مجموعی طور پر سینکڑوں سیٹیں خالی پڑی ہیں جبکہ خان بیلہ‘ ظاہر پیر‘ چک 103 ون ایل‘ منٹھار اور سکھر اڈہ کے گرلز کالج اور دیگر قصبات کے بوائز اور گرلز کالجز میں ریگولر لیکچررز کی شدید کمی ہے۔ خاص طور پر فزیکل ایجوکیشن‘ لائبریری سائنس اور علاقائی زبانوں کی تدریس کے لئے اساتذہ بالکل نہیں ہیں۔ اسی طرح گرلز کالجز میں مستقل پرنسپلز نہ ہونے کی وجہ سے انواع اقسام کے انتظامی معاملات کا سامنا رہتا ہے۔ ریگولر اساتذہ کی شدید کمی بھی معیار تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔خاص طور پر بہاول پور ڈویژن کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ خواجہ فرید گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج گزشتہ کئی سالوں سے بنیادی سہولیات سے محروم چلا آرہا ہے۔1954ءمیں قائم ہونے والا انٹر کالج1962 میں گورنمنٹ ڈگری کالج کی صورت اختیار کرگیا اور جس طرح شہر کی آبادی بڑھتی گئی یہ ادارہ 1995ءمیں پوسٹ گریجوایٹ کالج کا درجہ تو حاصل کرگیا لیکن38ایکڑ رقبے پر وسیع وعریض ہونے کے باوجود اس کے اندر بلڈنگز‘ ہاسٹل اور دیگر سہولیات کی اپ گریڈیشن نہ ہوسکی۔ بہاولپور ڈویژن میں خواجہ فرید کالج اپنی انرولمنٹ اور نتائج کے لحاظ سے بڑا کالج گردانا جاتا ہے اور اس وقت بھی اس میں طلباءوطالبات کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد ہے لیکن سہولیات ناپید ہیں۔ اپ گریڈیشن کے بعد اس کالج میں پوسٹ گریجوایٹ کی سطح پر12 مختلف مضامین پڑھائے جارہے ہیں جن کیلئے قومی وبین الاقوامی معیار کے سیمینار منعقد ہوتے ہیں۔ساڑھے سات ہزار سے زائد طلباءو طالبات کو معیاری تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کے لئے 2 وائس پرنسپل ‘ 9ایسوسی ایٹ پروفیسر‘ 18 اسسٹنٹ پروفیسر اور 36 لیکچررز کی مزید فوری ضرورت ہے جبکہ نان ٹیچنگ سٹاف میں1 سینئر برسر ‘ 1 سینئر کلرک‘ 1ہیڈ کلرک‘8 جونیئر کلرک‘8 لیکچررز اسسٹنٹ‘10 لیبارٹری اسسنٹ‘2 الیکٹریشن‘4 ڈرائیور‘4 بس کنڈیکٹر‘ 8 درجہ چہارم اور8 سویپر کی بھی فوری ضرورت ہے ۔کالج میں ایم ایس سی اور ایف ایس سی کے طلباءوطالبات کیلئے فزکس اور کیمسٹری کے مضامین کیلئے ایک جدید آلات سے لیس لیبارٹری کی بھی ضرورت ہے۔ خواجہ فرید کالج کے اقبال ہاسٹل میں صرف120طلباءکی رہائش کی گنجائش ہے جو کہ ناکافی ہے۔ ہاسٹل کی عمارت بھی خستہ حال ہے جبکہ31 کمروں پر مشتمل جناح ہاسٹل کی عمارت بھی انتہائی مخدوش حالت میں ہے جو کسی بھی وقت زمین بوس ہوکر بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے جسے محکمہ بلڈنگ نے ناقابل استعمال قرار دے دیا ہے جو ایک کباڑ خانے کا منظر پیش کررہا ہے۔اس وقت خواجہ فرید کالج کے طلبا انتہائی مجبوری کی حالت میں نجی ہاسٹلز میں مہنگے کرایوں پر رہ رہے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ضلع بھر کے دوسرے کالجز میں بھی ہاسٹلز کی سہولت میسر نہ ہے جبکہ نئے کالجز کے نقشہ میں ہاسٹلز کی تعمیر ہی شامل نہ ہے۔ اسی طرح ضلع بھر کے کالجوں میں ایک اہم مسئلہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ شہر بڑے ہورہے ہیں اور مقامی طلبا وطالبات کو کالج پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اکثر کالجوں کی ٹرانسپورٹ کی سہولت کیلئے بسیں تو ہیں لیکن کافی پرانی ہونے کی بناءپر وہ کھٹارا بن چکی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ فوری توجہ طلب ہے۔ خاص طور پر غریب طالبات کی تعلیم میں مشکلات کے حل کیلئے یہ مسئلہ ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ خواجہ فرید کالج کے پاس صادق آباد اور کوٹ سمابہ کے طلباءکو لانے اور لے جانے کے لئے2 بسیں موجود ہیں مگر اقبال آباد‘ شیخ واہن‘ مو مبارک اور دیگر مضافات کے طلباءو طالبات کو لانے اور لے جانے کے لئے4 بسیں مزید درکار ہیں۔ طلباء‘ طالبات اور اساتذہ کے لئے کنٹین کی بھی فوری ضرورت ہے۔ کار اور موٹر سائیکل اسٹینڈ‘ 1000 گیلن کا واٹر ٹینک ‘38 ایکڑ کے احاطہ میں تفریحی ٹریک بنانے کیلئے ٹف ٹائل‘24 نئے کلاس رومز ‘ فرنیچر‘ ساڑھے ساتہزار طلباءاور سٹاف کیلئے3درجن واش رومز‘ ٹائلٹ کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس وقت خواجہ فرید کالج میں اساتذہ بچوں کو گراﺅنڈ اور گیلریز میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔ کالج میں اکیڈمک بلاک اور کم از کم 1ہزار سیٹس پر مشتمل ملٹی پرپز ہال کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ امتحانات اور دیگر تقریبات کے لئے مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ کالج میں کمپیوٹرز کی بھی کمی ہے کالجز میں پینے کے صاف پانی کی سہولتیں فراہم کرنے کیلئےواٹر فلٹریشن پلانٹ لگائے جائیں۔ واضح رہے کہ کالج کی عمارت کی توسیع کے لئے 32کروڑ روپے کی خطیر گرانٹ گزشتہ سال منظوری ہوئی جو تاحال ریلیز نہیں ہوسکی۔ بیوروکریسی اس کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں طلباءو طالبات آج بھی سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے گراﺅنڈز میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں انہوں نے وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار ‘ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت اور دیگر اراکین اسمبلی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالج میں طلباءکی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اس کی عمارت کی توسیع اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لئے منظور کردہ گرانٹ جلد ریلیز کی جائے تاکہ طلباءکو تعلیمی سہولیات میسر آسکیں۔ٗ
محترم قارئین کرام،میاں جمیل صاحب میری مادر علمی خواجہ فرید کالج کے اس تیسرے ہاسٹل کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں. جس پر گذشتہ کئی سالوں سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور نے قبضہ کر رکھا ہے. کالج کے طے کردہ واجبات بھی دبا رکھے ہیں.دوسری جانب غریب اور مستحق طلبہ رہائش کے لیے انتہائی تنگ اور مالی مشکلات کا شکار ہیں. خواجہ فرید انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی رحیم یار خان بھی گونا گون مسائل اور مالی مشکلات کی زد میں ہے. حالات سے مجبور یونیورسٹی انتظامیہ کس طرح اپنا مالی بوجھ طلبا و طالبات پر منتقل کرکے بڑھانے میں مصروف ہے. یہ داستان بھی بڑی دلچسپ مگر تلخ ہے.اگر میں یہ کہوں کہ وطن عزیز میں غریب اور مڈل کلاس لوگوں کا اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا بلکہ یہ کہنا حقیقت کے زیادہ قریب ہوگا کہ غریب والدین کا بچوں کے لیے تعلیم خریدنا مشکل سے ناممکن کی طرف ہوتا جا رہا ہے تو بے جا نہ ہوگا
یہ بھی پڑھیں : عوام کے لیے لارے،کسانوں کے لیے2019 خسارے کا سال
ضلع رحیم یار خان اور سرائیکی وسیب کے منظور ہونے والے منصوبہ جات اور اس خطے کے لیے بجٹ اور کاغذوں میں مختص کیے جانے والے فنڈز کے جمع خرچ کی رپورٹ بھی کاش کوئی ادارہ شائع کر دےتاکہ عوام حقائق کو جان سکیں. ویسے سابق وزیر اعلی میاں محمد شہباز شریف کے دور کے چیئرمین برائے اسٹینڈنگ کمیٹی فنانس مخدوم ہاشم جواں بخت اور موجودہ دور کا وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت سردارعثمان خان بزادر کے دور میں موازنہ کرتے ہوئے حکومت کے پہلے سو ایام کی تقریب کے دوران اپنے خطاب میں خاصی جرات مندی کے ساتھ بیان کر چکے ہیں.سابق حکومت کا سرائیکی خطے کو فنڈز دینے کا آپریشن کرنے والے صاحب موصوف جب تک شہبازشریف کے ساتھ رہے اسے وسیب کا میسحا سمجھتے تھے اس کے گن گاتے تھےمجھے یقین ہے کہ بہت جلد نئی رپورٹ اور نیا موازنہ پیش کرنے والے یہ دن پھر آنے والے ہیں
0 Comments